جنرل الیکشن میں من پسند نتائج پانے کی خواہش ہمیشہ مقتدر
حلقوں میں پائی گئی ہے۔اس خواہش کا سبب وہ الٹے سیدھے دھندے ہیں جو ان
حلقوں نے پال رکھے ہیں۔ان دھندوں کی اجازت نہ قانون میں ہے۔نہ ملک پاکستان
کے آئین میں اس کی گنجائش موجودہے۔ان دونمبر دھندوں کے جاری رکھنے کے لیے
ایسا سیٹ اپ مطلوب ہوتا ہے جو کاٹ کے گھوڑے کا سا ہو۔جس کوجس سمت مرضی
ہلایا جاسکے دوڑایا جاسکے۔اس طرح کا سیٹ لانے کے لیے الیکشن میں من پسند
نتائج لانا ضروری ہوتاہے۔تاکہ اپنے بندے آگے آسکیں۔مخالفیں کو میدان سے آؤٹ
کیا جاسکے۔پچھلے الیکشن میں من پسند نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے۔اس دفعہ ہر
قیمت پر من پسند نتائج پانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔۔پچھلی بارہو ایو ں
تھا کہ ایک نئی نویلی جماعت کو مسلط کرنے کی تیاریاں کی گئیں۔جانے کہاں
کوئی کوتاہی رہ گئی کہ یہ منصوبہ فیل ہوگیا۔اس ناکامی کا غصہ پانچ سال تک
اپنے گماشتے میدان میں اتار کر یہ حلقے نکالتے رہے۔ان کے مہرے پٹتے رہے۔اور
نوازشریف کی جماعت نے منہ چڑاتے ہوئے پانچ سال پورے کرلیے۔اب آئندہ جنرل
الیکشن میں پھر اسی قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔پچھلی دفعہ صرف اور صر ف
عمران خاں کو اٹھنا بیٹھنا سکھانے تک توجہ تھی۔خیال یہ تھاکہ الیکشن جتوانا
مشکل نہ ہوگا۔جو معاملات حکومت سازی سے متعلق ہیں۔ان پر زور دیا گیا۔اس بار
عمران خاں پر تکیہ کرنے کی بجائے الیکٹیبزکی مدد لی گئی۔پچھلی با رچیف جسٹس
افتخار محمد چوہدری کی جانب سے مداخلت ہونے کا شبہ ہواتھا۔ اس بار عدلیہ سے
اس طرح کے چیلنج نہ ہونے کا بندوبست کرلیا گیا۔پچھلی باراوورکنفی ڈینس نے
نوازشریف کو ٹچ نہیں کرنے دیا۔اس باریہ غلطی نہیں کی گئی۔ تما م تر توجہ صر
ف اور صرف شیر کو گھیرنے تک محدود رہی۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی جانب سے عمران خان کے کچھ جلسوں میں
عوام کی کم تعداد میں شرکت کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایک
جلسے میں عوام کی زیادہ بڑی تعدا د میں موجودگی نہ ہونے کا سبب جلسے کا ایک
گھنٹہ پہلے ہوجانا تھا۔عمران خان نے 6بجے جلسہ سے خطاب کرنا تھا۔دیگر جلسوں
میں شرکت کی وجہ سے ان کا خطاب 5بجے کروایا گیا۔اس ایک گھنٹہ قبل خطاب کے
غیر متوقع ہونے کے سبب جلسہ گاہ میں معقول تعدادجمع نہ ہوسکی۔فواد چوہدری
کا مذید کہنا تھاکہ بارش کے سبب بھی کچھ جلسوں میں حاضرین کی کمی رہی۔انہوں
نے واضح کیا کہ عمرا ن خاں اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی
بلکہ اس میں اضافہ ہواہے۔اس مقبولیت کا ثبوت 25جولائی کو مل جائے گا۔ فواد
چوہدری کی وضاحت کو مشروط تصور کرنا چاہیے۔انہوں نے تحریک انصاف کے جلسوں
میں عوام کی تعداد کے کم ہونے کے جو اسباب بیان کیے ہیں۔وہ تمام کے تمام
تبھی درست مانے جائیں گے۔جب عمران خاں کے جلسوں میں آئند ہ عوامی تعداد کا
