شریعت و سنت پر عمل ،باطن کی اصلاح اور قلب و روح کی
تصقیل و تزکیہ کا نام ہی تصوف ہے اور ان صفات سے متصف شخص اصطلاح تصوف میں
صوفی کہلاتا ہے۔ تاجدار اولیاء حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوث اعظم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ فتوح الغیب ص ۱۸ میں فرماتے ہیں ’’ہر مومن کے لئے تمام
حالتوں میں تین چیزیں لازم ہیں(۱)خدا کا حکم بجا لانا(۲)ممنوعات سے
بچنا(۳)اور تقدیر پر راضی ہونا‘‘۔ اور شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ عوارف المعارف ص ۲۶ میں فرماتے ہیں’’جو شخص جتنا زیادہ متبع
رسول کریم ہوگا اسی قدر وہ محبت الہٰی کا حصہ دار ہوگا اور صوفیاء ہی نے
اسلامی گروہوں میں سب سے بڑھ کراتباع رسول کیا ہے‘‘۔احباب و ا قرباء کے لئے
جذبہ جاں نثاری ، مخلوق خدا کے ساتھ محبت ، ان کے دکھوں اور غموں کو دیکھ
کر بیقرار و بے چین ہو نا اور بڑی سوز و گداز کے ساتھ عام و خاص تمام
مسلمانوں کے لئے دعاء مغفرت و صحت کرنا صوفی کی خاص علامتوں اور بے مثال
کردار و خصائل میں سے ہے۔اور الحمد للہ یہ علامتیں مرشد برحق حضور شیر
نیپال دام ظلہم العالی میں بر وجہ کمال پائی جاتی ہیں۔آپ بیک وقت متصوف
مخلص بھی ہیں ، فقیہ متبحر بھی اور محدث جلیل بھی ۔ اور غالبا اسی جذبہ کے
تحت آپ نے خانقاہ برکات کی تعمیر کا عزم کیا اور اس میں کامیاب بھی ہو
گئے۔شریعت و سنت کا ایسا پاس و لحاظ کہ مشکل لمحات و حالات میں بھی کتاب و
سنت کے احکام پر عمل کرنے سے نہیں چوکتے ،شریعت سے سر مو ا نحراف ہو متصور
ہیں نہیں۔ مناہی و ممنوعات سے کلی طور پر اجتناب کرتے ہیں اور تقدیر الٰہی
پر راضی رہتے ہیں ،زباں پر کبھی حرف شکوہ آئے سوال ہی نہیں۔بلکہ ہر حال
میں امتنان و تشکر خداوندی بجا لانا آپ کا خاص وصف و معمول ہے۔خلائق سے
بیحد محبت و شفقت فرماتے ہیں ،مصیبت زدہ اور مبتلاء آلام و امراض کے لئے
دعائیں بھی کرتے رہتے ہیں اور تعویذ و نقوش بھی عطاکرتے ہیں۔جب امت مسلمہ
میں اختلاف و انتشار کی خبر مسموع ہوتی ہے تو آپ کا دل حد درجہ بے چین و
بے قرار ہو جاتاہے اور انہیں اعتصام بحبل اللہ کی خاطر پوری کوشش صرف
کردیتے ہیں تاکہ امت کی وحدت پارہ پارہ ہونے سے محفوظ ہوجائے۔نماز کی ایسی
پابندی کہ سفر ہو کہ حضر ،صحت و تندرستی کے ایام ہوں یا مرض کے ،گاڑی کے
چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو یا مال و سامان کے ضائع ہونے کا کہیں بھی اور کسی
بھی حال میں نماز قضا نہیں ہونے دیتے ۔ہمیشہ آپ سفر میں جائے نماز، لوٹا،
چپل ،مسواک و برش اور صابون وغیرہ لے کر چلتے ہیں اور جہان وقت ہوجاتا ہے
وہیں نماز ادا کرلیتے ہیں۔
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ تصوف تو خلوت و گوشہ نشینی اور
لوگوں سے عدم اختلاط و قطع تعلق کا نام ہے۔ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ
اپنا زاویہ فکر درست کریں اور اپنی اس غلط فہمی کا مطالعہ کے ذریعہ فوراً
علاج کریں۔اگر اسی کا نام تصوف ہے تو امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا
فریضہ کون انجام دے گا؟ اخلاق عالیہ کی خوشبو سے متعفن فضا کو خوشبو دار
کون کرے گا؟ معاشرے میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ کون کرے گا؟ جو لوگ عبادت و
تعمیل حکم خداوندی میں کوتاہی کرتے ہیں انہیں حکم خداوندی بجا لانے پر
آمادہ کون کرے گا؟ تبلیغ اسلام کی تحریک کون چلائے گا؟ اقوام کی سوئی ہوئی
تقدیروں اور خوابیدہ بختوں کو بیدار کون کرے گا؟ جبر و تشدد اور ظلم و ستم
کا استیصال کون کرے گا؟ کیا صوفی ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہے ؟
