وقت کی تلوار

انصاف سب کے لیے ایک جیسا ھوتا ھے تو پھر کوئی بڑا یا کوئی حکمران اسکے قابو آتا ہے تو عدل کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا جو کوشش اسکو معاشرے میں رسوا کر دیتی ھے...

عدل
لفظ عدل عربی زبان میں جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے ان میں سیدھا کرنا،برابر کرنا،توازن قائم رکھنا کے ہیں۔قرآن کریم میں بھی عدل کے لیے لفظ قسط کا استعمال کیا گیا ہے یہ طویل عریض کائنات عد ل کے ستون پر ہی قائم ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہے گئ بھی۔اس کے اجزاء میں ایک مکمل توازن قائم ہے اور جب کسی معاشرے میں عدل کے تناصر غیر متوازن ہوجائیں تو ایک لمحہ کے لیے بھی معاشرے کا زندہ رہنا,اسکی بقا قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ کائنات ارضی کی تما م اشیاء میں مخصوص توازن پایا جاتا ہے اگر اس میں فقدان پیدا ہوجائے تو اس کا قیام و بقاء محال ہوجاتا ہے .قرآن کریم میں سورۃ النحل آئیت نمبر 90 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے۔عدل صفات خداوندی میں سے ایک ہے اور خدا کا حکم ہے کہ اپنے اندر میری صفات پیدا کرو.

میرے پیارے ملک پاکستان میں پانامہ کے عنوان سے ایک ایشو اپنے پورے عروج کے ساتھ ہر ٹی و ی چینل کی زینت بنا رہا .اس کا تذکرہ اور اسکے فیصلے کے بارے میں قیاس ارائیاں ہر اہل علم کرتا رہا۔ تقریباً دس ماہ کی سماعت کے بعد چند ہی دن پہلے عدالت عظمیٰ کی طرف سے تفصیلی فیصلہ جاری ھوا اور الزام سے جیل تک کا فیصلہ ھوا۔عدالتی امور میں عدل و انصاف کی بے حد ضرورت ہوتی ہے اس لیے عدالت عالی نے عدل کی بقاء کے لیے اپنا فیصلہ زمینی حقیق پر دیا کیونکہ معاشرے عدل پر قائم رہتے ہیں۔

شریعت اسلامیہ نے بھی عدالتی امور کے ہر پہلو میں عدل و انصاف کا لحاظ رکھا ہے اور رکھنے کا حکم بھی دیا ھے چنانچہ دستاویز لکھنے کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ دستاویزات لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔بے شک عدل وا نصاف ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے قرآن کریم اس کھٹن منزل کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔

لہذا حضرت مولانا سید سلیمان ندوی سورۃ النساء کی آیت نمبر 135 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں عد ل و انصاف تمہارا مقصد ہو جو کچھ کہو خد الگتی کہو اور خدا کے واسطے کہو عدل و نصاف کے فیصلے اور گواہی نہ تو اپنے نفس کا خیال بیچ میں آنے دو اور نہ عزیز وں اور رشتہ داروں کا،نہ دولت مندوں کی طرف داری کا نہ محتاج پر رحم کا پھر اس فیصلے اور گواہی میں کوئی بات لگی لپٹی نہ رکھی جائے حق کا کوئی پہلو جان بوجھ کر نہ بچایا جائے۔

حضرت علیؒ ہجویری اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ عدل کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنے کو کہتے ہیں اور اس کی ضد ظلم کا لفظ ہوتا ہے۔جس کے معنی ہیں کسی چیز کو غلط جگہ پر رکھنا جو اسکے لیے مناسب حال نہ ہو۔عدالتی فیصلے کے بارے میں نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ بعض لوگ میرے پاس آکر اپنے آپ کو زبان درازی سے سچا ثابت کرکے اپنے حق میں فیصلہ صادر کروا لیتے ہیں۔مگر انکو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جہنم کی آگ پھانکتے ہیں .

اب پانامہ ایشو کا فیصلہ جس کے بھی حق میں آیا,جو بھی آیا تھا تو میرے اسلامی ملک کی اعلی عدالت کا فیصلہ اسکو تسلیم کرنا ہی دانش مندی تھی مگر خود ساختہ بادشاہت نے انکار کر دیا. یہ میرے ملک پاکستان کے اعلی حکمران ایک دفعہ تو سوچتے کہ کیا اس کو رد کرنا درست ھے یا غلط ھے اس طبقہ کو خود سوچنا ہوگا کہ اس نے اپنے آپ کو عدالت عظمی کے سامنے حق پر ثابت کرنے کے لیے کس حد تک زبان درازی کا سہارا لیا ہے اور کس نے حقائق سچائی اور عد ل وانصاف کے تقاضے مکمل نبھائے ہیں .

کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے ہرایک نگہبان ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔یہ بات تو پتھر پر لکیر ہے کہ اب پانامہ کا فیصلہ آ بھی گیا اور اس پر عمل بھی جاری ھے یہ فیصلہ میرے پیارے پاکستان کی تاریخ پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرے گا۔جو فیصلے کو قبول کرے گا وہ کامیاب بھی ہوگا اوتاریخ اسکو یاد بھی سہنری الفاظ میں کرے گئ ...لیکن افسوس کے ساتھ جو اس عدالتی فیصلے کو رد کرے گا وہ رسوائی کو اپنا مقدر بنا رہا ھے معاشرے میں افراتفری کا سبب بن رہا ھے....

اگر وقت کی تلوار پر اپنی زبان رکھ دے تو یہ نسل ہی اسکی سزا پر ختم ھو گئ اور آنے والی نسل اسکو اچھے معاشرے کی بنیاد تصور کرے گئ......
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت کل عطا فرماۓ .آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458170 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More