تناسب بہتر ہوگا۔دیکھا جائے گا کہ تحریک انصاف نے ان اسباب کے لیے کیا
تلافی ڈھونڈی ہے۔اگر آئندہ جلسوں میں لوگوں کی تعداد میں ایسی ہی کمی رہی
تواس کا مطلب یہی ہوگا کہ عمران خاں کو ایک بار پھر بریک لگ گئی ہیں۔اس طرح
کی بریکیں انہیں اکثر لگ جایا کرتی ہیں۔
عمران خاں کوا س طرح کے حالات کی عادت سی ہو چکی ہے۔وہ بار بار ہارنے کی
پریکٹس کرچکے۔ان کے لیے ہار جانا کوئی مسئلہ نہیں۔وہ اپنے ہر دعوے کے ٹوٹنے
پر نیادعوی کردیتے ہیں۔ہر ضمنی الیکشن میں انہیں غیر متوقع نتائج ملے۔مگر
انہوں نے اپنے کہے الفاظ اور دعووں کو فراموش کرکے اگلے ضمنی الیکشن کے لیے
دوبارہ بڑے بول بولنا شروع کردیے۔ہر دھرنے اور ریلی میں اس طرح کی بریک
لگی۔مگر خاں صاحب جو اس دھرنے او رریلی کو آخری شوقراردیتے تھے۔اس قسم کی
بریک پر چپ سادھ گئے۔یوں ظاہر کیا جیسے کچھ کہا ہی نہ تھا۔قوم کو ہفتوں
مہینوں ہیجان میں رکھنے کے بعد خاں صاحب کا رویہ رات گئی بات گئی جیسا
رہا۔ہربار بلا کی ہائپ کرییٹ کی گئی۔یوں بتایا گیا جیسے آسمان ٹوٹ پڑنے
کوہے۔ہر بار اب نہیں تو کب کا نعرہ دیا گیا۔ہر بار آخری جنگ کا اعلان
ہوا۔قوم ہیجان میں تھی۔ایام افراتفری میں گئے۔یوں لگا جیسے کچھ نہ کچھ ہونے
لگاہے۔سانسیں رک گئیں۔ہوش اڑے رہے۔مگر کچھ نہ ہوا۔ضمنی الیکشن تھاتو جیتا
نہ جاسکا۔دھرنا تھا تو کسی کا بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ریلی تھی کچھ نہ بگاڑ
پائی۔ہر ایونٹ کے بعد خاں صاحب نے چپکے سے گھر کی راہ پکڑی قوم اور ریاست
جس ہیجان میں تھی۔ہفتوں اس کا اثر ررہا۔بدقسمت قوم کے لیے یہ بات سوہان روح
تھی کہ ہیجان ختم ہونے ابھی کچھ ہی دن گزرتے ہیں کہ خاں صاحب پھر سے کوئی
ہیجانی ایجنڈا لیے نمودارہوتے ہیں۔پھر سے دعوے نعرے۔آخری جنگ۔مر جاؤ۔مٹ
جاؤ۔وہی تماشہ وہی مصیبت اور وہی افرتفری۔ ان دنوں جنرل الیکشن کو لیگر
ہیجان خیزی جاری تھی۔جلسوں میں تعدا د کم ہونے سے اس بات کا تاثر مل رہا ہے
کہ خاں صاحب کی یہ ہیجان خیزی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔اب شاید الیکشن
کے بعد وہ کوئی نیا شوشہ لے کر میدان میں اتریں گے۔سوال یہ ہے کہ یہ شیطانی
تماشہ آخر کب تک چلے گا۔ ایک شیطانی فیکٹری یہاں ایسی قائم ہے جو خاں صاحب
جیسے کرداروں کے لیے نت نئے شوشے تیارکرتی ہے۔جہاں نت نئے سکرپٹ تیار ہوتے
ہیں۔اس فیکٹری کی پروڈکشن میں شاید کبھی کمی نہ آسکے۔خاں صاحب جیسے کرداروں
کو شوشے اور سکرپٹ ملنا کبھی ختم نہ ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شیطانی تماشہ
کب تک ہوتا رہے گا۔ قوم اور ریاست کو مہینوں۔برسوں ہیجان میں رکھے جانا اور
پھر تھیلے سے کچھ نہ نکلنا کہاں کی عقلمندی ہے۔کہاں کی دانائی ہے۔خاں صاحب
او ران کے حصے دارشاید الیکشن ہار کر اپنے اپنے گھرون میں لوٹ جائیں
گے۔مگریہ شیطانی تماشہ نئے کرداروں۔اور نئے شوشو ں سے جار ی رہے گا۔اگر
ریاست پاکستان کا کچھ نیا تشخص مرتب کرنا ہے تو اس شیطانی تماشے کو بند کیے
بغیر بات نہ بنے گی۔ |