ریاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف اور گلگت بلتستان کے
عوام پورے ملک کے عوام کی طرح اسلام آباد میں ایک مستحکم اور فعال حکومت
چاہتے ہیں، مظفرآباد ،گلگت حکومتوں کا اسلام آباد حکومت سے براہ راست تعلق
ہے جس کا حکومتوں نظام اور عام آدمی کی زندگی سمیت سیاست ،معیشت ہر اعتبار
وپہلو سے منسلک ہونا فطرتی حقیقت بن چکا ہے جو سب سے زیادہ طاقت ور حیثیت
رکھتا ہے۔ تواسلام آباد وچاروں صوبوں ،مقامی حکومتوں، فوج سے لے کر سول
اسٹیبلشمنٹ ،ملازمتوں ،سیاسی مذہبی جماعتوں، صنعت کاری ،تجارت سے لے کر
سبزی فروٹ کی منڈیوں بشمول تمام بڑے چھوٹے شہروں دیہی علاقوں میں
جائیدادوں، اثاثوں، بیرون ملک مقیم تارکین وطن کے طور پر فعال کردار کے
حامل کشمیر ی خون کے رشتے ناطوں میں بھی بندھی ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی
عوام کا ان تمام عوامل سے بڑھ کر سمندروں کی گہرائیوں سے زیادہ کوہ ہمالیہ
سے بلند قلبی فطری عشق ہے جس کا کوئی نعم البدل ہے نہ لفظوں ،تحریروں میں
بیان ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے پرچموں میں اپنے شہدا کو لپیٹ کر اللہ کے
سپردکرتے ہیں ۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں آزادی کا مقام کیا ہے اور اسلام آباد
کے وجود کا احساس زخموں پر مرہم سے کم نہیں ہے ۔ مگر اس کا ادارک اسلام
آباد کے نظام سے منسلک سیاست دانوں، ججز، جنرل، بیوروکریٹ، بزنس مین،
صحافی، علمائے مشائخ سمیت تمام سٹیک ہولڈر کو حقیقی معنوں میں ہوتاتو
پاکستان کے مفاد کو اپنے دل ودماغ اور جماعتوں اداروں، مسلک ،شخصی بتوں وآل
اولاد سے زیادہ مقدم رکھتے ہیں نہ دوسروں کی جنگیں لڑتے لڑتے اپنے ملک وملت
کو قرضوں سمیت انتہا پسندی کے جالوں میں جکڑتے ہوئے معذور جسم بنانے کا
موجب بنتے۔ شاید کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک کیا کچھ ہوچکا ہوتا۔ یہ شہدا
کے لہو اور ملت کے ہر فرد کے صبر کا ثمر ہے۔ اس کی سلامتی اور وجود سب سے
بڑھ کر اہمیت وافادیت رکھتا ہے مگر سب مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھنے
والی اکثریت اپنے اپنے بتوں جیسے کرداروں کو سلامت رکھنے کے لیے سلامتی کے
ضامن ملک وملت کے مفادات سے لاتعلق اپنے انا وبالادستی کو زندہ رکھنے کے
مرض میں مبتلا ہیں۔ ادارے جماعتیں سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ پہلے ملک
ہے جس کا وجود قوم سے ہوتا ہے اور قوم کے ہر فرد کا مفاد حقیقتاً ملک کا
مفادہے ۔جس کے لیے سب کو آئین کے تابع ہو کر چلنا ہوگا ۔اور قوم کے ہاتھ
اپنے اپنے گریبانوں تک پہنچنے سے پہلے اپنے اپنے کرداروعمل پر نظرثانی کرتے
ہوئے خود کو بھی جواب دہ بنانا ہوگا۔ ایک صاف شفاف انتخابات ہی سیدھے راستے
کا دروازہ ہیں۔ جس طرح آزادکشمیر میں انتخابات والے دن پولنگ اسٹیشن کے
اندر اپنی مرضی سے ووٹ پول کیا ۔ اس طرح پورے ملک میں ووٹ پول کرنے دیا
جائے تاکہ قوم مطمئن ہو اور کوئی الزام طعنہ وزن کا حامل نہ رہے ۔
آزادکشمیر ،مقبوضہ کشمیر گلگت بلتستان کے عوام بھی ملت پاکستان کی طرح
چاہتے ہیں ۔ پاکستان ایک عظیم جمہوری فلاحی ریاست کے سفر پر گامزن ہو جائے
جس کا نام لیتے ہی ساری دنیا میں سرفخر سے بلند اور سینہ چوڑا کر کے اپنے
شہری ہونے پر ناز کیا جاسکے ۔رب کا شکر ادا کرنے کے لیے دل سے پیشانی سجدہ
ریز ہو جائے۔ ان خطوں کے عوام نہ صرف اُمیدیں وتوقعات رکھتے ہیں بلکہ دعا
گو ہیں کہ 25جولائی کو پرامن آزادانہ انتخابات کے ساتھ ایک ایسی پارلیمنٹ
وجود میں آئے جس کے اندر سے بننے والی حکومت سمیت عدلیہ فوج جماعتوں مسلک
سب شعبہ جات مکاتب فکر ادارے خود کو ملت کے تابع یعنی اس کے ووٹ کے اختیار
سے تشکیل کردہ آئین کا پابند ہونے کے عہد وعزم کے اظہار کریں اور اپنی اپنی
صفوں میں صفائی کرتے ہوئے ملک کی ترقی کے لیے محنت وریاضت سے سنہری باب رقم
کریں ،ریاست جموں وکشمیر گلگت بلتستان کے ہر فرد کا دل پڑھنے کی طاقت احساس
رکھنے والادیکھے گا تو اسے احمد ندیم قاسمی کے یہی کلمات نظرآئیں گے ۔
خداکرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے کہ وقار اس کا غیر فانی ہو
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ وسال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب وفن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو ،کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو |