میں آئینے کے آگے کھڑی بال سنوار رہی تھی ۔اچانک میری نظر
میری آنکھوں سے مل گئی۔
میں اور میری بے خواب آنکھیں
اکثر ایک دوسرے سےباتیں کرتے ہیں۔
اک دوسرے کی تنہائی بانٹتے ہیں۔
میری بے خواب آنکھیں آنسوؤں سے تر رہتی ہیں۔
میں اکثر ان سے خفا ہو جاتی ہوں۔
وہ لحظے کے لئے ہنستی ہیں اور پھر نیر بہاتی ہیں۔
میں پوچھتی ہوں:
تم کس غم کا شکار ہو؟
وہ کہتی ہیں :
پیاری! تیری بے قدری دیکھ کر کبھی بھر آتی ہیں۔یہ تو ہمیشہ رشتوں کی عدالت
میں ننگے سر اور ننگے پیر کیوں پیش ہوتی ہے؟
اس عدالت میں صفائی سنے بغیر ہی تجھے سزا کیوں ہوجاتی ہے؟
یہ تیرا نرمل رنگ روپ اس تپش سے جلتا دیکھ کر کبھی ہم میں باڑ آجاتی ہے اور
کبھی کبھی جب تو بے اختیار ہو کر ہذیانی گفتگو کرتی ہے تب کبھی کبھی ہم
چھلک جاتی ہیں۔
میں بولی:
میری سہیلیوں! کیوں میرے غم میں بہتی رہتی ہو؟
میں تو ہر لحظہ اپنے محبوب کی اور سفر کررہی ہوں ۔اب کچھ دن اور پھر بس
میری ملاقات،میرے محبوب سے ہوگی ۔
وہ ناسمجھی سے مجھے آئینے سے تکتی ہیں۔
میں بے اختیار قہقہ مار کر ہنستی ہوں اور کہتی ہوں :
تم بھی دنیا دار لوگوں کی طرح ججمنٹیل judgemental ہوگئیں ۔ کبھی معبود سے
محبت کر کے دیکھو! اس کے حبیب کے عشق میں گرفتار ہو کر دیکھو۔کبھی قرآن کے
ترجمے پر عاشق ہوکر دیکھو۔
میری آنکھیں زار زار پھر بہنے لگتی ہیں۔
میں بولی:
زندگی دو دن کا کھیل ہے۔ میں نے اب دنیا والوں سے حب چھوڑ دیا ہے ۔ مجھے تو
بس اب اس سے لگاو ہوگیا ہے ۔لگتا ہے کہ یہ عشق اب کوئی رنگ لائے گا ۔ میں
تو عشق کیے "ع" میں الجھ کر رہ گئی ہوں میری رسائی شاید اس کے "ش" تک بھی
ہوگی ۔ "ق" تو بہت دور کا مسافر لگتا ہے۔ میری آنکھیں استعجاب سے پھیل گئیں
پھر جھجھکتے ہوئے بولیں: سکھی رے ! یہ کالا رنگ تجھے اتنا محبوب کیوں ہے؟
۔میں ہنسی ۔میری ہنسی کی جھنکار ہر طرف رقصاں ہوگئی ۔میں بولی میرا لباس
کالا، میری چادر کا رنگ کالا ہے ۔پر مجھے لگتا ہے کہ اس کے عشق میں گندھا
ہے۔ میں آنکھیں بند کروں تو خلاف کعبہ دکھتا ہے کیونکہ غلاف کعبہ کا رنگ ہے
۔ میرے حضرت یوسف کی کال کوٹھڑی بھی کالی تھی ۔زندگی کے آغاز پر نظر ڈالوں
تو ماں کی کوکھ بھی سیاہی مائل اندھیرا لیے تھی ۔اختتام پر قبر بھی کالی
رات جیسی ہوتی ہے۔میری ماں جو سرمہ مجھے نظر سے بچانے کے لئے لگاتی وہ بھی
سیاہ تھا۔ اس لئے میری سہیلیوں!
میری آنکھوں میرے لیے دعا کرو کہ وصال ہو جائے ۔ اس عاشق کو قرار آجائے ۔
میری آنکھوں سے ساون برسنے لگا ۔میں ہولے ہولے گنگنانے لگی ۔
موہے پیا ملن کی آس ہے سکھیوں ۔۔
کروں لاکھ جتن ہنس ہنس کے ۔۔
ہوا سرسراتی ہوئی میرے کانوں میں سرگوشی کر گئی ۔
میں بے اختیار ہنسی اور ہر طرف جلترنگ بجنے لگی۔ |