ہمہ یاراں جنت ۔۔۔

تحریر :عمارہ کنول
یعنی جہاں دوست مل جائیں وہیں جنت ہوتی ہے۔ اب دوست جنس کی تفریق سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ تعلیم نے جہاں بہت سے دماغوں کو جلا بخشی ہے وہیں ایک شعور اجاگر کیا ہے کہ مردو زن ایک ہی سطح پر ہو سکتے ہیں اور مقابلہ عورت و مرد کے بیچ نہیں صلاحیتوں کی تقسیم میں ہی اچھا لگتا ہے۔ یہ میرے اللہ کا انصاف ہے کہ اس نے جہاں مرد و عورت میں جسمانی فرق رکھا وہیں دماغ اور صلاحتیں برابر تقسیم کیں اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان کو مثبت انداز میں استعمال کرےیا منفی میں۔

تعلیم کا تعلق آپ کے دماغ سے ہے ،وہیں یہ آپ کے کردار اور شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔فرق کہاں ہے تعلیم کے انداز اور اثرات کے ساتھ؟؟ آپ کی اپنی صلاحیت کا ۔ اسی کلاس میں پڑھ کر اگرکوئی بچہ فیل ہو جاتا ہے تو وہیں دوسرا ٹاپ بھی کر لیتا ہے۔

تعلیم کی کیا اہمیت ہے اور کہاں اصلاحات میں کمی بیشی کی گنجائش ہے ایسے ہی چند نکات کو لے کر تعلیمی مکالمہ کے عنوان سے لاہور کے ایک معروف ہوٹل میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

ناچیز کے پاس بھی دعوت نامہ موصول ہوا تو سوچا ٹاپک بہت اہم ہے ۔۔ تو چلو چل کہ دیکھتے ہیں سو آنے کی حامی بھر دی ۔ تقریب سے دو دن پہلے زاہد بھائی نے یاد دہانی بھی کروائی،تو محسوس ہوا کہ کچھ اہم ہے جہاں جانا ضروری ہے آخر اتنی خلقت آنے والی ہے ۔ مقررہ دن جمعہ تھا۔ اور بارش اتنی کہ الحفیظ الاماں۔

بارش ، سڑکوں پر کھڑے پانی اور بد ترین ٹریفک جام کو سہتے ہوئے تیس منٹ کا سفر پورے تین گھنٹے میں مکمل کر کہ گویا ایک شدید جدوجہد کے بعد رکشے والے نے مطلوبہ منزل تک پہنچا ہی دیا۔

ہم ایک سچے اور محب وطن پاکستانی ہیں اور پاکستانیوں کے درخشندہ اصول یعنی تاخیر سے پہنچنے کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں ۔۔ سو لیٹ پہنچے اور اپنی اپووا ٹیم کو دیکھ کر خوشی سے بے حال ہو گئے۔ تقریب بہت حساس موضوع پر چل رہی اور ہم سانوں کی والے رویے کے مطابق اپنی ٹیم سے محو گفتگو رہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ممبران موجود تھے جنھوں نے تعلیم کے متعلق تو بات کی ساتھ ہی لوگوں کا جم غفیر دیکھتے ہوئے عادتا اپنی پارٹی کے منشور سناتے ہوئے ووٹ کی اپیل بھی کر ڈالی۔ پروگرام دلچسپ سوالات اور یکے بعد دیگرے ، ایک سے بڑھ کر ایک قسم کے معرکے کو طے کرتا ہوا بنا کسی بدنظمی کےاختتام کو پہنچا۔ یہ غالباً پہلی بیٹھک ہو گی جہاں مختلف جماعتوں کے نمائندگان کی موجودگی کے باوجود جھگڑا اور گالم گلوچ نہیں ہوئی اور کوئی بدتہذیبی نظر نہیں آئی ۔ ہاں چند لوگ "تلیم دی کمی" یا دوسرے الفاظ میں پنجابی لہجے کو چھپانے میں ناکام ہوتے نظر آئے۔

ایک سوال جس پر مجھے شدید ترین تحفظات ہیں کہ سیاستدانوں کے بچے پرائیویٹ سکولز میں کیوں جاتے ہیں ۔ میرا دل چاہا کہ میں کہہ دوں کہ بجا فرمایا۔ اب حکومت کو چاہئیےکہ نجی سکولوں کو بند کردے۔ لیکن یہ سوچ کر چپ کر گئی کہ پھر پرائیویٹ سکولز کے مالکان پھر رو رو کہ گورنمنٹ کے پیچھے پڑیں گے کہ ہمیں بے روزگار کردیا۔ اور آپ ایک اچھے پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی سے بھی کہیں کہ اپنے بچے گورئمنٹ سکول میں داخل کروائیں تو وہ بھی نہیں مانیں گے کجا ایک سیاستدان۔۔۔ اب آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے کہ پھر گورنمنٹ سکول کا معیار بلند کریں ۔ تو عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گی کہ بندی خود پنجاب یونیورسٹی بورڈ یعنی گورنمنٹ سکول کی پروردہ ہے اور آج تک کسی نے نہیں کہا کہ یہ ڈگری جعلی ہے یا فلاں سے تصدیق کروا کہ لائیں ۔ بہرحال اس طرف ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ ہم میں سے جو اچھا پڑھ جائے وہ اپنے ملک میں اپنے گاؤں میں رہنا پسند نہیں کرتا تو آپ کسی اور کی سوچ پر قدغن کیسے لگا سکتے۔؟ ضرورت ہے کہ اساتذہ کی اعلی پیمانے پر ٹریننگ کروائی جائے اور خامیوں کو درست کیا جائے اگر سڑک کو شڑک اور تعلیم کو تلیم کہنے والے استاد ہوں گے تو ہمارے بچوں کا فیوٹرے کیا ہوگا ؟؟

خیر صاحب جلتے بھنتے اپنی سیٹ کو ایمان کی رسی کی رسی کی طرح مضبوطی سے تھام کر بیٹھے رہے کہ ہماری اپووا فیملی کا ہم سے گلہ ہے کہ ہم ہائیپر ہو جاتے ہیں سو یہاں غصے اور جذبات دونوں قابو رکھیں ورنہ ہمیں شبنم سے سلطان راہی بنتے کچھ سیکنڈز ہی لگتے ہیں۔

اتنےاچھے مہذب حاضرین روٹی کھل گئی جے کا نعرہ مستانہ سنتے ہی جھوم اٹھی اور کھانے کو کفار کی فوج سمجھ کر ٹوٹ پڑی۔ روایتی سستی کو برقرار رکھتے ہوئے ہم سیٹ پر براجمان رہے تو ہمارے دوستوں نے پلیٹ ہمارے ہاتھ بھی تھما دی۔ ہم اپنی جگہ پر بیٹھے سینڈوچ اور پیزا سے لطف اندوز ہوئے پھر ہماری عزیز از جان چائے کو نوش جاں کرنے کا خیال تھا وپے میں بجلی سی بھر گیا ۔ اٹھنے سے پہلے ہی کسی نے ٹھنڈی چائے ہمیں تھما دی۔ چائے کی ایسی حالت ہم سے دیکھی نا گئی اور چائے کو گرانے جیسی بے حرمتی ہم سے ہو نہیں پاتی سو صبر کے اس ٹھنڈے گھونٹ کو بھی بھر گئے۔

اس دور کے بعد ایک نئے سرےسے تعارفی دور شروع ہوا جن کے ہمیں سلام دعا کرنے پر حیران ہوئے تھے ان کا بھی تعارف ہوا۔ اپنی والدہ اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس تعلیم نے آج اتنی پہچان تو دی کہ چار لوگ جانتے ہیں اور اپنی تقریب میں بلاتے ہیں ۔ہماری والدہ بھی شعبہ تعلیم سے منسلک رہیں اور کافی دیہاتوں میں سکول کی بنیاد تک رکھنے والی وہ خود تھیں ۔سو علم سے ناطہ پرانا ہے ۔ اور یہ والدہ صاحبہ کی عطا کردہ تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ آج لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز ہے ۔

اسی دوران ہماری تنظیم کے سر پرست اعلی زبیر انصاری صاحب کی طرف جانے کا پروگرام بن گیا۔ ان سے دریافت کرنے پر ڈنر ان کے ساتھ ہے کی خوشخبری نے رگ وپے میں بجلی سی دوڑا دی۔ بھاگم بھاگ ان کے گھر پہنچے۔

ڈنر کیا۔ اپووا کی کارکردگی و سیاست پر سیر حاصل مثبت گفتگو کی اور خوشگوار یادوں کو سمیٹتے ہوئے گھر واپس آگئے۔

Fatima Khan
About the Author: Fatima Khan Read More Articles by Fatima Khan: 10 Articles with 8452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.