افلاطون کہتا ہے کہ دانا آدمی اسلیے بولتا ہے کیونکہ اس
کے پاس کہنے کو کچھ ہوتا ہے جبکہ بیوقوف اس لیے بولتا ہے کہ اسے کچھ بولنا
ہوتا ہے۔
یہی حال سوشل میڈیا پر اندھا دھند دے مار ساڑھے چار پوسٹیں لگانے والوں کا
ہے .موقع بے موقع ہر صنف پر طبع آزمائی کی جاتی ہے جب منہ کا ذائقہ بدلنا
ہو تو کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کو گالم گلوچ کرلیااور اپنی دھاک بٹھائی۔
کیا زمانہ ہوا کرتا تھا لوگ دانشوروں کے زیرِ سایہ رہنے کیلیے اپنے گھوڑوں
کی سمیں گھسا لیا کرتے، اپنی جوتیاں چٹختے پھرتے اور ان کا ملنا بذبانِ ذوق
انکے لیے ایسا ہی ہوتا کہ
' بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا وخضر سے'
کیونکہ انکی صحبت روح کو انشراح بخشتی تھی مگر فی زمانہ پروفیسروں اور
دانشوروں کی ایسی بھرمار اورزورش ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی، مگر حیف کہ
ایسے احباب صرف سوشل میڈیا پر ہی دندناتے نظر آتے ہیں جنکے معتقدین بھی
انکی طرح چٹے ان پڑھ ہوتے ہیں ۔ ہم انہیں خوامخواہ(یا جعلی) پروفیسر کا لقب
دیتے ہیں۔آج اگر کسی کہنہ مشق استاد کو ان ناخلفوں کے کرتوت آشکار ہو جائیں
تو وہ یقیناً چلا اٹھیں۔
بے ہوش ہی اچھا تھا ، ناحق مجھے ہوش آیا
اور اصالتاً یہ وہی شوفر ہیں جو سارا دن سوشل میڈیا پر انقلاب انقلاب
الاپتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک مدمغ صاحب گھر میں پندار سے چلا چلا کر کہہ
رہے تھےمیرے پاس حکومت ہو تو میں قوم کی تقدیر بدل کے رکھ دونگا ایسے میں
انکی اہلیہ لپکیں اور بولیں اجی پہلے شلوار تو بدل لیجیے صبح سے میری پہن
کر پھر رہے ہیں۔
ایک سعودی ادارےنے پاکستانیوں کے مزاج کے بارے میں ریسرچ کرنے کیلئے ایک
عربی کو یہاں بھیجھا۔ موصوف یہاں کچھ عرصہ گلیوں میں خاک چھانتے رہے اور
واپسی پر ایک کاغذ حکام کو جا تھمایا جس پر صرف ایک لائن درج تھی 'کُلٌ
مُفتِیً کُلٌ حکیمٌ'
یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو تعلیم ، صحت، قانون اور سیاست کے دقیق مسا ئل پر تو
ایسے مدلل گفتگو کرتے ہیں جیسے یہ تمام انکے آباؤاجداد کی افزائش کیوجہ سے
معرضِ بحث آئے ناصرف یہ بلکہ یہ ایسے ناخلف ہیں کہ مذہب جیسے نازک اور
باریک موضوع پر بھی طنطناتے ہوئے دودو ہاتھ کر جاتے ہیں ۔
اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اکثر گلیوں سے دوپہر کے وقت تسلی
سے میمنے اٹھاتے دھر لیے جاتے ہیں وہ یہاں کوتوال اور وہ جنہیں گھر والے
اہم معاملے پر بات کرنے کے دوران کمرے سے نکال باہر کرتے ہیں وہ یہاں ماریو
پیوزو بنے بیٹھے ہیوتے ہیں۔
ان نابکاروں نے ماردھاڑ کا ایسا بازار گرم کیا ہوتا ہے کہ اِدھر سے جو پوسٹ
اڑائی اُدھر جالگائی اور بیٹھ گئے اوپر پردھان بن کر، جو ستم ظریف بھی یہاں
سے گزرا اسکو دھر لیا اور لگے بھاشنٹ دینے اور بیخ کن ایسے کہ ادھر سے کسی
