100 روپے اور انسانیت کی قدر

آئے دن زندگی میں کچھ نئے واقعات رونما ہوتے ہیں یا ان واقعات کو پھر سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے ہی واقعات انسان کی اپنی زندگی پر اثر انداز بھی ہوتے ہوئے اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں یا پھر دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کو چند لمحات کے لیے اس پر غور کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اورکچھ اس سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے مثبت سوچ پیدا کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہی گزر جاتے ہیں۔ دراصل یہ اس وقت قاری کی اپنی سوچ، ماحول یا پھر شخصیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کس کیفیت میں ہے۔

انسان کو اﷲ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ، اس کو اپنی زندگی گزارنے اور ہدایت کے رستے پر چلنے کے لیے پرور دگار عالم نے انبیاء معبوث فرمائے۔ آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ختم نبوت کہ مہر ثبت کردی اور ہمارے لیے قرآن مجیدفرقان حمید اوراسوہ حسنہ رہنمائی کے لیے دیا گیا۔ تاکہ جسے اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ اپنی زندگی پیدا کرنے والے کے بتائے ہوئے طریقوں پر گزار کر اپنی زندگی اور معاشرتی زندگی کو آسان بنا سکے۔ اس میں انسانیت پیدا ہو اور اپنے ارد گرد انسانیت سوز واقعات سے عبرت حاصل کرے اور خود کو ایک انسان ہونے کے ناطے انسانیت کے روپ میں دوسروں کے لیے انسانیت کا سبق بن جائے۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ بندہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی نہ کسی ٹیسٹ سے گزر کر ملازمت کی منزل کو چھو لیتا ہے اور پھر وہ اس ملازمت کو جاری رکھتے ہوئے باقی ماندہ زندگی گزار دیتا ہے۔ پھر اپنی اولاد کا کیرئیر سنوارنے کی لگن میں رہتا ہے اور دیگر زندگی کے معاملات کو احسن طریقے سے گزار نے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

سروس مکمل ہونے پر ریٹائرہوتا ہے۔ ریٹائرمنٹ بھی بعض اوقات انسان کے لیے ایک امتحان بن جاتی ہے۔ اس وقت تک اس کے بچے پڑھ لکھ کر جوان ہو جاتے ہیں۔ اپنے کیرئیر کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں۔ سروس سے ریٹائر ہونے والا شخص اپنی اولاد کی بہتری کے لیے اس قدر سنجیدہ ہو کر سوچتا ہے کہ میں نے اپنے بچے کا مستقبل اپنے سے بہتر بنانا ہے۔ اور وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے نہ جانے وہ کتنی تکالیف جھیلتا ہے۔ لیکن وہ سب تکالیف کو نظر انداز کر دیتا ہے کیونکہ اسے اس کے پیچھے چھپا ہوا اپنی اولاد کا بہتر مستقبل نظر آرہا ہو تاہے۔

ریٹائرمنٹ پر قومی کی طرف سے اس کے لیے وضع کردہ قانون کے تحت پنشن ملتی ہے۔ یہ پنشن قوم اسے اس لیے دیتی ہے کہ کہ اس نے ہماری خدمت کے لیے اپنی زندگی لوٹا دی ۔ جو بھی پنشن طے ہوتی ہے وہ یا تو بینک یا پھر پوسٹ آفس سے وصول کرنا پڑتی ہے۔ بینک جائیں یا پوسٹ آفس آپ کو لمبی لمبی قطاریں لگی ملیں گی۔ پنشنر ترتیب وار خودبخود لائن میں کھڑا ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب یہ سارے مختلف عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ان پنشنر ز کے لیے بینک یا پوسٹ آفس میں بیٹھنے کے لیے کوئی خاطر خواہ بندوبست بھی نہیں ہوتا اور بعض دفعہ پانی بھی ان کے لیے جوئے شیر بن جاتا ہے۔

ایک دن پنشنر کا بیٹا جس کے مستقبل کے خواب دیکھنے اور بنانے کے لیے اس نے بہت کچھ برداشت کیا ۔اﷲ تعالیٰ نے اس کی محنت کے صلے میں اولاد کا مستقبل شاندار بنا دیتا ہے ۔ اس شاندار مستقبل کے پیچھے یہ بوڑھا پنشنر ۔۔۔۔۔۔۔۔

پنشنرز لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ تازہ دم اور کچھ ضیعف العمر جو لائن میں زیادہ دیر کھڑے ہوکر انتظا ر نہیں کر سکتے تھے لیکن پھر بھی وہ لائن میں اپنی باری کے انتظار میں تھے۔ ۔۔۔ اچانک ایک گاڑی رکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔۔۔۔

ایک پر وقار شخصیت کا حامل، اچھا ڈریس زیب تن کیئے ہوئے ، میر ی طرح ٹائی لگائے ہوئے سٹیرنگ سیٹ پر بیٹا ہوا ہے۔ گاڑی کا فرنٹ گیٹ کھلتا ہے، ایک بزرگ اس گاڑی سے نیچے اترتا ہے ، اتنے میں بیٹے کی آواز آتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ابا یہ لیجیے آپ 100 روپے رکھ لیجیے جب پنشن لے کر فری ہو جاؤ تو،رکشے میں گھر چلے جائیے گا، مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے''۔۔

بوڑھے باپ کو اُتار کر وہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا آگے نکل گیا۔ جس کے بہتر مستقبل کے لیے اباجی نے سو جتن کئے تھے اس کا شاندار مستقبل اسے پوسٹ آفس کے باہر اتار کر چلا جاتاہے۔

