ووٹ سے خوف کیوں؟

یہ امر طے شدہ ہے کہ ووٹ ایک عام پاکستانی نے ہی ڈالنا ہے۔اس کی حالات پر گہری نظر ہے۔اسے اپنے مسائل کا ادارک ہے۔وہ جانتا ہے کہ کون سا لیڈر اور کون سی جماعت اس کے مستقبل کے لیے مخلص ہے۔اب کی بار انتخابات ملک کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہو رہے ہیں دھاندلی کا کوئی امکان نہیں۔پوسٹل بیلٹ تک کا حساب کتاب دیکھا جا رہا ہے۔ہر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ موبائل ایپ کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوایا جائے گا اور وہی نتیجہ اسی وقت تمام امیدواروں کو بھیج دیا جائے گا۔رات گئے نتائج اب تبدیل نہیں ہو سکے گے۔

25جولائی کے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی اس کے نتائج کے بارے میں قیاس آ رائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ذرائع ابلاغ نے اپنے تجزیے پیش کرنے شروع کر دیے تھے۔اخبارات نے خصوصی اشاعتوں کا انتظام کیا۔برقی ذرائع ابلاغ نے ہر لمحے ان انتخابات کے ممکنہ نتائج پر بحث کی۔کیمرہ اور مائیک گلی گلی اور محلہ محلہ پھیل گئے۔طرح طرح کے سروے کیے گئے۔ ٹی وی سکرینیں سارا دن الیکشن ٹرانسمیشن میں مصروف رہی۔ سیاسی جماعتوں نے ان صحافتی تبصروں اور تجزیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیاانہوں نے اپنے ہم خیال افراد کو ان ٹی وی سکرینوں پرچسپاں کر دیا۔ہر تجزیہ نگار نے اپنی پسند یا اپنی ہم خیال جماعت کو کامیابی دلوانے کی نوید دے ڈالی۔ ان خوش خبریوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے مافوق الفطرت دلائل بھی دے ڈالے۔جن کو کامیابی نظر نہیں آ رہی انہوں نے خلائی مخلوق کا تذکرہ چھیڑ دیا۔خفیہ ہاتھ کی باتیں ہونے لگیں عدالتی فیصلوں کو کچھ اور رنگ دیا جانے لگا۔اِن کی اُن کی مرضی کے تذکرے ہونے لگے۔جیپ کے نشان کو متعارف کروایا گیا۔ قوم کو باور کروایا دیا گیا کہ ان انتخابات کے نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے۔پرچی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔لوگوں کی رائے جو بھی ہوفیصلہ وہی ہو گا جو اُن کو منظور ہو گا۔اب نگران حکومتوں،الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ غیر جانبدار نہیں ہیں۔سینٹ میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیے گئے ہیں۔دہشت گرد جماعتوں کے افراد کے انتخاب لڑنے پر اب کچھ سیاسی جماعتیں سیخ پا ہیں۔

یہ بات باعث حیرت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عام آدمی کی رائے کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ امر طے شدہ ہے کہ ووٹ ایک عام پاکستانی نے ہی ڈالنا ہے۔اس کی حالات پر گہری نظر ہے۔اسے اپنے مسائل کا ادارک ہے۔وہ جانتا ہے کہ کون سا لیڈر اور کون سی جماعت اس کے مستقبل کے لیے مخلص ہے۔اب کی بار انتخابات ملک کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہو رہے ہیں دھاندلی کا کوئی امکان نہیں۔پوسٹل بیلٹ تک کا حساب کتاب دیکھا جا رہا ہے۔ہر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ موبائل ایپ کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوایا جائے گا اور وہی نتیجہ اسی وقت تمام امیدواروں کو بھیج دیا جائے گا۔رات گئے نتائج اب تبدیل نہیں ہو سکے گے۔

آخر اس پہلو پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ یہ شور کیوں کر کیا جا رہا ہے۔جو جماعتیں ماضی میں کا رکردگی نہیں دکھاسکیں انہیں اپنی شکست صاف نظر آ رہی ہے۔جو لوگ کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث رہے ہیں وہ بھی ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔یہ شکست خوردہ لوگ اپنی ناکامی خفیہ ہاتھ کو قرار دے رہے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ ریاستی ادارے پاکستان تحریک انصاف کی مدد کر رہے ہیں۔کچھ علاقائی اورمذہبی جماعتیں بھی ان کی ہم خیال ہیں۔یہ لوگ اور ان کے حامی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ جیپ کا نشان ان ہی اداروں کی خواہش پر دیا گیا ہے۔میرے ضلع چکوال میں جن امیدواروں کے پاس جیپ کا نشان ہے وہ تحریک انصاف کے مقابل الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس کے ووٹ بینک کو متاثر کر رہے ہیں۔ان کے جیتنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔جیپ کے نشان کا تاثر سراسر غلط ہے۔دہشت گرد جماعتوں کے افراد کے الیکشن لڑنے پر پیپلز پارٹی نے قوائد کے مطابق مقررہ اوقات میں ان پر اعتراض داخل نہیں کیا اب شور مچانے کا کیا فائدہ؟قانون سازی ان ہی جماعتوں نے کی ہے اور اسی قانون کے مطابق وہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔نگران حکومتیں ان ہی دو جماعتوں کی مشاورت سے بنی۔الیکشن کمیشن میں تعینات افراد انہی جماعتوں کے ادوار کے ہیں۔عدالتی فیصلے انہی کے خلاف آنے ہیں جنہوں نے حکومت میں رہ کر مال کھایا ۔ مسلم لیگ ن کے قائد نے اپنی کرپشن اور منی لانڈرنگ ثابت ہونے پر فوج اور عدلیہ مخالف بیانیے کو فروغ دیا ہے گجرات سے لے کر مری تک ہر گھر میں ایک فوجی ضرور ہے اس تمام علاقے میں مسلم لیگ ن کو واضح شکست نظر آ رہی ہے اگر آپ فوج کے خلاف نفرت کا بیج بوئے گے تو فوجی گھرانے ووٹ بھی نہیں دے گے یہی کچھ چکوال میں بھی ہو گا۔پورے ملک میں صورت حال کچھ ایسی ہے ۔عام آدمی عدلیہ اور فوج کی توہین برداشت نہی کر رہا اس نے اپنی رائے کا اظہار ووٹ سے کرنا ہے۔ووٹ کی طاقت پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے ۔اس طاقت کا اثر ہے کہ چیخیں ابھی سے بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہی ووٹ ان لوگوں کے اذہان میں خوف بن کر چھا چکا ہے۔اس خوف کے نتیجے میں وہ انتخابی عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ عوام جس رائے کا اظہار کریں گے تمام ریاستی ادارے اسے قبول کرے گے۔حالات بدل رہے ہیں تبدیلی آ چکی ہے مگر جن کو یقین نہیں آ رہا ہے وہ ہی خوف میں مبتلا ہیں۔
 

hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61597 views i am columnist and write on national and international issues... View More