دنیا میں بے شمار ریسرچ کے بعد یہ بقت واضح ہو چکی ہے کہ
%50 مسائل کا حل صرف بات کو سُن لینے میں ہے جبکہ یہ رواج ہمارے سے ختم ہو
کے رہ گیا ہے۔ کوئی کسی کا سننے کے لئے تیار نہیں ہر کوئی سنانے کو بے تاب
ہے۔ اور یہ معاملہ تو ہمارے ایوان بالا کی کرسیوں تک بھی جا پہنچا ہے۔ ایک
عام کلرک یا ڈرائیور تک کی نوکری حاصل کرنے کے لئے محتلف قسم کے امتحانات
پاس کر کے ملازمت نصیب ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ایوان بالا وہ ایوان والا جہاں
بیٹھ کر ہمارے نمائندوں نے ملک کا انتظامی نظام تشکیل دینا ہے ان کے لئے
کوئی ٹیسٹ نہیں ان کے لئے کوئی تحقیقی نظام نہیں ان کے لئے کوئی میرٹ نہیں
ان کے لئے کوئی selection chain نہیں ان کے لئے کوئی مکمل ضابطۂ نہیں ان کے
لئے اگر میرٹ یا ضابطۂ ہے تو وہ صرف پیسہ ہے بڑی بڑی گاڑیاں اور فلیٹ ہیں۔
لیکن کیا کریں عوام بھی تو انہیں کے گیت گاتی ہے عوام کو بھی تو وہی نظر
آتے ہیں عوام بیچاری کرے بھی تو کیا کیوں کہ آج تک اس کو کوئی ایسا نظام
دکھایا ہی نہیں گیا جس میں کسی غریب کا بیٹا یا بیٹی ایم۔پی۔اے یا
ایم۔این۔اے بن کر وزارت سر انجام دے رہا ہو لیکن معذرت کے ایسا حقیقی طور
پہ نہیں ہے۔ ہمارا سارا نظام اشرفیہ کے لئے ہے اور اسی کے آباؤ اجداد میں
گھومتا ہے۔ جب کوئی عوامی نمائیندہ عوام کے ہجوم میں طلوع ہوتا ہے تو بھی
صرف سنانے کے لئے ہی آتا ہے کبھی اپنی پسماندہ عوام کو سننا اس کا مقصد ہر
گز نہیں ہوتا۔ میں اپنی 25 سالہ زندگی میں سب کچھ دیکھنے کے بعد یہی وضع
کیا ہے کہ شائد اس دنیا اپنا حال بیان کرنا ہمارے بس کی بات ہی نہی کیوں
ہمیں سنتا ہی نہیں۔ اعلی مقام پر فائز شخص گھٹیا بات بھی کرے تو معاشرہ واہ
واہ کے پھول نچھاور کرتا ہے لیکن جب کوئی عام انسان بہت اعلی بات بھی کرے
تو حوصلہ شکنی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور اس سب کے ذمےدار ہم خود ہیں۔
ہمیں قابلیت کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم کا طریقہ بھول چکا ہے ہمیں تعلیم
کی بنیاد پر فیلڈ کا چناؤ نہیں آتا سارا نظام درہم برہم ہے ہمیں اپنے گھر
کے سامنے پڑا کوڑا کرکٹ نظر نہیں آتا جبکہ نواز شریف کو برا ضرور کہتے ہیں۔
ہمارے پاس اپنی دہلیز کے سامنے سے گلیاں نالیاں صاف کرنے کا ٹائم تو نہیں
ملتا جبکہ شہباز شریف کو برا کہنے کا ٹائم ہے۔ ہمیں اپنی ذمےداری تو نبھانی
نہیں آتی جبکہ عمران خان، بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کرنی ضرور آتی ہے۔
میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ تنقید نہ کریں ضرور کریں لیکن پہلے اپنی
ذمےداری کو پورا کریں پھر آپ کی با اثر ہو گی۔ مثال کے طور پر ایک شخص جوس
