فہم قرآن کے لیے شانِ نزول کی اہمیت

فہم قرآن کے لیے شانِ نزول کی بڑی اہمیت ہے، شانِ نزول (یا سببِ نزول) سے مراد وہ خاص پس منظر (Back Ground) اور مخصوص حالات و واقعات ہیں جن میں قرآن کی بعض سورتوں اور آیتوں کا نزول ہوا ہے۔ اس طرح کے قرآنی مقامات کو اُن کا شانِ نزول جانے بغیر نہ تو صحیح طور پر سمجھا جاسکتا ہے او رنہ اُن کی درست تفسیر ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ میں ہےکہ
﴿إِنَّ الصَّفا وَالمَر‌وَةَ مِن شَعائِرِ‌ اللَّهِ ۖ فَمَن حَجَّ البَيتَ أَوِ اعتَمَرَ‌ فَلا جُناحَ عَلَيهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِما ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيرً‌ا فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ‌ عَليمٌ ١٥٨﴾... سورة البقرة
''بےشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لیے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان دونوں (پہاڑیوں) کے درمیان سعی کے چکر لگا لے اور جو کوئی شوق سے کوئی نیکی کرے تو اللہ قدردان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔''
اس آیت کے ظاہری الفاظ سےمعلوم ہوتا ہے کہ حج او رعمرے میں صفا او رمروہ کے درمیان سعی کرنا ضروری نہیں ہے۔ کوئی شخص سعی کرے یا نہ کرے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہر عمرے یا حج میں سعی کرنا واجب اور ضروری ہے۔اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جاہلیت کے دور میں مشرکین نے ان دونوں مقامات پر دو بُت... اِساف اور نائلہ... رکھے ہوئے تھے۔ ان بتوں کی موجودگی میں مسلمانوں کو سعی کرنے میں تامل(Hesitation) ہوا تو فرمایا گیا کہ ان بتوں کی موجودگی میں بھی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پھر جب نبیﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی تو اب یہ سعی واجب اور ضروری ٹھہری۔
یاد رہے کہ شانِ نزول کے بارے میں مفسرین اور علماے اُصول کا ایک متفقہ قاعدہ یہ ہے:
"العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب"
مطلب یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے عام ہونے کا اعتبار کیا جائے گا او راسے کسی موقع کی وجہ سے خاص نہیں سمجھا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جن آیات کا کوئی خاص شانِ نزول ہوتا ہے اُن کے حکم کو صرف اسی موقع کے لیے مخصوص یا محدود نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس حکم کو عام قرار دیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ چونکہ فلاں آیت فلاں شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس کے بارے میں جو حکم آیا ہے وہ بھی اسی شخص کے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ حکم عام او رسب کے لیے ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر سورۃ المجادلۃ میں 'ظہار' کے بارے میں جو آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ اگرچہ دو مخصوص میاں بیوی کے حق میں نازل ہوئی ہیں لیکن ظہار کا حکم عام ہے۔ صرف انہی میاں بیوی کے لیے مخصوص یا محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق (Application) دوسرے لوگوں پر بھی ہوگا۔
البتہ شانِ نزول کے حوالے سے ایک مشکل پیش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تفسیر کی کتابوں میں بعض اوقات ایک ہی سورت یا آیت کے کئی مختلف شانِ نزول لکھے ہوتے ہیں، جبکہ حقیقت میں اُس کا ایک ہی شانِ نزول ہوتا ہے۔ لیکن صحابہ کرام او رتابعین جب یہ دیکھتے تھے کہ فلاں آیت یا سورت کے حکم کا اطلاق اُس جیسے کسی اور واقعے پر بھی ہوتا ہے تو وہ اس دوسرے واقعے کوبھی اُسی آیت کا شانِ نزول قرار دیتے تھے۔ اس طرح ایک ہی آیت یا سورت کے بعض اوقات کئی کئی شانِ نزول ہوجاتے تھے۔
اس بارے میں امام بدر الدین زرکشی اپنی کتاب 'البرہان فی علوم القرآن' میں لکھتے ہیں:
«وقد عرف من عادة الصحابة والتابعین أن أحدهم إذا قال: نزلت هذه الآیة في کذا فإنه یرید بذلك أن هٰذه الآیة تتضمّن هٰذا الحکم، لا أن هذا کان السبب في نزولها»
''صحابہ و تابعین کی یہ عام عادت ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ فلاں آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بات واقعی اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔''
بہرحال تفسیری کتب میں موجود کئی مختلف شانِ نزول والی آیتوں یا سورتوں کا اصل شان نزول معلوم کرنا خاصا دشوار کام ہوتا ہے اور اس میں ایک مفسّر کے لیے بڑا امتحان ہوتا ہے کہ وہ غور و فکر اور تحقیق کرکے اصل شانِ نزول معلوم کرے۔ اس سلسلے میں اُن کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہے جو خاص اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں جیسے امام واحدی کی 'اسباب النزول' وغیرہ۔
 

Syed Imaad Ul Deen
About the Author: Syed Imaad Ul Deen Read More Articles by Syed Imaad Ul Deen: 144 Articles with 350365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.