سید خورشید احمد گیلانی لکھتے ہیں’’اگر نیک نیتی سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ
ہے کہ ’’تصوف‘‘ تعطل و جمود ، عافیت کوشی اور سہل انگاری کا نام نہیں بلکہ
’’ تصوف‘‘ ایک علمی ،اخلاقی ،روحانی اور معاشرتی تحریک ہے جس کے اثرات کا
دائرہ بہت وسیع ہے ، تصوف نے جو ذہن اور افراد تیار کئے ہیں وہ بیک وقت
عبادت گزار اور تقوی شعار بھی ہیں اور علم و اخلاق کے علمبردار بھی ،ان کے
اندر علمی گہرائی بھی پائی جاتی ہے اور روحانی عظمت بھی ،خدمت خلق ان کا
شیوہ ہے تو معاشرتی اصلاح ان کا وطیرہ،اگر وہ معیت و قرب خداوندی کی طلب
میں سرشارہیں تو دوسری جانب ان کے دل خلق خدا کی محبت و ہمدردی سے لبریز
بھی ہیں ،ایثار ان کا نصب العین ہے اور مروت ان کی متاع حیات ،جہاں وہ صدق
و صفا کے پیکر ہیں وہاں وہ بذل و عطا کے مجسمے بھی ہیں،دم گفتگو نرم نظر
آتے ہیں مگر دم جستجو گرم بلکہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں ،حلقہ یاراں میں
ابریشم اور رزم حق و باطل میں مانند فولادہیں، ایک طرف وہ تبلیغی سرگرمیوں
میں منہمک ہیں اور دوسری جانب استیصال باطل کے لئے مصروف عمل ،غرضیکہ ایک
ایک فرد بجائے خود انجمن اپنی ذات میں تحریک اور انسانی پیکر میں ایک
انقلاب ہے ‘‘الخ(روح تصوف ص ۱۲۵)
عام طور پر لوگوں میں صوفی اور اس کی علامتوں سے متعلق جو غلط فہمی پائی
جاتی ہے مزید اس کا ازالہ کرتے ہوئے سید گیلانی صاحب رقمطراز ہیں:
’’عام طور پر لوگ صوفی اسے کہتے ہیں جس کی علامات یہ ہوں’’ سرتراشیدہ ہو،
خرقہ پوش ہو ، شکل و صورت سے مسکین ہو ، ہاتھوں میں بالالتزام تسبیح رکھتا
ہو، حق ھو کی ضربیں مارتا ہو ، بیوی بچوں سے بے نیاز ہو، گھر بار سے پاک ہو
وغیرہم۔ حالانکہ واقع میں ایسا نہیں کیونکہ جس طرح کوئی شخص ٹیڑھی ٹوپی
اوڑھ اور بگڑکر بیٹھا ہو وہ سکندر نہیں ہوسکتا اسی طرح جو سر منڈا لے وہ
قلندر نہیں بن جاتا،جس طرح سکندری کے کچھ تقاضے ہیں اسی طرح قلندری کے بھی
کچھ مطالبے ہیں،اوراد و وظائف ہی سے اگر تصوف کے تقاضے پورے ہوجاتے تو آج
دنیا کا بیشتر حصہ صوفی کہلانے کا مستحق ہوتا۔ صوفی کو ان کے علا وہ بھی
بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جس کی تفصیل ہمیں تصوف کی مستند کتابوں میں ملتی
ہے‘‘۔(روح تصوف ص ۵۲)
اگر خرقہ و صوف کے لباس سے نیت انبیاء کرام اور اسلاف عظام کی پیروی ہو تو
ٹھیک ورنہ تو آج کل کچھ عوامی پیر عوام میں اپنی جاہ و حشمت پیداکرنے کے
لئے اونی لباس پہنتے ہیں ، جبکہ ان کا باطن غیر مصقل اور کدورتوں سے
بھراہواہوتاہے۔اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کا تصوف سے دور کا بھی واسطہ
نہیں مگر وہ بھی صوفی کے جھوٹے دعویدار ہیں جبکہ ان کے افعال و کردار خلاف
سنت ہوتے ہیں۔بعض تو فرائض میں کوتاہی ہی نہیں بلکہ فرائض و واجبات کی
پرواہ ہی نہیں کرتے۔ اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے توکہتے ہیں کہ صاحب! ہم
توکعبہ اور مسجد نبوی میں نماز اداکرتے ہیں معاذاللہ!۔ ایسے ہی پیر کا
واقعہ ہے کہ ایک گاؤں میں ایک پیر پہنچا جو لوگوں کو مرید کرتا ، نماز
بالکل ہی نہیں پڑھتا ۔ اسے کہا جاتا تو کہہ دیتا کہ میں کعبہ میں ادا کرتا
ہوں۔اتفاق سے ایک دن ایک کسان نے اس پیر کو دیکھاکہ وہ اس کے کھیت میں
قضائے حاجت کر رہا ہے۔ اسے غصہ آیا اور جاکر ایک لات ماری اور کہا کہ نماز
کے لئے مکہ جاتا ہے اور ہگنے کے لئے میرے کھیت میں آتا ہے، رفع حاجت کے
لئے بھی کسی دوسرے ملک کے کھیت میں چلے جایا کرو۔
شرائط تصوف اور حضور شیرنیپال
صوفی وہی ہوتا ہے جو کتاب و سنت کو مظبوطی سے تھامے رہے ،محرمات و ممنوعات
سے بچیں اور اخلاق عالیہ سے مزین ہو ورنہ جو صوفی ہونے کا دعوی توکرے مگر
اس کا عمل شریعت و سنت کے خلاف ہو ایسے شخص کا شمار نہ صوفی کے زمرے میںہو
سکتا ہے اور نہ ہی دیوان رجال میں اس کی گنتی ہوتی ہے ۔ صوفی کے لئے یہ بھی
ضروری ہے کہ تصوف کے ساتھ فقہ کا بھی جانکار ہو۔
٭حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’من تصوف ولم یتفقہ فقد
تزندق ومن تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق و من جمع بینھما فقد تحقق‘‘ یعنی جو
صوفی بنا اور علم نہ سیکھا وہ زندیق ہوا اور جس نے علم دین حاصل کیا مگر
تصوف حاصل نہ کیا وہ فاسق بنا اور جس نے دونوں کو حاصل کر لیا تو بے شک اس
نے تحقیق سے کام لیا ۔(اصطلاح تصوف)
٭امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں’’ ہر وہ باطن
(طریقت) جو ظاہر(شریعت) کے خلاف ہو باطل ہے‘‘۔(رسالہ قشیریہ ص ۶۲ بحوالہ
روح تصوف)
٭’’ طریقت کی بناء آداب شریعت کی حفاظت اور حرام اور شبہ کی طرف ہاتھ
پھیلانے سے بچنے ،حواس کو ممنوع چیزوں سے بچانے اور غفلت ترک کرکے اپنی
سانسوں کو اللہ کے ساتھ شمار کرنے پر ہے‘‘ ۔(رسالہ قشیریہ ص ۷۳۰)
٭شیخ ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں’’ جس شخص کو تو اللہ
کے ساتھ ایسی حالت کا دعوی کرتے ہوئے دیکھے جو اسے شریعت کی حد سے نکال دے
تو تجھے اس شخص کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہئے‘‘(رسالہ قشیریہ ۶۴بحوالہ روح
تصوف)
٭حضرت شیخ عبداللہ تستری رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہمارے مسلک (تصوف)
کے اصول سات ہیں:(۱)کتاب اللہ سے مضبوط تعلق (۲) رسول اللہ ﷺ کی پیروی
(۳)رزق حلال(۴) ایذارسانی سے پرہیز (۵) گناہوں سے بیزاری اور نفرت (۶) توبہ
یعنی اللہ کی جانب رجوع (۷) خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی۔(روح
تصوف ص ۴۶)
الحمد للہ ثم الحمد للہ ! میرے مرشد طریقت و اجازت اور استاذ و مخدوم پر
تصوف کی تعریف پورے طور پر صادق آتی ہے اور اس کے ان تمام شرائط کے آپ
جامع ہیں جن کو اصفیاء اور اخیار نے حصول تصوف کے لئے ضروری قرار دیا ہے ۔
آپ کو اللہ تعالی نے بلند درجات ،اعلیٰ صفات ،باطنی کمالات، صفاء قلبی
،جاہ و حشمت اور عزو عظمت کے ساتھ شریعت و طریقت کی جامعیت سے بھی نوازا
ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو حضور شیرنیپال جیسے شیخ کامل ، مرشد برحق متبحر
عالم ربانی کے دامن سے وابستہ ہیں ،جن کی صبح و شام ،لیل و نہار، ہر ساعت و
لمحہ اللہ رب العزت کی عبادت وریاضت ، تسبیح و تہلیل ،ذکر و فکر اور اس کے
محبوب صاحب لولاک ﷺ کی مدحت سرائی اور مذہب اسلام کی حفاظت و اشاعت میں بسر
ہوتی ہے ۔حضور شیر نیپال جیسے صالح صوفی اور مخلص مرشدکی صحبت اختیار کرنا
اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہونا یقینا دارین کی سعادتوں سے مالا مال
ہونا اور قرآن و سنت اور اقوال اسلاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونا ہے۔ امام
قشیری رسالہ قشیریہ ص ۴۶ پر حضرت نظام الدین اولیاء کا قول نقل کرتے ہیںکہ
’’ پیر ایسا ہوناچاہئے کہ احکام شریعت ،طریقت اور حقیقت کا علم رکھتا ہو
اگر ایسا ہوگا تو خود کسی نا مشروع چیز کے لئے نہ کہے گا‘‘ اور ص ۵۶۰پر
فرماتے ہیں کہ میں نے استاد ابو علی دقاق کو فرماتے سنا کہ اگر درخت خود
رَو(اگا)ہو اور کسی نے اسے لگایا نہ ہو تو اس کے پتے تو نکلیں گے مگر پھل
نہ دے گا۔ یہی حال مرید کا ہے کہ اگر کوئی ااس کا استاد (پیر) نہ ہوگا جو
اس کی تربیت کرے اس سے کوئی بات بن نہ آئے گی۔ |