افضل چند لمحے بیٹے کی دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتا رہا پھر ایک ہاتھ میں پنشن فارم ، پنشن بک اور ایک ہاتھ میں بیٹے کا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ پکڑے وہ اُس لمبی سی قطار کے آخرمیں جا کر کھڑا ہو گیا جس میں اُسی جیسے بہت سے بوڑھے کھڑے تھے، سب کے چہروں پر عمر رفتہ کے نشیب و فراز پرانی قبروں پر لگے دُھندلے کتبوں کی مانند کندہ تھے۔

آج پنشن لینے کا دن تھا، قطار لمبی ہوتی جارہی تھی، پوسٹ آفس کی جانب سے پنشن کی رقم ادا کرنے کا عمل خاصا سست تھا۔ سورج آگ برساتا تیزی سے منزلیں طے کرنے میں مصروف تھا، بے رحم تپتی دھوپ بوڑھوں کو بے حال کرنے لگی، کچھ اُدھر ہی قطار میں ہی بیٹھ گئے، افضل بھی بے حال ہونے لگا، اُس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور لڑکھڑا کر اُدھر قطار میں ہی بیٹھ گیا،

اچانک ذہن کے پردے پر اپنے بیٹے کا بچپن ناچنے لگا، وہ جب کبھی اچھلتے کودتے گر جاتا تو وہ کیسے دوڑ کر اُسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا، اس کے کپڑوں سے دھول جھاڑتا، اُس کے آنسو نکلنے سے پہلے ہی اُسے پچکارتا، پیار کرتا، گلے لگاتا مگر آج وہ خود لڑکھڑا کر دھول میں لت پت تھا اور اُسے اٹھانے والا اُسے یہاں اس طرح چھوڑ کر چلا گیا تھا۔جیسے وہ ایک دیہاڑی دار مزدور تھا یا زمانے کی مادہ پرستی کی دوڑ ۔ ۔۔۔۔وہ مٹھی کھول کر100 روپے کے اس نوٹ کو دیکھنے لگا جو صبح بیٹا اُس کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا تھا،

وہ سوچنے لگا کہ ساری عمر ایمانداری سے ملازمت کر کے، بیٹے کو پڑھا لکھا کر، اُس کی شادی کر کے کیا اُس کی زندگی کا سفر اس 100 روپے کے نوٹ پر آ کر ختم ہو گیا ہے۔۔ ۔۔۔۔

دوستو! میں بھی ایک پنشنر ہو ں ابھی ساہ ست ہے۔ آنے والا وقت کیا کرے گا اس کا علم نہیں لیکن اچھی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑ پھر رب کریم پر چھو ڑ دو۔چند دن پہلے میرا بیٹا مجھے بزنس آفس چھوڑنے کے لیا آیا۔ اس نے میرے ساتھ تالے کھولے اور شٹر اٹھایا ۔ ہم دونوں اندر داخل ہو ئے۔ میں سو چ ہی رہا تھا کہ بیٹا اب کہے ابو جی میں جاؤں ۔۔خیر ایسی آواز نہ آئی ، وہ خاموشی آگے بڑھا اور صفائی والا برش اٹھایا اور دکان کی صفائی شروع کردی(یہ بیٹا کامسٹ یونیورسٹی میں بی ۔ایس سافٹ وئیر انجینئر لاسٹ سمسٹر کا طالب علم ہے)۔ زندگی میں پہلی بار میں یہ دیکھ پر حیران رہ گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ اﷲ کریم کا شکریہ ادا کیا کہ رب العزت نے اولاد کی تربیت کرنے میں میری خاص مدد فرمائی ورنہ جوان اولاد تو ویسے ہی خود سر ہوتی ہے۔ دوستو! آپ بھی اپنی اولاد پر نظر رکھیں۔

براہِ کرم اپنے والدین کی عزت کریں ان کا خیال رکھیں.اور اُن کی زندگی کا سفر100 کے نوٹ پر مت ختم نہ ہونے دیں۔ جب وہ پنشن لینے آئیں تو کوشش کریں ان کے ساتھ ان کی جگہ لائن میں انتظار کریں باری آنے پر آواز پڑنے پر باباجی کو بلا کر پنشن وصول کروائیں ۔

اس پر ذرا سوچیں کہیں آپ بھی ایسا تو نہیں کر رہے؟ بزرگ والدین اﷲ کا خاص عطیہ ہیں ۔ ان کو یوں گرنے نہ دینا۔ بلکہ زندگی میں جب بھی کبھی آپ سے کچھ مانگیں تو پچھلے کا حساب نہ لینے بیٹھ جانا کیونکہ اس نے آپ کے بہتر مستقبل کے لیے بے حساب خرچ کیا ہے ، آؤ آج سے وعدہ کریں کہ احساسِ انسانیت کو کبھی ختم نہیں ہو نے دیں گے۔ اپنے ابا جی کے علاوہ اگر کوئی دوسرا بزرگ بھی آپ کے سہارے کا مستحق ہے تو ضرور بڑھ سہار ا دیں کیونکہ آپ کا کل بھی یہی ہے ، جس کل کو آپ آج لائن میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ شکریہ اﷲ تعالیٰ ہم سب میں احساسِ انسانیت جگائے اور ہمیں انسان ہونے کے ناطے سے انسانیت کی قدرکرنا عطا فرمائے آمین۔ ثم آمین۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156917 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More