اﷲ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دنیا و
آخرت کی تمام نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات
عالیہ جامع کمالات و صفات کا مظہر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
خصائل ، خصائص اور شمائل لا تعداد ہیں ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جامع المعجزات
اور جوامع الکلم جیسے عظیم کمالات کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ سردارِانبیاء،
خاتم النبیین اورافضل البشر جیسی اعلیٰ صفات کے حامل ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی شخصیت اور سیرت کو ہر لحاظ سے جامع او ر ہمہ گیر بنایا گیا تاکہ
انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کے لیے ہدایت اور کامل نمونہ میسر
آسکے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کے ساتھ ساتھ اطاعت کا حکم
دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ
وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ یہاں تک کہ اﷲ رب العزت نے مسلمانوں
کو حکم دیا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تمہیں جو دیں وہ لے لواور جس سے منع
کریں اسے چھوڑدو۔ یہ حکم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کو اختیارات دیے گئے تھے ورنہ بیان کردیا جاتا کہ صرف وہی بات مانو جو
اﷲ نے قرآن میں بیان کردی ہے۔ اس کے برعکس اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا:وہ (رسول) انہیں اچھی
باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ
چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ (سورۃ
الاعراف: ۱۵۷) شریعتِ اسلامیہ میں حلال و حرام کی تعیین کا انحصار محض قرآن
پر نہیں ہے بلکہ بعض امور کی حلت و حرمت کی تعیین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی احادیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔
یہ بھی یادرہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیثیت محض شارح کی نہیں بلکہ
آپ شارع بھی ہیں۔ آپ جو امور حلال یا حرام فرمادیں تو ان کی بھی وہی حیثیت
ہوتی ہے جو قرآن میں بیان کردہ حلال وحرام امور کی ہوتی ہے ۔ چنانچہ حضرت
مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس کو حرام
کیا وہ ویسا ہی ہے جیسے اﷲ کا حرام کیا ہوا۔ (ترمذی: ۲۶۶۴)اسی طرح حضرت
عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ’’سن لو! میں نے نصیحت کرتے ہوئے اورحکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں
سے منع کرتے ہوئے جو کہا وہ بھی قرآ ن کی طرح ہے‘‘۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم اگر کسی بات کے متعلق ارشاد فرمادیتے کہ اس کام کو انجام دینا لازم ہے
تو وہ کام مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ، اگر چہ اس کا حکم قرآن میں نہ ملتاہو۔
اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر
مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑجانے کا خیال نہ ہوتا تو میں ان پر ہر نماز کے
وقت مسواک کو لازم قرار دیتا۔ (بخاری: ۸۴۷)یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی جانب سے حلال کردہ امور یا واجب کردہ احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مسواک کا حکم ارشاد فرمادیتے تو ہر وضو میں مسواک
کرنا لازم ہوتا۔ اسی طرح حج کے متعلق واضح ہے کہ ہر صاحب استطاعت شخص پر
زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ لیکن جب ایک صحابی نے ہر سال حج فرض ہونے یا
نہ ہونے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر میں ہاں
کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہوجاتا۔ ۔۔ آگے فرمایا: جب میں تمہیں کسی
چیز کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرو اور جب میں کسی بات سے منع
کردوں تو اسے چھوڑدیا کر۔ (مسلم: ۱۳۳۷)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ سے روگردانی کرنا اور صرف قرآن کے
حلال کو حلال سمجھنا اور صرف قرآن کے حرام کردہ امور کو حرام سمجھنا دین
نہیں بلکہ دین سے انحراف ہے۔ دینی امور میں حلال و حرام کی تعیین اسی وقت
ممکن ہے جب تعیین کرنے والے پاس اختیار ات ہو ں ۔ بغیر اختیار ات کے کسی
بھی شرعی امر کو حلال یا حرام نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اسی لیے اﷲ رب العزت
نے اپنے پیارے حبیب حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اختیارات عطا
فرمائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے حکم سے جس امر کو چاہیں مومنین پر حرام
فرمادیں اور جسے چاہیں اس حکم سے مستثنیٰ کردیں۔ جیسے بخاری کی روایت میں
آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت
زبیر رضی اﷲ عنہما کو خارش کے باعث ریشمی کپڑا پہننے کی خصو صی اجازت
فرمائی جبکہ عام طور پر ریشمی کپڑا پہننا مردوں پر حرام ہے۔ (بخاری: ۲۷۶۲)
ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرم مکہ کی تعظیم بیان کرتے ہوئے ارشا
د فرمارہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے مکہ کو حرم بنایا ہے۔ یہاں کا کوئی بھی
کانٹا نہیں توڑا جائے، نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ ہی یہاں کی گھاس اکھیڑی
جائے ۔ یہ سن کر حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم ! [اِذْخَرْ ]گھاس کاٹنے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ ہمارے گھروں کے
چھپرے بنانے اور قبروں پر رکھنے اور دیگر امور میں کام آتی ہے۔ یہ سن کر
آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس گھاس کو کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اختیارات
مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق شیخ ابن تیمیہ الصارم المسلول میں انتہائی
وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں: اﷲ رب العزت نے اپنے اوامر و نواہی اور اخبار و
بیان میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے ہی مقام پر فائز فرمادیا ہے۔،
لہٰذا ان مور میں سے کسی ایک میں بھی اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
درمیان تفریق کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اختیارات محض شرعی امور کے حرام یا حلال کرنے
تک محدود نہیں تھے بلکہ زمین و آسمان کی ہر شے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے
تصرف و اختیار میں ہے۔ اﷲ رب العزت نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکوینی امور
کے اختیارات بھی عطا فرمائے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک
شخص کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں اس وقت تک اسلام قبول نہیں
کروں گا جب تک آپ میری فوت شدہ بچی کو زندہ نہ کردیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
اس بچی کی قبر پر تشریف لے گئے اور اسے آواز دی۔ وہ بچی قبر میں بول اٹھی :
یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم !میں حاضر ہوں اور سب سعادتیں آپ کے لیے ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بچی سے پوچھا کہ کیا تو دنیا میں واپس آنا چاہتی
ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ نہیں، اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! خدا کی
قسم میں نے اﷲ کو اپنے حق میں اپنے والدین سے بہتر اور آخرت کو دنیا سے
بہتر پایا۔ (المواہب اللدنیہ) حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ نے حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی دعوت کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے جاں
نثار صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ نے
مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے اپنے گھر میں موجود ایک بکری کو ذبح کیا۔ جب
کھانا مہمانوں کے سامنے آگیا تو حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ
کرام سے فرمایا: کھاؤ مگر ہڈیاں مت توڑو۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں
ہڈیوں کو برتن میں جمع کیا ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ اس
پر رکھ کر آہستگی سے کچھ پڑھا۔ پھر اچانک بکری کان جھاڑتی ہوئی اٹھ گئی۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے فرمایا: اپنی بکری لے لو۔ وہ
صحابی بکری لے کر چلے گئے۔ (المواہب اللدنیہ) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حکم بن العاص حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس
بیٹھتا تھا اور جب حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو درس
دیا کرتے تھے تووہ اپنا چہرہ بگاڑتا یعنی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نقل
اتارتاتھا، حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے فر مایا: ایسا ہی ہوجا،
تو مرتے دم تک اس کا چہرہ بگڑا رہا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
درج بالا احادیث کے علاوہ متعدد احادیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہیں ۔ الغرض
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اختیارات لامحدود ہیں کیونکہ اگر نبی کے پاس
اختیارات نہ ہو ں تو منصب نبوت محدود ہوکر رہ جائے گا ، نبی کی حیثیت محض
ایک قاصد کی ہوکر رہ جائے گی اور نبوت و رسالت کی آفاقیت اور عالمگیریت پر
حرف آئے گا۔ اﷲ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین |