بدقسمت انسان اور کون ہوگا ؟

 ایک صبح نماز فجرکی ادائیگی کے بعد امام صاحب نے اعلان فرمایا کہ نماز کے فورا بعد قل خوانی کا ختم شروع ہوگا ۔ درخواست ہے کہ تمام نمازی قل خوانی کے اس ختم میں شریک ہوکر ثواب دارین حاصل کریں ۔ اعلان سنتے ہی میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے صرف ایک نوجوان دکھائی دیا جو چہرے سے کچھ اجنبی سا لگا ۔ باقی مسجدمیں وہی نمازی تھے جو ہر نماز میں ہوتے ہیں ۔دعا کے بعد نمازی اٹھ کر جانے لگے تو ایک دو افراد بوری سے نکال کر گٹھلیوں کے ڈھیر اس سفید چادر پر لگانے لگے ۔ میں سورہ یسین پڑھنے کے لیے مسجد میں ٹھہر گیا۔ کوشش کے باوجود میں کسی کو بھی نہ پہچان سکا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ مجھے اس محلے میں رہتے ہوئے چار سال ہوچلے ہیں ۔ میں ہر اس شخص کواگر نام سے نہیں تو شکل سے ضرور جانتا ہوں ۔ مجھے یاد ہے کچھ عرصہ پہلے ایک نمازی مشتاق صاحب کا انتقال ہوا تو امام مسجد سمیت سب نمازی پیدل چل کر علی الصبح مرحوم کے گھر پہنچے جہاں ان کاایک رفیق اور ساتھی سفید چادر اوڑھے ایک چارپائی پر دراز لیٹا ہوا تھا۔ محلے کے لوگوں نے اتنی بڑی تعداد میں نمازیوں کو اکٹھے جاتے دیکھا تو سب حیران رہ گئے۔ مرحوم کے گھر والے بھی حیران تھے کہ ابھی رات کا اندھیرا ختم نہیں ہواکہ نمازی رحلت کی خبر ملتے ہی بڑی تعداد میں چلے آئے ۔ میں بھی ان نمازیوں شریک تھا۔ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر نمازی اپنے ساتھی کا چہرہ دیکھ کر کلمہ طیبہ کا ورد کر کے مرنے والے کے ساتھ اپنی وابستگی کااظہار کررہا تھا۔اس کے باوجود کہ مرنے والے کا میں نام نہیں جانتا تھالیکن اسے مسجد کی پہلی صف میں نماز پڑھتے ضرور دیکھا تھا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس دن نمازی کا نام پتہ چلا اور اس کے بارے میں یہ بھی علم ہوا کہ وہ فرش کی رگڑائی کا کام کرتاہے ۔مسجدسے اسے اس قدر لگاؤ تھا کہ کسی معاوضے کے بغیر وہ مسجد کے فرش کی اس قدر رگڑائی کرتا رہا کہ اس میں سے انسان اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے ۔اس شخص کو فوت ہوئے بھی اب دوسال ہوچلے ہیں لیکن جب بھی ہماری نظر مسجد کے چمکتے دمکتے فرش پر پڑتی ہے تو مشتاق مرحوم یاد آ جاتا ہے ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ موت کا مزا تو سب نے ہی چکھنا ہے پھر کیوں ہمارے مسلمان بھائی موت کو اس قدر بھول جاتے ہیں کہ مسجد کاراستہ بھی یاد نہیں رہتا ۔ مسجدکے بالکل سامنے ایک حجام کی دکان ہے ‘ اس دکان میں صبح سے رات گئے تک ہر عمر کے لوگوں کاہجوم رہتا ہے ۔ ماہ رمضان میں جب ہم نماز تراویج ادا کررہے ہوتے تو اس حجام کی دکان پر کتنے ہی نوجوان بیٹھے گپیں ہانکتے کھڑکی سے نظر آتے ہیں ۔ کچھ تو اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور کچھ ویلے لوگ وقت گزارنے کے لیے وہاں آ بیٹھتے۔ ان میں سے کسی کو بھی اتنا شعور نہیں کہ وہ نماز تراویح میں شریک ہو جائے ۔ نہ حجامت کرنے والے نائی کو شرم آتی ہے اور نہ ہی بالوں کو سیاہ کرکے جوان بننے والوں کو غیرت آتی ہے ۔ وہ نام کے ہی مسلمان لگتے ہیں انہیں مسجد سے نہ جانے کیوں خوف آتاہے ۔ اسی حجام کی دکان کے اوپر ایک گھر بھی ہے جس میں ایک رکشا چلانے والا نوجوان رہتا ہے ۔ اس نوجوان کا یہ معمول ہے کہ نماز عشا شروع ہونے سے پہلے بنیان پہن کر حجام کے دوکان پر آ بیٹھتا ہے۔ سگریٹ کے کش لگانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فلسفیانہ گفتگو کا آغاز کرتا ہے ‘ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حجام کی دکان میں موجود باقی لوگ اس کی گفتگو بہت توجہ سے سنتے ہیں ۔ نماز تراویح کے درمیان چند سیکنڈ کا جو وقفہ ہوتاہے اگر مسجد کی کھڑکی کھلی ہو تو حجام کی دکان میں ہونے والا مذاکرہ صاف دکھائی دیتاہے ۔ مجھے وہ نوجوان اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ ماہ رمضان کے کسی ایک دن بھی میں نے اسے مسجد میں نماز پڑھتے نہیں دیکھا ۔ جب کہ مسجد میں ہونے والی قرآن پاک کی تلاوت دور تک سنائی دیتی ۔ اگر کوئی نماز پڑھنے کے لیے بات کرے تو وہ منھ کو پڑتا ہے اور یہ کہہ کر نصیحت کرنے والے کو شرمندہ کردیتا ہے ۔"ہمیں پتہ ہے کہ نماز مسلمان اور کافر کے درمیان واحد فرق ہے ‘ہمیں پتہ ہے کہ نماز نبی کریم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن ہم نے اپنی قبر میں جانا ہے اور تم نے اپنی قبر میں جانا ہے ۔جاؤ جاکر نماز پڑھو ہمیں تنگ مت کرو ۔ "جو بھی شخص ایسے لوگوں کونصیحت کرنے کی جرات کرتا ہے اسے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں ۔ عید کے دن سب سے پہلے وہی لوگ نئے کپڑے پہن کر مسجد میں جگہ گھیر کے بیٹھے ہوتے ہیں جنہوں نے عید سے پہلے کبھی مسجد کا رخ نہیں کیا ۔ گویا سال میں ایک بار نماز عید ادا کرلی اور عید کی ساری خوشیاں سمیٹ کے پورے سال کے لیے پھر رفوچکرہوگئے ۔

حجام کی دکان کے ساتھ ہی ایک عطائی نیم حکیم کی دکان ہے ۔وہ نہ تو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے اور نہ ہی مستند حکیم ‘ لیکن بیماریاں بانٹنے کا اس کا دھندہ پورے عروج پر ہے۔ ہم لو گ بھی اپنی صحت کے بارے میں اس قدر لاپروا ہیں کہ چند روپوں کی خاطر صحت کو تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے جب سے عطائیوں کے خلاف قانونی کاروائی شروع کی ہے ‘ اسی وقت سے اس نیم حکیم خطرے جان نے انسٹالمنٹ کا کاروبار شروع کردیا ہے ۔بظاہر اس کی دکان پر قسطوں میں دیاجانے والا سامان دکھائی دیتا ہے ۔حقیقت میں وہ پہلے کی طرح لوگوں کو علاج کرتا ہے ۔ بے شمار لوگ اس کی دکان پر جمع نظر آتے ہیں ۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ مجھے اس محلے میں شفٹ ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ میں عید تہوار سمیت کسی ایک دن بھی اس شخص کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا ۔اس نے بتایا کہ یہ کسی اورمسلک کے لوگ ہیں اس لیے ہر قسم کی نماز سے مبرا ہیں ۔ ان کا کاروبار ہی ان کی نماز ہے ۔ شاید وہ کاروبار کے لیے ہی دنیا میں آئے ہیں ۔

ایک دوست کی بھاوج فوت ہوگئیں ۔اطلاع ملنے پر میں بھی سوگواروں میں شامل ہوگیا ۔ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ اگر رونا نہیں آتا تو ایسے مواقعوں پر انسان کم از کم چہرہ تو ایسا بنا لے جس سے سوگواری کا عنصر محسوس ہو ۔ ایسی کیفیت طاری کرکے میں لواحقین سے تعزیت کررہا تھا۔ جب نظر اٹھا کر دیکھا تو رشتے دار اور دوست احباب ٹولیوں میں اردگرد بیٹھے اور کھڑے دکھائی دیئے ۔ کوئی سگریٹ کے کش لگا کر رہا ہے تو کوئی سیاسی گفتگو میں مصروف ہے ‘ کچھ پرانی باتیں سنا کر اپنی علمیت کا اظہار کررہا ہے تو کچھ اپنی علمیت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہے ۔ کسی کے چہرے پر افسوس کے تاثرات دکھائی نہ دیئے ۔ ہم نام کے ہی مسلمان رہ گئے ہیں ‘ نہ تو ہم دین کے بارے میں مکمل آگاہ ہے اور نہ ہی ہمیں میت کی تدفین کا صحیح طریقہ آتا ہے ۔ بزرگان دین فرماتے ہیں جب کسی مسلمان گھرانے میں کسی فرد کی موت واقع ہوتی ہے تو میت کے نزدیک بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنا افضل ترین عمل قرار پاتاہے ۔ مرنے والوں کو رونے دھونے اور دنیاوی باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ تو آخرت میں اپنا مقام دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اگر مرنے والا نیک سیرت ہے تو وہ خو ش ہوتا ہے کہ دنیا کے جھنجھٹ سے جان چھوٹی۔اگر گناہ گار ہے تو اسے قبر کے حساب کتاب کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ دنیا میں رہتے ہوئے جو گناہ سرزد ہوئے ہیں وہ سب ایک فلم کی مانند یاد آنے لگتے ہیں ۔ اگر لواحقین میں سے کوئی شخص قریب بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کر تا ہے تو میت کو سکون ملتا ہے ۔ افسوس کہ ہم اپنے مرنے والوں کے ساتھ بھی وفا نہیں کرسکتے اور غسل سے لے کر میت کی تدفین تک دنیاوی باتوں اور سگریٹ نوشی سے جان نہیں چھوٹی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ جیسے ہی کسی کی فوتگی کی اطلاع موصول ہو تو باوضو ہوکر میت والے گھر پہنچا جائے لواحقین سے تعزیت کرنے کے بعد وہاں بیٹھ کر مرحوم کی بخشش کے لیے کلمہ طیبہ کا وردکیا جائے ۔ رشتے داروں کا ہجوم جو تدفین کے بعد عام طور پر بریانی کھاکر اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوجاتاہے اگر تدفینی مراحل شروع ہونے تک اپنی انگلیوں پر کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کردیں تو سوا لاکھ کلمہ آسانی سے جمع ہوسکتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ سوالاکھ کلمہ طیبہ کسی بھی گناہگار کی بخشش کے لیے کافی ہے ۔ ایک نوجوان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور پوچھا یا رسول ﷺ میری والدہ کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوچکا ہے ‘ وہ خواب میں جب بھی نظر آتی ہیں تو کسی عذا ب میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔اپنی والدہ کو اذیت میں دیکھ کر میں بہت پریشان ہوجاتا ہوں ۔