مینٹورنگ۔ ایک کمی کا عنصر

مینٹور (MENTOR) کے لغوی معنی ’’صلاح کار یا سرپرست ‘‘ کے ہیں۔ اوراصطلاح کے مطابق اس کے معنی ’’ایک انسان جو کسی دوسرے انسان کی رہنمائی کے لئے اس کو صلاح و مشورہ دے‘‘کے ہیں۔یا عام الفاظ میں آپ یوں کہہ لیں کہ مینٹورنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک اعلیٰ عہدیدار اپنے ما تحت کو، یا تربیت یافتہ لوگ دوسروں کی رہنمائی کے لئے یا پھر تجربہ کار انسان کسی دوسرے غیر تجربہ کار انسان کو اس کی رہنمائی کے لئے ہدایت کرے۔اس میں عموماُ طالب علم یا پھر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں کہ جو اپنی عملی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہیں تا کہ ان کو ان کے مستقبل کے بارے میں اور ان کے کام کو احسن طریقہ سے کرنے کے لئے اسباق دے کر‘ ان کی رہنمائی کرنا ہے۔

اس موضوع کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں جس چیز کی سب سے کمی محسوس ہوئی وہ ’’ مینٹورنگ ‘‘ ہے۔کیونکہ میٹرک کے امتحان پاس کرنے کے بعد کالج کے داخلہ فارم پر ’’ ایف۔ایس سی‘‘ میڈیکل کا انتحاب کیا۔ اس لئے نہیں کہ میں کوئی لائق فائق یا پھر’’ ایف۔ایس سی‘‘ میرا شوق یا جنون تھا۔ بلکہ اس لئے کہ میرے والدین بھی میرے ہم وطنوں کے والدین کی طرح ’’ میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا‘‘ کہتے تھے۔لہٰذا ان کی اس بات کو عملی جامہ پہنانے لئے ’’ ایف۔ایس سی‘‘ کا انتحاب کیا۔ مگر داخلہ کے ایک روز قبل فیملی کے ایک تعلیم یافتہ اور صاحب قدر شحصیت نے کال کر کے ’’کامرس ‘‘ کا انتحاب کرنے کا مشورہ دیا۔جن کہ خاندان میں قابلیت و ساکھ کی بنا ان کا مشورہ کسی بھی صورت ٹالا یارد نہیں جا سکتا تھا۔ ’’ کامرس ‘‘ سے میری آشنائی صرف اس کے لغوی معنی تجارت تک ہی یھی۔ لیکن اللہ کے آسرے انتحاب کر ہی دیا۔لیکن گلہ، شکوہ اس بات کا ہے کہ کسی نے مجھ سے میری دلچسپی پوچھی ہی نہیں۔ کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں کیا بننا چاہتا ہوں۔ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ کالج کے آفس میں بیٹھے میری طرح کے ایک بے چارے طالب علم کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا کہ وہ مسلسل ’’آئی۔سی۔ایس ‘‘ کے انتحاب کا اصرار کر رہا تھاجبکہ کالج والے اس کی ڈگری کو دیکھ کر اسے ’’ ایف۔اے‘‘ میں داخلے کے لئے رضامند کر رہے تھے۔بہرحال اس جنگ میں کالج والوں نے ہتھیار ڈالے یاطالب علم کو ہار ماننا پڑیْ ْ۔وللہ عالم۔لہٰذا میرے ساتھ یہ عمل بیچلر تک جاری رہا۔ ماسٹرز میں آ کے اپنے دل کی منوانے کا موقع ملا تو ’’ صحافت ‘‘ کا انتحاب کیا۔

