یہ زندگی انتظار کے گرد گھوم رہی ہے جیسے زمین سورج کے
گرد چاند زمین کے اور یہ ایک دوسرے کے اور یہ سب کس کے گرد گھوم رہے ہیں
ایک خدا کے حکم سے ایک حکم کے منتظر
بات ہو رہی ہے انتظار کی تو ہر کوی کسی کے انتظار میں ہے کام کرنے والا
اجرت کے کاروبار کرنے والا منافع کے سیاست دان الیکشن کے عوام وعدوں کے نہ
پورا ہونے کے گھر والی گھر والے کے اور کنوارے کو شادی کا انتطار شادی شُدہ
کو بیوی کے میکہ جانے کا قیدی کو رہائ کا اور آزاد کو گرفتارِ محبت ہونے کا
اور آپ کہتے چلے جائیں
اور خود یہ زندگی موت کے انتظار میں ہے
ایک انتظار اور بھی ہے کہ
یہ نہ تھی ہماری قسمت
کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ایک بزرگ کو سُنا جو فرماتے تھے کہ ہر کوئ اچھے وقت کا انتظار کر رہا ہے
حالانکہ یہی اچھا وقت ہے جو موجود ہے آج کا وقت اچھا وقت ہے کل کبھی نہیں
آتا
ویسے ایک اور زاویہ بھی ہے کہ سارا مزہ ہی انتظار میں ہے کسی پسندیدہ چیز
کے حصول کا انتظار یا آپ جس کو چاہتے ہیں اُس سے ملنے کا انتظار
اور وہ جو کہتے ہیں کسی موقع پر کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں وہ ختم نہیں
ہوتیں پھر کسی دوسری چیز کا انتظار شروع ہو جاتا ہے
اجتماعی طور پر ہم سب اس بات کے مُنتظر ہیں کہ یہ مُلک ویسا بنے جیسا اس کے
بارے میں سوچا گیا تھا
اور اقبال نے جو فرمایا
کبھی اے حقیقتِ مُنتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں |