آج کل ِپاکستان میں نجی تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم طلبہ
کے والدین اور اسکول انتظامیہ کے درمیان جون وجولائی کی فیس کے حوالے سے
ایک بحث چھڑی ہوئی ہے ۔عزیزہم وطنوں ! پاکستان کی ترقّی میں نجی تعلیمی
اداروں کے کردار کے بارے میں جاننا اورصحیح آگاہی حاصل کرنا انتہائی ضروری
ہے ۔دُرست معلومات حاصل کرنے کے بعد ہم سب مل کر پاکستان کے تعلیمی نظام
اور ماحول کو خراب ہونے سے بچاسکتے ہیں۔عزیز ہم وطنوں! آپ سب کو یہ تو
معلوم ہے کہ پوری دُنیا میں اِس وقت مسلمان ابتری شکار ہیں۔پھر یہ پاکستان
اور اسلام مخالف قوتیں نہیں چاہتیں کہ مسلمان اور خصوصا پاکستانی ترقی
یافتہ ہوں ۔کسی مفکر کا قول ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرناہے تواُس مُلک کے
تعلیمی نظام کو برباد کردو ،اُس مُلک کی عوام خود بخود تعلیم سے دُور
ہوجائے گی۔ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا ،جب بھٹو دور میں جب ادارے
نیشنلائزڈ کئے جارہے تھے۔ نیشنلائزیشن سے سب سے زیادہ متاثرتعلیمی اداروں
ہوئے۔۱۹۷۹ ء کے بعد جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں پاکستان کوافغان جنگ
میں جھونک دیا گیا۔پھر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)کی حکومتیں تین تین دفعہ
باری لینے کے باوجود بھی ایسے نہ تجربہ کار وزیر وں کو وزیر ِتعلیم بناکر
عوام پر مسلط کرتے رہے جو یا تو خود تعلیم یافتہ نہ تھے یا جعلی ڈگری والے
تھے یا اُن کو قوم کے مستقبل کاسرے سے علم ہی نہ تھا ۔جب ایسے وزیر ہوں گے
تو حکومت وقت تعلیم کوکس طرح سے اہمیت دیں گے ۔انہی نام نہاد وزیروں نے
ماضی میں تعلیمی بجٹ میں صرف دو سے دھائی فیصدحصہ ہی مختص کروایا ۔اب ایک
طرف پاکستان کی آبادی جوکہ ۲۲ کروڑ سے تجاوز کرتی نظر آرہی ہے اور دوسری
طرف دو سے دھائی فیصد بجٹ سے ہم پورے پاکستان کو تعلیم یافتہ بنانے میں لگے
ہوئے ہیں۔میرے پیارے ہم وطنوں آپ ذرا یہ سوچئے کہ امریکہ میں 9-11 کے واقعہ
اور اس کے ساتھ افغان جنگ کے بعدیو ایس ایڈ آنا شروع ہو گئی ۔ یو ایس
امدادشروع میں تومختلف محکموں اور ادروں کو دی گئی لیکن تھوڑے ہی عرصے میں
یو ایس ایڈ کا زیادہ تر حصہ تعلیم اور صحت کے لئے مختص کردیا گیا۔اب سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر مسلم اور پاکستان مخالف قوتوں کو ہمارے تعلیمی نظام
اور صحت میں اتنی دلچسپی کیوں ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان اور اسلام
مخالف قوتیں نہیں چاہتیں کہ یہاں پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان،ڈاکٹر ثمر مبارک
اور ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے ہیرے اور عالمی شہرت یافتہ سائنسدان پیدا ہوتے
رہیں۔آپ دیکھیں کہ اِن ہی پاکستان واسلام مخالف قوتوں نے پاکستان میں تعلیم
کا جو حال کیا ہے وُہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان قوتوں کو ہمارے تعلیمی نظام
کو اچھا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اور ہمیں تعلیم کے نام پر فنڈز
دینا کیوں ضروری ہیں۔ان قوتوں نے پاکستان کو تعلیم کے نام پر بے تحاشہ فنڈز
دیئے جس کے نتیجے کے طور پر ابتدائی طور پر گورنمنٹ اسکولوں میں تعلیمی
کارکردگی صفر کردی گئی۔گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں سوچ سے بھی
زیادہ بڑھادی گئیں ،مگر اس کے برعکس گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ ناپیدہو
گئے ہیں، نہ صاف پینے کا پانی میسر ہے، نہ بیت الخلاء کامناسب انتظام
ہے،مرمت نہ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ اسکولوں کی عمارتیں بوسیدہ ہو چکی ہیں
اورسارے کے سارے فنڈز اور یو ایس امدادکرپشن کی نظر ہو جاتی ہے۔اِسی طرح
وہاں اساتذہ ،تدریسی و غیر تدریسی عملے کی غیر حاضری بھی ایک طرف تعلیم کو
نقصان پہنچارہی ہے تو دوسری طرف محکمہ تعلیم اور اس ماتحت اداروں کے لئے
سوالیہ نشان بھی ہے۔گورنمنٹ کے اسکولوں میں سہولیات کا فقدان کس قدر ہے وُہ
ہم سب بخوبی جانتے ہیں ۔کیا یہ سب جاننے کے بعد بھی ہم اپنے بچوں کو اِن
گورنمنٹ اسکولوں میں داخل کروانے کا سوچ سکتے ہیں یقینا نہیں۔اس کے بعد
انہیں قوتوں نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان میں گورنمنٹ سطح پر تعلیمی نظام صفر
کرنے کے باوجود نجی تعلیمی ادروں میں پڑھنے والے نوازش علی جیسے ہونہارطلبہ
پوری دُنیا میں ٹاپ کررہے ہیں۔اب اِن قوتوں نے اپنی توپوں کا رُخ پاکستان
کے نجی تعلیمی اداروں کی طرف موڑ دیا ہے۔یہ قوتیں کبھی ہمارے تعلیمی نظام
کو نشانہ بناتے ہیں ۔یہ قوتیں کبھی نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کو میڈیا پر
اُچھالتے ہیں۔ کبھی کتابوں کا مسئلہ بناتے ہیں۔کبھی جون و جولائی کی فیسوں
پر لب کھولتے ہیں۔ہمارے نظام تعلیم کو الٹا سیدھا بولتے ہیں تاکہ صرف اور
صرف پاکستان کے تعلیمی نظام کو متاثر رکھ سکیں۔اب جیسا بھی ہے یہ ہمارا
نظامِ تعلیم یقینا اس میں بہتری کی ضرورت اور گنجائش موجود ہے ۔مگر ہمیں یہ
بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ اِسی نظام تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں
کی کوششوں اور کاوشوں سے فارغ التحصیل پروفیشنل طلبہ کو امریکہ ،یورپ اور
آسٹریلیا جیسے ممالک اپنے مُلکوں کا ویزہ با آسانی دے رہے ہیں اور ہمارے
گوہرنایاب طلبہ کوپیسوں کی چکاچوند دیکھاکر پاکستان سے دُور لے جارہے ہیں ۔اب
یہ ہی ممالک اِن پڑھے لکھے پروفیشنلز کی وجہ سے اپنے اپنے ملکوں کو ترقی کی
جانب گامزن کر رہے ہیں۔یہی وُہ نظام تعلیم اور نجی تعلیمی ادارے ہیں جن کی
وجہ سے یہ طلبہ پروفیشنلزبنتے ہیں۔اب آتے ہیں اس طرف کے نجی تعلیمی ادارے
وجود میں کیوں آئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جب طلبہ کو تعلیم سے دور کیا جانے
لگا ۔ گورنمنٹ اسکولوں میں سہولیات کے فقدان اور تعلیمی ماحول کا ختم ہونا
اور طلبہ کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب کی جگہ اسلحہ اورجعلی ڈگری دی جانے
لگی۔ایسے میں چند ماہرین تعلیم نے قوم کے نونہالوں کو جب تعلیم یافتہ بنانے
کا بیڑا اُٹھایا تو اﷲ پاک نے اُن کی مدد فرمائی اور انہوں نے کسی حد تک اس
پر قابو بھی پانے کی کوشش کی۔ان نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعلیم اور