یہ کہانی صرف میری نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ میرے ملک کے ہر طالب علم کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ آپ کسی طالب علم کو روک لیں، اس سے پوچھ لیں کہ وہ زندگی میں کیا بننا چاہتا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے۔ بیشتر کا جواب ایک ہنسی ہو گی جو اس بات کو ظاہر کررہی ہو گی کہ وہ بے مقصد ہے۔ اور اگر کسی نے سوال کا جواب دینا بھی چاہا تو وہ ایک شکوے سے اپنی رائے کا اظہار کرے گا کہ اب اس پڑھائی کے بعد یہی کام کرنا پڑے گا۔ ان سے ایک سوال یہ بھی کرلیں کہ کیا آپ نے اس پڑھائی کا انتحاب اپنے دل کی مان کے کیا تھا ؟ تو جواب نفی میں ہو گا۔ کیوں؟ کیونکہ اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمیں ہائی سکول کی پڑھائی کے بعد اس پڑھائی کا انتحاب کرنا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر ہمیں روزگار ملتا ہے۔ مگر ہائی سکول کے طالب علم کی سوچ اتنی پختہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بنا سکے۔بس ہماری ڈگری دیکھی جاتی ہے اس ڈگری پر لکھے نمبروں کی بنیاد پر ہماری پڑھائی کا انتحاب کیا جاتا ہے۔ اور ہمیں مرتے دم تک اسی پہ انحصار کرنا پڑتاہے اور یوں ہماری دل کی آواز ہمارے لبوں پر آنے سے پہلے ہی دل ہی کی قیدمیں مر جاتی ہے ۔ کیوں ؟ کیونکہ اس کی ایک اہم وجہ اساتذہ کا کردار ہے۔ مینٹورنگ کے دو اہم ارکان ہیں ایک والدین اور دوسرہ اساتذہ۔ جو کسی بھی طالب علم کے مستقبل کی پلاننگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ایک اچھا استاد اچھا مینٹور بھی ہوتا ہے۔طالب علم اپنے مستقبل کی تیاری تب ہی کر سکتا ہے کہ جب اس کو اپنے مقصد سے آشنائی ہو گی۔ ایک بغیر مقصد طالب علم اپنے مستقبل کی تیاری کیسے کر سکتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں کہ اسے کرنا کیا ہے۔ مقصد کو پہچاننے کے لئے دل کی آواز کا سننا لازم جزو ہے۔ جس کے لئے ایک اہلیت کا ہونا ضروری ہے جو اچھا استاد طالب علم میں اجاگر کرتا ہے۔ آپ کسی بھی ترقی یافتہ ممالک کا سکول سسٹم پرکھ لیں یا پھر آپ کسی بھی شحصیت کی ’’ پروفائل‘‘ پرکھ لیں ۔آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اس نے اپنی متعلقہ فیلڈ کا انتحاب اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش سکول یا کالج کی سطح سے شروع کر دی تھی۔ لیکن ہمارے یہاں ’’ رٹالگاوٗ، سلیبس مکاوٗ‘‘ یا کوئی بھی حربہ استعمال کر کے نتائج کی بہتری اور اپنے ادارے کے نام پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ہمیں یہاں قابلیت سے زیادہ ترجیح کاغذ کے ایک ٹکڑے ’’ ڈگری‘‘ کو حاصل ہے۔ لیکن انسان کی کامیابی کے لئے اس کو تعلیم میں قابلیت ہونااور ہنر، اس کی ڈگری سے کئی زیادہ معنے رکھتی ہے۔ہمارے اداروں میں ایک کمی، اساتذہ اور طالب علم کے درمیان ایک خلا ہے، جسے پُر کرنا ضروری ہے۔ مثلا، میں ایک پرائیویٹ ادارے میں گیا تو وہاں طالب علم کا استاد کے ساتھ ہاتھ ملانا تو دور ہنس کر سلام کرنا بھی ممانعت تھا۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے جس ماحول میں ایک طالب علم اپنے استاد محترم کو سلام کرنے کی ہمت نہیں کرتا بھلا وہ اپنے استاد سے اپنے مستقبل کے بارے میں رہنمائی کیا لے گا۔ بہر حال ہمیں اس خلا کو بھی ایک حد تک پُر کرنا ہو گا۔تاکہ ایک طالب علم اپنے مستقبل کی تمام تر پلاننگ میں اور اور اپنے ’’ وژن‘‘ میں کھل کراستاد سے رہمنائی لے سکے۔
 

Ismail Aftab Mirza
About the Author: Ismail Aftab Mirza Read More Articles by Ismail Aftab Mirza: 5 Articles with 3168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.