جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں انتخابی معرکہ سر پر آن
پہنچا ہے ، انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اور انکے ساتھی اعصاب شکن
انتخابی مہم کے بعد پولنگ ڈے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اوراپنی اپنی محنت
کا نتیجہ جیت کی صورت میں دیکھنے کے متمنی ہیں ،گوجرانوالہ کے حلقوں میں
گذشتہ عام انتخابات کے نتائیج کو مد نظررکھا جائے تو مسلم لیگ ن کی برتری
واضح دکھائی دیتی ہے ، 2013ء میں یہاں تمام نشستوں پر مسلم لیگ ن کے
امیدوار بڑی واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے تاہم ملکی سیاسی صورت حال میں
لمحہ بہ لمحہ آتی تبدیلی اس بار متوقع طور پر انتخابی نتائیج پر بھی اثر
انداز ہو گی ، ایک طرف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کرپشن اور لوٹ مار
ختم کرنے اور دوسری جانب قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا
بیانیہ ہے ، جب تک نواز شریف لندن میں اہلیہ کے پاس رکے ہوئے تھے ن لیگی
امیدواروں کی مہم میں وہ دم خم نہیں تھا ، نواز شریف اور مریم نواز کے جیل
جانے سے ایکدم صورتحال تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے ،گوجرانوالہ کی سیاسی
صورتحال پر نظر دورائی جائے تو این اے 79میں سینئر سیاستدان حامد ناصر چٹھہ
کے فرزند احمد چٹھہ ایک مقبول عوامی راہنما ہیں انکے بارے میں تاثر تھا کہ
آسانی سے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کو اس بار چت کرنے میں کامیاب ہو جائیں
گے تاہم ڈاکٹر نثار چیمہ کی شکل میں ن لیگی امیدوار کی تبدیلی اور بعد ازاں
میاں شہباز شریف کے علی پور چٹھہ میں کامیاب جلسہ اور پرجوش خطاب نے اس
تاثر کو اب کم کیاہے ، صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پرعادل بخش چٹھہ اور شوکت
منظور چیمہ بھی دونوں مضبوط امیدوار ہیں ، این اے 80میں تحریک انصاف کے
امیدوار میاں طارق محمود جو پہلے این اے 81میں دھماکہ خیز انٹری ڈال کر
طوفان برپا چکے تھے ،حلقہ میں تبدیلی کے بعد این اے 80میں نبرد آزما ہیں،
میاں مظہر برادران کو الیکشن کے میدان کے بڑے کھلاڑی تسلیم کیا جا تا ہے
اور وہ کبھی بھی تر نوالہ ثابت نہیں ہوتے تاہم ن لیگ کے سابق وزیر قانون
چوہدری محمود بشیر ورک نے حاجی امان اﷲ وڑائچ کی شکل میں وہاں ایک متحرک
ساتھی ملاہے انہیں تحریک انصاف ہی کے امتیاز صفدر وڑائچ کی درپردہ حمایت
بھی حاصل ہے ، چوہدری محمود بشیر ورک لدھے والا میں حمزہ شہباز کے کامیاب
جلسہ کے بعد اب یہاں سے بھاری لیڈ کی توقع کر ر ہے ہیں ، پی پی 62 اور این
اے 80کے نتائیج میاں مظہر گروپ کی آئندہ کی سیاست کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوں
گے ،یہاں دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا،پی پی 53 میں بلال فارو ق تارڑ
جنہیں شروع میں لیگی حلقے قبو ل کرنے کو تیار نہ تھے اپنی مہم چلانے کے بعد
خاصے مطمیئن اور جیت کے لئے پر یقین دکھائی دے رہے ہیں یہاں تحریک انصاف کے
جمال ناصرچیمہ امیدوار ہیں ، اسی حلقہ سے پیپلز پارٹی کے میاں سعودحسن ڈار
بھی امیدوار ہیں جن کا خاندان گوجرانوالہ میں’’وفاکا پیکر‘‘ کہلانے کے
مستحق ہے ، انکے خاندان نے نسل در نسل پیپلز پارٹی کے ساتھ وفا کر کے ایک
انوکھی مثال قائم کی ہے جیت ہار سے قطع نظر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری
نبھارہے ہیں ،پیپلز پارٹی کے سابق ٹاؤن ناظم راؤ اکرام علی خاں بھی این اے
80سے ہی سے قسمت آزمائی کریں گے ، این اے 81میں مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی
وزیر خرم دستگیر خان جو شہر کی ترقی کی وجہ سے کئی برس مقبولیت کی بلندی پر
فائز رہے ہیں ان بھی مضبوط ترین امیدوار ہیں ،ان کے مقابلے میں پہلے تو