کا ڈبہ لےکر جوس پینے کے بعد حالی ڈبہ سڑک کنارے پھینک دیتا اور اس کے یکے
بعد دیگر کافی حضرات بھی کوڑا کرکٹ اسی جگہ پھینک دیتے ہیں اور اسی پہلے
والے شخص کا دوبارہ گزر اسی جگہ سے ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ پاکستان کتنا
گندا ہے۔ جبکہ وہ جانتا ہے کہ اس گندگی کی وجہ بھی وہ خود ہے لیکن تسلیم
کرنے کو تیار نہیں۔ تو بخدا تسلیم کرنا شروع کریں۔ دنیا کی باقی اقوام ترقی
کے منازل طے کر رہی ہیں اور ہم آج بھی ایک دوسرے کے بارے تذبذب کا شکار ہیں۔
ہم اپنوں کو ہی ساتھ لے کر چلنے کی بجاۓ نیچ دکھانے کی طرف گامزن ہیں۔ تو
آئیں آج ترقی کی جانب قدم اٹھاتے ہیں تاکہ باقی اقدام کے لئے راستہ ہموار
ہو سکے۔ میں یہ بات کر رہا تھا کہ ہمیں دوسروں کو سننے والا رویہ اپنے اندر
پیدا کرنا ہو گا ایک دوسرے کو سننا چاہے ماں بیٹی باپ بیٹا بہن بھائی یا
کوئی بھی تعلق ہو اس فضاء کو اپنے اندر پیدا کرنے سے تعلقات پر ہمارا ایک
اعتماد پیدا ہو گا۔ تو میری اپنے تمام سیاستدانوں سے بی عرض ہے کہ مانا آپ
کے میرٹ اور آپ کے ضابطے اپنے بنائے ہوئے ہیں میری طرف سے بھی ایک عرض قبول
کریں کہ میری اس غیور عوام کو بھی سنا کریں۔ عوام کے دل میں بھی باتوں کا
ہجوم ہے جو سب کی آپ لوگوں سے کرنے والی ہیں۔ میری اپنی ایک ریسرچ کے مطابق
مسائل کا حل نہ ہونا اور تعلقات میں تناؤ کی وجہ صرف اور صرف قوت سماعت میں
قلت ہے۔ اپنی اس عرض کا ضابطۂ ہم سب کو مل کر طے کرنا ہو گا اپنی اس عرض
پاک کو خود ہی خشگوار کرنا ہو گا۔ تو جب تک ہم قوت سماعت میں اضافہ نہیں
کریں گے تب تک یہی نظام رائج رہے گا ہر طرف سب کچھ درہم برہم ہی نظر آۓ گا۔
تو میری غیور قوم اٹھو اور اپنی کھوئی ہوئی میراث دوبارہ حاصل کر لو۔ ہر
چیز آج جو دنیا کو عطا ہے یہ سب ہمارے آباؤ اجداد ہی کا صدقہ ہے۔ اور وہ
تمام لوگ جو آئندہ ایوان بالا کی کرسیوں پر ہوں گے ان کے لئے میری طرف سے
نیک تمنائیں ہیں۔ اور میری طرف سے ان سب کی خدمت میں ایک عرض بھی ہے کہ
خدارا کبھی کبھار ہی سہی لیکن اپنی عوام کے پاس جا کر انہیں بھی شعور دو
انہیں بھی سنو تا کہ میری غیور قوم کا اعتماد آپ پر آئندہ آنے والے دنوں
میں بھی بحال رہے۔ اور میری عوام سے بھی درخواست ہے کہ آج سے ہم جب بھی
اپنے گھروں سے نکلیں تو سب سے پہلے اپنی دہلیز کے ارد گرد نظر دوہراہیں گے
اگر ہمیں اپنی دہلیز درست نظر آئی تو دوسروں پر بھی تنقید کریں گے اور اس
طرح ہماری تنقید با اثر ہو گی۔ اور مسئلوں کا جو انبار لگا ہوا ہے رفتہ
رفتہ ختم ہو جائے گا۔ میں پر امید ہوں کہ میری یہ سوھنی دھرتی بہت جلد ترقی
سے ہمکنار ہو کر رہے گی (آمین)۔ اللہ میری اس ارض پاک کو شاد باد رکھے۔
پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔ |