اپنا پن کل اور آج

موجودہ سیاسی کشمکش

کل:
پرانے زمانے میں بڑے بوڑھے خاندان میں شادیوں کو زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے۔ زیادہ تر بیٹی کو رخصت کرنے سے پہلے رشتہ کرنے پر یہ کوشش کرتے تھے کہ جہاں رشتہ ہورہا ہے وہ اپنے خاندان کے اور دیکھے بھالے ہوں۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پیار محبت خاندان میں زیادہ ہوتا تھا، ایک دوسرے کی زبان کا پاس رکھتے تھے۔ اور اسی سوچ کے پیش نظر یہ خیال رکھتے تھے کہ ان کی بیتی جہاں جارہی ہے وہاں اگر خدا نخواستہ کسی ناچاقی کی صورت میں غیروں کی نسبت بہتر سلوک روا رکھنے کی امید ہوتی تھی۔

آج:
آج اس دور میں یہ لفظ "اپنا " سیاست میں استعمال کیا جارہا ہے اور اس لفظ کو اپنی سیاست میں خوب چمکایا جارہا ہے۔
اس پر مہدی حسن کا ایک نغمہ یا د آتا ہے۔۔۔۔۔۔
اپنوں نے غم دئیے تو مجھے یاد آگیا
ایک اجنبی جو غیر تھا اور غمگسار تھا
وہ ساتھ تھا تو دنیا کے غم دل سے دور تھے
خوشیوں کو ساتھ لے کے جانے کہاں گیا

ایک تھا "اپنا" جس نے اس قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ، وہ تھا" اپنا" جس نے مظلوم طبقہ کے حقوق کے لئے اپنی کوششیں کیں جس قوم کے ساتھ برسوں سے انتقامی سلوک روا رکھا جا رہا تھا وہ تھا" اپنا"۔ وہ جہاں تک بھی کامیاب ہوا یا نہیں اس میں بھی سوا ل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اب جو لوگ "اپنا" پن جتا رہے ہیں انہوں نے اس "اپنے پن" کا شیرازہ بکھیر دیا، وہ چند لوگ یکجا نہ ہوسکے اپنے اپنے مفاد کی خاطر ، اگر قوم کا مفاد عزیز ہوتا تو تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہوجاتے۔
یہ اپنے پن کا روگ الاپنے والوں نے اپنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ملاحظہ کیجئے!۔۔۔۔۔
کیا اپنوں نے اپنے لوگوں کا پانی نہیں بیچا؟
کیا اپنوں نے اپنے لوگوں کو تعلیم سے محروم نہیں رکھا؟
کیا اپنوں نے اپنے لوگوں کو روزگار سے محروم نہیں رکھا؟
کیا اپنوں نے اپنے لوگوں کو مار پیٹ اور ڈرانے دھمکانے کے علاوہ کچھ کیا؟
کیا اپنوں نے اپنے لوگوں پر بدمعاشی کی کوئی کسر اٹھا رکھی ؟
کیا اپنوں نے اپنے لوگوں کے کاروباردلجمعی سے کرنے کو موقع دیا؟
کیا اپنوں نے اپنے ہی لوگوں کو ملک سے باہر جانے پر مجبور نہیں کیا؟

یہاں اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اپنا ہر وقت اپنا ہوتا ہے صرف الیکشن کے وقت نہیں۔ یہ ان کی سمجھ میں آجانی چاہئے۔

عوام نے آپ کی ایک آواز پر قربانیاں دیں۔آج بھی اپنے اسی شہر میں سمندر کے ہوتے ہوئے پانی کو ترسے ہوئے ہیں۔ بجلی کے محکمے میں اپنے ہی اپنوں کا خون چوس رہے ہیں ۔ ساری دنیا سے مختلف ٹیرف لاگو کیا ہوا ہے یہ کون بھگت رہا ہے۔ غیروں کی ملی بھگت سے ہر محکمہ میں اپنے ہی اپنوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ یہی اپنے تھے جو ایک حکم پر سڑکوں پر ایسے خاموش بیٹھ جایا کرتے تھے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ سڑکوں پر ایک حکم پر جھاڑو دینا فخر سمجھتے تھے۔ اس عوام نے بہت ساتھ دیا ہے، لیکن اپنوں نے ہی اپنوں کو ڈسا ہے۔ اپنوں سے رشوت لے کر بھی جائز کام نہیں کرتے جبکہ غیر رشوت لے کر سو فیصد کام کردیتا ہے۔یہ ہم سب کا تجربہ ہے۔

یہاں یہ کہنا کہ ہمارے پاس وسائل کا فقدان ہے۔ یہ بالکل غلط ہے، فنڈ جنریٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں، ابھی چیف جسٹس نے چند دنوں میں کروڑوں روپے جمع کر لئے۔ بات ہے ایمانداری اور مخلص ہونے کی۔ آپ کے پاس فنڈ نہیں تو آپ خاموشی سے اپنے فوائد کیو ں حاصل کئے جارہے ہیں؟

آپ کی نیت اگر صاف ہے تو عوام اپنا سب کچھ "اپنوں " پر لٹا سکتی ہے۔ لیکن پہلے اپنے آپ میں "اپنا پن" سنجیدگی سے پیدا کریں۔ فی الحال نئے لوگوں کو کام کا موقع دیا جانا چاہئے۔یہ ہمارے شہر کی ضرورت ہے۔

ABDUL RAZZAQ
About the Author: ABDUL RAZZAQ Read More Articles by ABDUL RAZZAQ: 16 Articles with 10410 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.