مجھے بتائیے کہ میں کونسا عمل ایسا کروں کہ وہ عذاب الہی سے محفوظ ہوجائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا سوالاکھ مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر ایصال ثواب کردو ۔ اﷲ آپ کی والدہ پر رحم فرمائے گا ۔ نوجوان نے ایسے ہی کیا ۔کلمہ طیبہ کا ایصال ثواب کرنا تھا کہ اگلی رات خواب میں والدہ جنت کے باغوں میں چہل قدمی کرتی دکھائی دیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بخشش کے راستے ہزار ہیں لیکن انسان دنیا کی رنگینوں میں کچھ اس طرح کھو جاتا ہے کہ اسے آخرت میں اپنی بخشش کاسامان کرنا بھی یادنہیں رہتا۔لمبے سفر پر جانے والے خالی جیب نہیں جایاکرتے بلکہ معقول رقم اورکھانے پینے کا سامان بھی ساتھ رکھتے ہیں ۔ دنیا کی زندگی چند روز کی ہے جبکہ موت کے بعد زندگی ہمیشہ کی ہے ۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم نے موت کے بعد جس قبر میں قیامت تک قیام کرنا ہے اسے جنت کاگوشہ بنانے کی سوچ ہمارے ذہن میں پیدا نہیں ہوتی۔

دنیا میں آنے میں ہمارا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ہر روح کی تخلیق اﷲ تعالی خودفرماتا ہے لیکن دنیا میں آنے کے بعد ہمیں اپنے دین کے بارے میں مکمل جانکاری تو حاصل کرنی چاہیئے ۔ مسجدوں سے ہم ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے وہاں ہمیں کوئی پکڑ لے گا ۔ لاہور جم خانہ کلب کی صرف ممبر شپ 15 لاکھ روپے مالیت کی ہے اسے حاصل کرنے کے لیے سفارشیں اور بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے لیکن مسجد میں داخلہ مفت ہے پھر بھی مسلمان بھائی کیوں دور بھاگتے ہیں ۔بے شک اﷲ جسے چاہتا ہے اسے اپنے گھر کاراستہ دکھاتا اور جسے ناپسند کرتا ہے اس کادل سیاہ اور آنکھیں اندھی کردیتاہے ‘ وہ قریب رہنے کے باوجود مسجد میں آنے سے قاصر رہتے ہیں ۔مجھے یادہے مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور کی جامع مسجد میں جب میں نماز فجرکی ادائیگی کے لیے جاتا تو مسجد کے دروازے کے پاس ہی ایک عمررسیدہ شخص کو بیٹھا دیکھتا وہ نماز فجر سے پہلے اٹھنے کا عادی تو تھا لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کی اسے توفیق نہیں ہوئی ۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ شخص فوت ہوگیا ہے ۔نافرمانوں کی عقل ماری جاتی ہے اور گناہوں کی دلدل میں بے نمازی دھنستا ہی چلاجاتاہے ۔

چند سال پہلے کی بات ہے میرے ایک عزیزکی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ۔قل خوانی کا ختم مسجد میں شروع ہوگیا میں بھی اس میں شریک تھا 20 منٹ تک گٹھلیوں پر کلمہ طیبہ پڑھا جاتا رہا پھر مولوی صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے ۔ لواحقین ابھی ختم کا سامان بھی مسجدمیں نہیں لا پائے تھے ۔ جب ختم ہوگیا تو لوگ مسجد سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے۔ وہ شخص جس کی اہلیہ کاانتقال ہواتھا گھر سے بھاگے بھاگے مسجد پہنچے اور مولوی صاحب سے پوچھا آپ نے اتنی جلدی ختم کیوں کردیا۔ ایک دو گھنٹے تو گٹھلیاں پڑھ لیتے ۔ مولوی صاحب نے جواب دیا۔ موت آپ کے گھر میں ہوئی ہے اور گٹھلیاں پڑھنے کی ذمہ داری آپ نے ہمارے ذمے لگا رکھی ہے ‘ کیا ہم آپ کے نوکر ہیں کہ تین گھنٹے تک گٹھلیاں ہی پڑھتے رہیں ‘کیا ہمیں اور کوئی کام نہیں ہے ۔ نماز پڑھنا تو دور کی بات ہے مسجد میں کبھی شکل دکھانے تو آپ آتے نہیں اور ہمیں حکم دیاجارہا ہے کہ تین گھنٹے ان کے مرنے والوں کی بخشش بھی مولوی صاحب ہی کروائیں ۔ یہ کہہ کر مولوی صاحب اپنے ہجرے میں چلے گئے اور وہ بے نمازی شخص اپنا سا منہ لے کر گھر چلاگیا۔

یہ کسی ایک شخص کہانی نہیں ہے بلکہ روایت بنتی جارہی ہے ۔ہم دین سے اس قدر دور ہوتے جارہے ہیں کہ ہمیں موت یادہی نہیں رہتی اور جب موت وارد ہوتی ہے تو مسکین سا چہرہ بناکر مسجد کی جانب دوڑتے ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی مسجدمیں کوئی اجنبی چہرہ دیکھتا ہوں تو خوفزدہ ہوجاتا ہوں کہ اب پھر موت کی خبر سنائی دے گی اور پھر ہمیں ایک گھنٹہ گٹھلیاں پڑھنی پڑیں گی ۔

میں نے ایک گورکن بابا سے پوچھا بابا جی سناہے نیک مرنے والوں کی قبر سے نور جیسی روشنی نکلتی آپ نے دیکھی ہے ۔ گناہگاروں کی قبروں کااحوال بھی کچھ بتائیں ۔ بابا جی افسردہ لہجے میں بولے ۔ اب قبر تیار کرتے ہوئے بہت مشقت کرنا پڑتی ہے ۔قبر کی مٹی سخت ہوتی ہے تو کہیں پتھر قبر کی تیاری میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔آجکل قبروں کی کھدائی کے دوران سانپ بچھو کانکل آنا عام سی بات ہوگئی ہے ۔کئی قبروں کی کھدائی کرتے وقت عجیب سی وحشت اورگھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے ‘ قبر کی کھدائی چونکہ ننگے پاؤں کی جاتی ہے ۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میرے پاؤں جلنے لگتے ہیں ‘ کئی قبروں سے دھواں نکلتے دیکھا۔ کئی قبروں میں تدفین کے بعد رات کو آگ جلتی بھی دیکھی۔ کچھ قبروں سے چیخ و پکار بھی سن چکاہوں ۔ یہ باتیں گورکن بابا جی نے بتائیں۔ میں عالم تصور میں اپنی قبر کی کیفیت میں گم ہوگیا ۔ ناجانے میری قبر سے روشنی نکلے گی ؟ یا گورکن کے پاؤں جلا نے والی آگ ؟ یہ بھی خبر نہیں قبر نصیب بھی ہوگی یا نہیں۔ قبر ہمارا وہ مستقل گھر ہے جس میں قیامت تک رہنا ہمارا مقدر ہے ۔مسجدوں اور قبرستان سے دور بھاگنے والوں کو کبھی کبھی ادھر کا رخ بھی کرنا چاہیئے جہاں انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہرصورت جاناہے ۔ اس لیے زندگی کے لمحات کو غنیمت جان کر اپنے دین کو سیکھیں ‘ اپنے رب کوراضی کرلیں ۔ اس میں شک نہیں کہ نماز پڑھنے والا اپنی آخرت بھی سنوارتا ہے اور اپنے مرحوم والدین کو بھی تسکین پہنچاتا ہے ۔ دن میں پانچ مرتبہ موذن فلاح اور کامیابی کی جانب ہمیں بلاتا ہے اگر ہم سننے کے باوجود پھر بھی نہ جائیں تو پھر ہمارے جیسا بدقسمت انسان اور کون ہوگا ؟

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.