دیگر سہولیات کے بدلے والدین سے بارہ مہینوں کی فیس وصول کی جاتی ہیں۔سال
کے بارہ مہینوں میں ان فیسوں سے اسکول کے تدریسی و غیر تدریسی عملے کو
تنخواہ دی جاتی ہے۔طلبہ کو نجی تعلیمی اداروں میں بجلی ،گیس اور پانی کی
مناسب سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔مگر پھر بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں ایک وقت
ایسابھی آیا کہ تعلیم میں بھی پیسے کا استعمال ہونے لگا۔نجی تعلیمی اداروں
کے برانڈزسامنے آنے لگے اور اسٹیٹس کے متوالے والدین نے اِن چند نام نہاد
کاروباری حضرات کو فائدہ پہنچانا شروع کردیا اور پھر انہیں کاروباری حضرات
نے دھڑا دھڑ نجی تعلیمی ادارے تعمیر کرنا شروع کر دیئے اور اس طرح تعلیم
میں کاروبار شروع کردیا گیا۔یہ برانڈ ڈ اور بڑے ناموں والے نجی تعلیمی
ادارے مُلک کے پوش علاقوں میں قائم ہیں اور یہاں والدین سے داخلے کے وقت
ایڈمیشن فیس ،کئی کئی لاکھ ڈونیشن ، سالانہ فیس ، کتابوں اور کاپیوں کی مد
میں ہزاروں روپے،فرنیچر اور دیگر سامان کی مرمت کے چارجز، لیب چارجز،
اسپورٹس چارجز ، جنریٹر کی مرمت کے چارجزوغیرہ کے ساتھ بیس ہزار سے چالیس
ہزار اور اس سے زائد ماہانہ فیس اور وُہ بھی ایڈوانس میں تین سے چھ ماہ تک
وصول کرتے ہیں ۔انہی کاروباری حضرات کے چنگل اور چکا چوند میں پھنس کر
اسٹیٹس کے بھوکے بہت سے والدین اپنے بچوں کے لئے تعلیم خریدتے ہیں جوکہ
انتہائی ناجائز ہے۔دوسری طرف چھوٹے نجی تعلیمی اداروں میں معاملات اس کے
بلکل برعکس ہیں۔جہاں مڈل کلاس اور لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے طلبہ تعلیم
حاصل کرتے ہیں۔دراصل یہ ہی وُہ ماہرین تعلیم ہیں جو کہ پاکستان کے مستقبل
کو حقیقی معنوں میں روشن بنارہے ہیں۔ایک سروے کے مطابق زیادہ تر چھوٹے نجی
تعلیمی اداروں میں بھی بارہ مہینوں کی فیس لی جاتی ہیں، جوکہ پانچ سو سے لے
کر تقریبا بارہ سو روپے تک ہیں۔مگر یہاں پر ایڈوانس فیسوں کی وصولی کا
معاملہ نہیں ہوتا ہے اور بیشترطلبہ کے ساتھ رعایت بھی کی جاتی ہے۔ مہنگائی
اور جگہوں کی قیمت ِخرید زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثریتی نجی تعلیمی اداروں
کی عمارتیں کرائے پر حاصل کی جاتی ہیں۔یہاں پر بھی اساتذہ کو سال بھر
تنخواہیں اورطلبہ کو بجلی ، گیس ،پانی اور بیت الخلاء وغیرہ کی سہولیات
میسر ہیں ۔کچھ عرصہ قبل برانڈڈ اور بڑے ناموں والے اسکولوں میں زیرِ تعلیم
طلبہ کے والدین سے بیس سے چالیس ہزار روپے کے درمیان ماہانہ فیس وصول کررہے
ہیں۔انہوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور معزز عدالت کے سامنے تین سے چھ ماہ
کی ایڈوانس فیس بشمول جون اورجولائی کی ماہانہ فیس کا معاملہ
اُٹھایااورعدالت سے استدعا کی کہ اُنہیں ایڈوانس فیس سے چھٹکارا دلوایا
جائے۔عدالت نے والدین کا موقف سُن کر فیصلہ دیا کہ نجی تعلیمی ادارے جون
اور جولائی کی ایڈوانس فیس نہیں لیں گے۔اس سلسلے میں نجی تعلیمی اداروں سے
تعلق رکھنے والے محکموں کے سربراہان اور اسکول انتظامیہ کے موقف ہی نہیں