پرائی پوسٹ میں جو گھسے تو ایسی خردہ گیری کی کہ اللّٰہ توبہ اور یہ علت
ومعلول کا سلسلہ ہے کہ برہم ہی نہیں ہونے دیتے اور اگر مک مکا کرتے بھی ہیں
تو اس نیت سے کہ
صلح ہے اک مہلت سامان جنگ
کرتے ہیں بھرنے کو یاں خالی تفنگ
یاری دوستی میں ایسے اندھے ادھر کسی نمانے نے اپنی پروفائل پر تصویر چسپاں
کی ادھر سے یہ لپکے اور اپنا قومی کمینٹ(nice) داغا اور چلتے بنے اور بادل
نخواستہ اگر کچھ بڑھیا کھانا نصیب ہو جائےتو تب تک دم نہ لیا جب تک کہ اسکی
تمام زاویوں سے تصاویر بنا کر چاردانگ چرچاکرکے داد نہ وصولی۔ انکی مثل
کراچی کی سی ہی ہے کہ جہاں پانی کھڑکی سے تو نظر آتا ہے مگر نل میں نہیں ۔
لہٰذا مذکورہ بالا حضرات ذکاوت نامی شے سے ایسے ہی محروم ہوتے ہیں جیسے
ہمارا ملک بجلی سے۔ چنانچہ آپ جہاں بھی ایسے اصیل کُکڑ بھڑتے دیکھیں تو
چپکے سے نکل لیں۔
جبکہ دو موزیوں میں ہو کھٹ پھٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پھٹ
ایک مشہور کہاوت ہے کہ 'چلتی ہوئی بے عزتی میں ٹانگ نہیں اڑاتے'مگر یہ ایسے
نامعقول ہیں کہ کہیں بھی رخنہ ڈالنے سے باز نہیں آتے۔ ایسے ہی ایک مجازی
خردمند نے ایک بچے سے جو کہ کہیں بیٹھا بڑے مزے سے چاکلیٹ کھا رہا تھا کو
جا لیا اور کہنے لگے بیٹا چاکیلٹ نئیں کھایا کرو دانت خراب ہوتے ہیں بچہ
بھی پھر نئی جنریشن کا شرارا تھا جھٹ پھٹ بولا کہ انکل آپکو پتہ ہے میرے
دادا جان کی عمر اسی سال ہے مگر انکےدانت ابھی تک خراب نہیں ہوئے جانتے ہیں
کیوں، یہ صاحب بخوشی بولے کیونکہ وہ چاکلیٹ نہی کھاتے ہونگے! بچہ مسکرا کر
بولا نہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ابھی یہ میاں جو کھسیانے ہوکر
کھسکنے لگے تو بچے نے کہا انکل چاکلیٹ تو کھالیں مگر بڑے میاں ایسے موبائل
کی اسکرین میں ایسے کھوئے کہ گھر آکر ہی دم لیا۔
نا خلفوں نے تعلیم کے زمرے میں ایسی ایسی جامعات کے نام درج کیے ہوتے ہیں
کہ جہاں جانا تو درکنار انکو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ کرۂ ارض کے کس
حصے میں واقع ہیں۔انکا صحیح نقشہ سعادت حسن منٹو صاحب نے اپنے مضمون بنام
'نیا قانون' کے کیریکٹر منگو کوچوان کی صورت میں کھینچا ہے کہ جسکی تعلیمی
حیثیت تو صفر کے برابر ہوتی ہے اور اس نے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا ہوتا
مگر اپنی پڑھی لکھی سواریوں سے حاصل شدہ معلومات کے بدولت اڈے کے تمام
کوچوان اسکی بڑائی معترف ہوتے ہیں۔
انگریزی شاعر فلپ لارکن کا کہنا ہے کہ مارکونی کی قبر پر پبلک ٹائلٹ بنانا
چاہیے۔ یہ شاید اس نے کسی ہمسائے کے بانکپن سے تنگ ہو کر کہا تھا جو رات
گئے تک اسکی نیند میں مخل ہوتا تھا، وہ وقت دور نہیں کہ جب کوئی نقاد مارک
زک برگ کو تُوم کے رکھ دیگا۔
لیجیے ہم دیتے ہیں توسن خطابت کو لگام، اس امید پر کہ اُوپر والا ہمیں ایسے
علاموں کے شر سے محفوظ رکھے۔
خیر باشد |