میرے پیارے ماموں کے نام ایک خط ۔
پیارے ماموں جان !
اسلام وعلیکم!
کل خبر ملی کہ آپ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ابھی رمضان المبارک کے دوران
آپ کی علالت کی خبر ملی تھی ۔پھر عید کے بعد پتہ چلا کہ آپ کینسر کے موزی
چنگل میں گرفتار ہوگے ہیں۔میں نے جب آپ سے بات کی تو آپ نے مجھے حوصلہ دیا
کہ فکر کی بات نہیں ہے ۔اس بیماری کو مینج کرنے کی کوشش کرینگے ۔آپ بس دعا
کرو۔
میں فون بند کرکے بھی رو پڑی ۔کینسر ایک مہیب اور ہولناک مرض ہے۔ میں نے
زندگی میں اپنے چند پیارے دوستوں کو اس کے ہاتھ شکست کھاتے دیکھا تھا۔
پردیس کے روز وشب بڑے عجیب ہیں ۔ہم لوگ بیماری ؛پریشانی میں بھی فکر روزگار
کو چھوڑ نہیں پاتے ۔میرے نزدیک میرا روزگار بھی عبادت کی ایک صورت ہے۔ میرے
ہونٹوں پر ہر وقت دعا ورد کی طرح رہتی کہ اللہ تعالی میرے گوگا ماموں کو
صحت دے دے ۔میری جان سے پیاری صابر سی مامی کو دکھ نہ دکھانا ۔میری والدہ
جن کے بیمار دل کی دھڑکن ان کا بھائی ہے انھیں اس کا دکھ نہ دکھانا ۔مگر
شاید میری دعائیں آخرت کے لئے محفوظ کرلی گئیں اور جمعہ کی صبح آپ خاموشی
سے عزرائیل کے سنگ رخصت ہوگئے ۔اسی وقت میری اپنی والدہ شدید دل کی گھبراہٹ
میں ICU میں زندگی اور موت کی کشمکش میں لڑ رہی تھیں ۔ آپ کے جانے کی خبر
ان سے خفیہ رکھی گئی کیونکہ آپ یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ آپ کی عزیز از جان
بہن پر کوئی آنچ آئے۔
ابھی چند دن پہلے تو آپ ہسپتال جانے سے پہلے بیماری کے باوجود سفر کرکی
پنڈی آئے کہ بہن سے مل کر ہسپتال داخل ہونگا ،پھر پنڈی سے گوجرانوالہ دوسری
بہن سے ملنے گئے ۔پھر لاہور آکر ہسپتال داخل ہوئے ۔ آپ نے ہمیشہ رشتوں کو
محبت سے سینچا ۔آپ نے بھانجے،بھانجیوں،بہنوں ،اپنوں،پرایوں سب کو پیار سے
سیراب کیا ۔مجھے آج بھی وہ کھانے یاد ہیں جو ہمارے لاہور آنے پر آپ خاص طور
پر خود پکاتے اور دیگچے میں سے اچھی اچھی بوٹیاں نکال نکال کر ہماری پلیٹوں
میں ڈالتے اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر اپنی گہری آواز میں پوچھتے:
ہاں بھی بچوں کیسا بنا ہے۔؟
ہماری گڈو آنٹی انتہائی متواضع اور ملنسار خاتون ہیں۔وہ ہمیشہ ہماری
فرمائشوں پر پکاتیں تھیں مگر جس دن آپ نے پکایا ہوتا آپ ان کو بھی چھیڑتے:
ہاں بھی گڈو کیسا پکا ہے ؟
ہمیشہ آپ سے رخصت ہوتے وقت جہاں دعائیں آپ دونوں ساتھ دیتے وہاں ان کے ساتھ
ساتھ میری مامی کے محبت سے خریدے ہوئے تحفے بھی زبردستی ساتھ کرتے تھے ۔
اٹھارہ سال قبل آپ نے ہی میرے نکاح نامے پر گواہ کے دستخط کئے تھے۔ایجاب و
قبول کے لئے آپ مجھ سے پوچھنے اور دستخط کروانے آئے تھے ۔ میرے سر پر قرآن
رکھ کر آپ نے مجھے نئے سفر پر روانہ کیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ آپ
میری گاڑی کے ساتھ دوڑتے دوڑتے میرے میاں کو نصیحت کرتے جاتے کہ
"ہماری بیٹی بڑی نازوں کئ پلی ہے دھیان رکھنا ۔"
مجھے کہتے:
"بیٹا ! ہمارا سر اونچا رکھنا۔"
بس یادوں کا ایک ریلہ ہے اور میں خس وخشاک کی طرح بہتی جاتی ہوں۔ بچپن سے
جوانی تک ہمیشہ آپ سے پیار بھی کیا اور شرارتوں پر ڈانٹ بھی کھائئ ۔ابھی
پچھلے تین سال سے آپ کا وعدہ تھا کہ ہم سے ملنے کینیڈا آئینگے ۔مگر یہ واحد
وعدہ ہے جو آپ نے پورا نہیں کیا ،شاید آپ کے بس میں نہیں تھا۔
مجھے امید ہے آپ بہت سکون وآرام میں ہونگے ۔میری آپ کی دوبارہ ملاقات
انشااللہ دنیا سے اچھی جگہ پر ہوگی۔مجھے یقین ہے کہ آپ دنیا سے خوبصورت اور
پرسکون جگہ پر پہنچ چکے ہیں
اچھا ماموں جان اب اجازت دیجیے ۔
آپ کی پیاری بھانجی ۔
مونا شہزاد ۔ |