امیدوار لانے میں تحریک انصاف کو شدید مشکلات کا سامنا رہا پھر صدیق مہر نے
خرم دستگیر خان کے پڑوس میں خوب رونق لگا لی اور انتخابی مہم بھی زوردار
چلائی ہے تاہم خرم دستگیر خان ا ور انکے والد غلام دستگیر خان حریفوں کے
لئے کبھی بھی آسان امیدوار نہیں رہے یہ دیکھنا ہو گا کہ صدیق مہر کے گھر کی
رونق محض’’ کھابوں ‘‘ تک محدودتھی یا واقعی وہ مسلم لیگ ن کے ہیوی ویٹ کو
گرانے میں کامیاب ہوتے ہیں، اسی حلقہ سے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر حافظ
حمیدالدین اعوان بھی میدان میں ہیں،خرم دستگیر کے حالیہ جلسے بہت زوردار
ہوئے ہیں، البتہ اطلاعات ہیں کہ انہیں نئی شامل ہونے والی یونین کونسلوں
میں عوام تک رسائی میں مشکلات پیش آئی ہیں ، اروپ ، جگنہ ، ونیہ وغیرہ انکے
لئے کمزور ثابت ہو سکتے ہیں ، ، پی پی 59 سے انکے ساتھی امیدوار حاجی وقار
چیمہ اپنا خاندانی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے دن رات مہم میں مصروف رہے
ہیں ،انکا انداز سیاست بھی بہت دھیما اور ووٹرز کے ساتھ رویہ’’ ترلے منت‘‘
والا ہے جسکی وجہ سے جلدی لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں ،تحریک انصاف
کے ڈاکٹر سہیل ظفر چیمہ اور دیگر امیدواروں سے انکی پوزیشن بہت بہتربتائی
جا رہی ہے ،یہ خاندان کبھی کسی الیکشن میں ناکام نہیں ہوا ، تاہم اروپ
یونین کونسل سینئر راہنما پیر غلام فرید کو ٹکٹ نہ ملنے کے باعث ن لیگ سے
کافی ناراض نظر آئی ہے ، متوقع طور پر یہاں نتائیج ن لیگ کے حق میں نہیں
بلکہ مختلف ہوں گے ، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سابق وزیر مملکت شاہد اکرم
بھنڈر کے بیٹے آزاد امیدوار ولید اکرم بھنڈر اپنی الگ شناخت رکھنے میں کس
حد تک کامیاب ہوتے ہیں ، دستگیر خاندان کے دیرینہ ساتھی حاجی عبدالرؤف مغل
جو پی پی 58سے امیدوار ہیں نے اس بار جلسوں کے ساتھ ساتھ ڈور ٹو ڈور
انتخابی مہم اور چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز کی پالیسی بھی اپنائے رکھی جسکی
وجہ سے انہیں گراس روٹس پر عوام تک اپنی بات پہنچانے کا موقع ملا ، حاجی
عبدالرؤف مغل پارٹی میں اپنے خلاف بعض’’ اندرونی ‘‘ سازشوں کے باوجود جیتنے
کی پوزیشن میں ہیں ، انکے مد مقابل تحریک انصاف کے ایس اے حمید نے ماضی کی
غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے صدیق مہر
کی جانب سے آزاد امیدوار مبین عارف جٹ کی حمایت کی خبریں بھی گردش میں ہیں
، ایس اے حمید کی شیخ برادری پر گرفت نہیں ہے نہ ہی وہ پارٹی میں گروپنگ کی
عادت سے جان چھڑا سکے ہیں، اسی حلقہ سے پیپلز پارٹی کے ودود حسن ڈار جو
سعودحسن ڈار کے حقیقی بھائی ہیں وہ بھی امیدوار ہیں تاہم انکی انتخابی مہم
میں اتنادم خم نہیں نظر آیا ،یہاں تحریک لبیک کے طاہر نقاش خاں بھی نبرد
آزما ہیں اور آزادا میدوار صالح عزیز جو ایک پر عزم نوجوان ہیں اور ایک
کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں طویل انتخابی مہم چلا کر اب نتائیج کے
منتظر ہیں ، خرم دستگیر خان کے ساتھ عمران خالد بٹ کا حلقہ پی پی 54سب سے
پرجوش حلقہ ہے جہاں رضوان اسلم بٹ کی مہم بھی زورشور سے جاری ہے، اس حلقے
میں عمران خالد بٹ کو ذاتی ووٹ کے علاوہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت اور نواز
شریف کی واپسی پر عوام کی ہمدردی کا ووٹ بھی لازمی ملے گا جس سے انکا پلڑا
بھاری نظر آرہا ہے ،یہاں خرم دستگیر خان کے ساتھ ہونے والے مشترکہ جلسے
پہلے دن سے ہی کامیاب اور پرجوش جارہے ہیں ، این اے 82میں ن لیگ کے بیرسٹر
عثمان ابراہیم بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں ، انہیں تحریک انصاف کے مضبوط
امیدوار علی اشرف مغل کے علاوہ اپنی پارٹی اور انصاری برادری کے ہی آزاد