سُناگیا۔جس سے والدین اور نجی تعلیمی ادروں کے درمیان غلط فہمی نے جنم لیا
اور تقریبا ہر نجی تعلیمی ادارے میں والدین اوراسکول انتظامیہ کے درمیان
بحث و مباحثہ شروع ہو گیا اور کئی جگہ جھگڑے کی نوبت بھی پہنچ گئی اور چند
ناسمجھ والدین و سرپرست ، نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے دست
و گریبان بھی ہوئے۔ایسے میں بھلا ہو چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار
صاحب کا کہ جنہوں نے فیصلہ دیا کہ نجی تعلیمی اداروں جون و جولائی کی فیس
لے سکتے ہیں اور یہیں سے اس مصنوعی تعلیمی تفرقے کا گلا گھونٹ دیا گیا،ورنہ
یہ مسئلہ چھوٹے تعلیمی اداروں میں اسکول کی چھٹیوں کے بعد جون و جولائی کی
فیس کا معاملہ بھرپور نظر آنے والا تھا کیونکہ یہاں پر یا والدین کی اکثریت
استعدادہی نہیں رکھتے ہیں کہ وُہ تین ماہ یا چھ ماہ یا جون و جولائی کی
ایڈوانس فیس دے سکتے ۔اسلئے نہ تو یہاں ایڈوانس ماہانہ فیس اور نہ ہی جون
وجولائی کی فیس ایڈاوانس میں وصول کی جاتی ہیں۔بلکہ اکثریت ایسے اسکولوں کی
ہے جس میں جون و جولائی کی فیس والدین کی آسانی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وصول
کی جائے۔ یقینا چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ فیصلہ لائق تحسین ہے کہ نجی
تعلیمی ادارے جون و جولائی کی فیس وصول کر سکتے ہیں۔اگربرانڈڈ اور بڑے نام
والے نجی تعلیمی اداروں میں ایڈاوانس فیس وصول کی جارہی ہے تویہ وصولی سرا
سر غلط ہے اوراسے فوری طور پر ماہانہ کی بنیادوں پر وصول کرنے کی اشد ضرورت
ہے، اس سے ایک طرف تو والدین و سرپرست کے سر سے بے جامالی بوجھ میں کمی آئے
گی اور دوسری طرف مصنوعی پیدا کردہ تعلیمی تفرقہ سے نجات بھی مل جائے
گی۔والدین آپ سب کو یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ جب پورے مُلک کے
گورنمنٹ اسکولوں خصوصا کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ بھر کے طلبہ کو قلم کے
بجائے اسلحہ اور بارود تھمایاجارہا تھا۔ اسکولوں کا تدریسی اور غیر تدریسی
عملہ اسکول اور تعلیمی اداروں میں جانے پر رضامند نہیں ہوتا تھا۔ گورنمنٹ
تعلیمی ادارے کے دروازے طلبہ کے لئے تقریبا بند تھے۔ ایسے میں انہیں نجی
تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ، تدریسی اور غیر تدریسی عملے نے دھمکیوں کے خوف
کے سائے میں،گولیوں کی تھڑ تھڑاتھڑاور بارود کی بدبو میں سے گُذر کر اپنے
اپنے تعلیمی اداروں میں نہ صرف تعلیمی فرائض انجام دیئے اور اس مُلک
نونہالوں کو دلدل سے نکالنے کے لئے نجی تعلیمی اداروں میں پہنچتے اور چند
کوتو اپنے فرائض کی ادائیگی سے روکنے کے لئے شہید بھی کیا گیا۔مگر خوف کے
یہ بادل بھی ان چھوٹے پیمانے پر قائم نجی تعلیمی اداروں کو اپنے فرائض کی
ادائیگی سے نہ روک سکے اور یہاں سے فارغ ہونے والے لاکھوں طلبہ کو اچھی
تعلیم و تربیت کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی اداروں یعنی کالجز کی جانب روانہ
کیاگیا۔یقینا نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ، تدریسی اور غیر تدریسی عملے
کی تعلیمی خدمات قابل تعریف ہیں۔اﷲ پاکستان کا حامی و ناصر۔ |