امیدوار حاجی یونس انصاری کے ساتھ ساتھ تحریک لبیک اسلام کے ڈاکٹر آصف اشرف
جلالی کے جلال کا بھ اور تحریک لبیک پاکستان کے شہباز نثار خاں کا بھی
سامناکرنا پڑ رہا ہے،آزاد امیدوار حاجی یونس انصاری اپ سیٹ کر دینے کے دعوے
دار ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ عثمان ابراہیم سے بیزار پارٹی کارکن انہیں بھاری
اکثریت سے کامیاب کرائیں گے،انکی مہم بھی بہت اچھی رہی ہے ، ایم ایم اے کے
فرقان عزیز بٹ، مہر برادری کے مہر عمران بھی امیدوار ہیں،اپنی ماضی کی
روایات کے مطابق عثمان ابراہیم اس باربھی اپنے ساتھ پی پی 57میں پارٹی کے
امیدوار اشرف علی انصاری کی بجائے آزاد امیدوار عمر مغل کی کھلی مہم چلا
رہے ہیں جو طویل عرصے سے ٹکٹ سے محروم چلے آرہے ہیں اورمغل برادری اور
عثمان ابراہیم کی حمایت سے میدان میں ہیں اور ایک ملنسار انسان ہیں، انہیں
مغل برادری کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے ،ن لیگ کے چوہدری اشرف علی انصاری کو
ماضی کی کارکردگی اور عوام سے رابطوں کے علاوہ برادری کی حمایت بھی حاصل ہے
، وہ مقبولیت میں بہتر پوزیشن میں ہیں ، یہاں تحریک انصاف کے لالہ اسداﷲ
پاپا جن کو تاخیر سے ٹکٹ ملا تھا تیزی سے مہم چلا کر جیت کی دوڑ میں شامل
ہو چکے ہیں ،یہاں تحریک لبیک پاکستان کے حاجی محمد اکبر کی بریانیکی بھی
دھوم مچی ہوئی ہے ، ادھر علی اشرف مغل نے مسلم لیگ ن کے چیئرمینوں صابر
محمود علی بٹ ،جاوید مہراور اہم پارٹی راہنما نیئر جمیل بھٹی سمیت دیگر
راہنماؤں کو تحریک انصاف کامفلر پہنا کر رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے، پی پی
56میں ن لیگ کے توفیق بٹ کو بھی چندساتھیوں کی بے وفائی کاسامنا رہاہے ،
دھلے کی اہم برادریوں کے اتحاد نے بھی تحریک انصاف کی حمایت کر دی ہے ،
اسکے باوجود تحریک انصاف کے چوہدری طارق گجر اور توفیق بٹ کا مقابلہ دلچسپی
سے خالی نہیں ہوگا ، یہاں حاجی ریاض جٹ بھی تحریک چوہدری طارق گجر کی حمایت
کر چکے ،تاہم توفیق بٹ کو یہ برتری حاصل ہے کہ انہوں نے پچھلے پانچ سال
عوام میں گزارے ہیں اور انہیں عوام میں رہنا پسند ہے ، پی پی 55میں نواز
چوہان ن لیگ کے عوامی راہنما اچھی پوزیشن میں ہیں انہیں ریسکیو1122 بھی کہا
جاتا ہیالبتہ تحریک انصاف کے میاں ارقم خاں اور آزاد امیدوار سیٹھ محبوب
عالم نے بھی بھرپور مہم چلائی ہے این اے 83میں رانا نذیر احمد خان جیسے
زیرک اور تجربہ کار سیاستدان اس بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کر
رہے ہیں ، انکے مدمقابل چوہدر ی ذوالفقار بھنڈر کی کامیابی میں چوہدری قیصر
اقبال سندھو اور چوہدر ی اختر علی کا کردار نمایاں ہوگا ، پی پی 60 میں
تحریک انصاف کے چوہدری ظفراﷲ چیمہ ، ن لیگ کے قیصر اقبال سندھو اور آزاد
امیدوار علی وکیل خاں کے درمیان بھی بڑا جوڑ پڑے گا،پی پی 63سے چوہدری
اقبال گجر قسمت آزما رہے ہیں ، ، این اے 84جہاں برادریاں اور دھڑے بندیاں
ہمیشہ ہی سے اہم کردارادا کرتی ہیں توجہ کا مرکز ہے ، ن لیگ کے اظہر قیوم
ناہرا تحریک انصاف کے رانا بلال اعجاز کے ساتھ نبرد آزما ہیں ،اس حلقے میں
اعصاب شکن مقابلے کی امید کی جا رہی ہے اور نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ،
گوجرانوالہ کے ان 6قومی اسمبلی کے حلقوں سے جڑے ہوئے عوام کے ساتھ ساتھ ملک
بھر کے عوام کو شدت سے اس بات کا انتظار ہے کہ گوجرانوالہ جو کبھی مسلم لیگ
ن کا گڑھ اور نواز شریف کا دوسرا گھر کہلاتا تھا اس بار کس موڈ کا اظہار
کرتا ہے ، کیا مسلم لیگ ن کلین سویپ کا اعزاز برقرار رکھ سکے گی یا تحریک
انصاف اپنی مقبولیت کے نکتہء عروج پر ہونے والے ان انتخابات میں ن لیگ کے
قلعے گوجرانوالہ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔اسکے لئے انتخابی
نتائیج کا انتظار کرنا ہوگا ۔ |