موجودہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم ترین الیکشن
ہے۔ اگر عوام نے اب کی بار اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر دِیا تو شفافیت اور
اصلی جمہوریت کی ایسی رِیت پڑے گی جو آئندہ ایک دو دہائیوں میں مُلک کو اوجِ
ترقی پر لے جائے گی۔کرپشن پر نااہلی اور قید بامشقت پانے والے نواز شریف
صاحب کی جیل مکانی کے ایک ہفتے کے اندر ہی ان کے اندر کا نام نہاد باغی اور
انقلابی بیچارگی کے وینٹی لیٹرپر آ پڑا ہے۔اب جیل میں شیر کی دھاڑنے کی
نہیں بلکہ کراہنے کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔ عوام تو ایک طرف رہے‘ جیل
کے مکینوں نے بھی گِلے شکوے شروع کر دیئے ہیں کہ کیسے کیسے ’بے ایمان لوگ‘
اُن کی ہمسایہ کوٹھڑیوں میں آن بسے ہیں۔ وہاں بھی باپ بیٹی کو قیدیوں کے
غیظ و غضب سے بچانے کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات میں رکھا جا رہا ہے۔جیل
میں بھی نواز مخالف نعروں کی گونج سے چھتیں لرز جاتی ہیں۔ ڈر تو یہی ہے کہ
کہیں اپنے خلاف تنقید نہ سُننے والا نواز شریف ہوش و حواس کھو کر دماغی
علاج کے ہسپتال نہ جا پہنچے۔ باپ بیٹی کی جانب سے جیل میں ناکافی سہولتوں
کے گِلے شکوے سامنے آ رہے ہیں ۔ یہ اُس اڈیالہ جیل کی بات کر رہے ہیں جو
گزشتہ دس برسوں سے ان کے بھائی کی وزارتِ اعلیٰ کے زیر انتظام ہے۔ کوئی ان
سے سوال پُوچھنے کی جسارت کرے کہ چار سے پانچ بار آپ دونوں بھائی پنجاب کے
اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے، آپ نے جیل مینوئل کو بہتر بنانے، اصلاحات
نافذ کرنے اور قیدیوں کے طعام و قیام کی سہولتوں میں اضافے کے لیے کیا
خدمات انجام دیں۔ اب خود ان کے سر پر پڑی ہے تو جیل کی اے کلاس زندگی بھی
ان پر بھاری پڑ رہی ہے۔ کاش کہ انہیں درجہ سوم میں رکھا جاتا تو یہ اپنے
گناہوں اور عدم کارگزاری پر صد بار پچھتاوے سے گزرتے۔
بھائی کو پاکستان بُلوا کر قید کروانے والا شہباز شریف اس وقت اپنے زعم میں
اگلا وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے۔اس بندے کے دور میں پنجاب میں لاقانونیت اور
جرائم کی شرح باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ ساری
پولیس کو جاتی عمرہ ریاست کی دست بستہ غلام بنا دیا گیا ۔ اتنی عدم فعال
اور نااہل پولیس پاکستان کی پُوری تاریخ میں کبھی نہیں مِلے گی۔ دراصل
پنجاب پولیس ہی جرائم کی محرک اور سرپرست بن چکی ہے۔ ڈاکے، چوری، اغوا
برائے تاوان، جائیدادوں پر قبضے اور قتل کی اُجرتی وارداتوں میں محرر سے لے
کر آئی جی تک سب حصّے دار ہوتے ہیں۔ شہباز شریف نے 90ء کی دہائی میں جعلی
پولیس مقابلوں کو رواج دیا۔ عابد باکسر، عمر ورک اور نوید سعید جیسے بدنامِ
زمانہ پولیس افسران اُسی دور میں پروان چڑھے۔ یہ لوگ شہباز شریف کے کارِ
خاص تھے۔ ان کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور دھونس دھاندلی کے
ذریعے سیاسی وفاداریاں تبدیل کروائی جاتیں۔ لوگ اپنے کاروباری اور ذاتی
مخالفین کو مروانے کے لیے شہباز شریف کے فرنٹ مینوں سے رابطہ کرتے تو وہ
کہتے کہ اتنی رقم پارٹی فنڈ میں جمع کروا دیں، کام ہو جائے گا۔ ۔اس کے بعد
مخالفین کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا۔ جبکہ ساری شہباز شریف کے
اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی۔ انہوں نے ڈاکوؤں کو ڈکیتیاں ڈالنے اور لوگوں کو
جانوں سے محروم کرنے کی پُوری آزادی دیئے رکھی کیونکہ ہر واردات میں حصّہ
پولیس کے ذریعے شریفوں تک بھی پہنچتا تھا۔ جبکہ بے گُناہوں کو پکڑ پکڑ جعلی
پولیس مقابلوں میں مار کر جرائم کی سرکوبی کا شرمناک پراپیگنڈہ کیا گیا۔
سبزہ زار کی سڑکیں بے گناہ لوگوں کے جعلی پولیس مقابلوں کی کئی درجن
گھناؤنی وارداتوں کی گواہ ہیں۔ جب بے گناہوں کے وارثوں کی جانب سے
واویلاکیا جاتا تو اُنہیں انصاف دینے کے بہانے تھانے بُلا کر کئی کئی گھنٹے
چھترول کی جاتی اور جب تک وہ اپنے مقتول رشتے دار کی غیر قانونی ہلاکت
پرخاموش رہنے کی ہامی نہ بھرتے، یہ بہیمانہ عمل جاری رہتا۔ بعد میں یہی
پولیس والے سوچنے لگے کہ کیوں نہ بدمعاشوں اور کاروباری لوگوں سے ڈیل کر کے
اُن کے مخالفین کو جعلی پولیس مقابلوں میں مار کر لاکھوں کروڑوں روپے سمیٹے
جائیں۔ یوں شریفوں کے یہ زہریلے سانپ آہستہ آہستہ اپنے گاڈ فادر کی پٹاری
سے نکل گئے۔
سارے پولیس نظام کو کرپٹ بننے والا شہباز شریف عابد باکسر کو مروانے میں
ناکام رہا تو وہ وعدہ گواہ معاف بن کر درجنوں بے گناہوں کی موت کے جُرم میں
اُسے تختۂ دار پہنچانے میں مرکزی کردار ثابت ہو گا۔ آج پنجاب میں ہر روز
چوری، رہزنی اور ڈکیتی کی سینکڑوں وارداتیں ہوتی ہیں۔ پچانوے فیصد افراد کی
ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی۔ درحقیقت کسی جُرم کے ارتکاب کی رپٹ درج
کروانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کوئی شخص ڈکیتی کی واردات کی شکایت لے
کر تھانے جاتا ہے ، اوّل تو اُس کی سُنی ہی نہیں جاتی۔ اگر کوئی چھوٹی موٹی
سفارش لے بھی آئے تو پولیس والا سائیڈ پر لے جا کر کہتا ہے یار ڈکیتی کو
چوری کی واردات میں بدل دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے علاقہ تھانہ کی کارکردگی کی
رپورٹ خراب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح زنا بالجبر کے مقدمے کو زنا بالرضا میں بدل
دیا جاتا ہے۔ جبکہ اغوا کے کیس میں بھی مُک مُکا کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
صرف وہی شخص یہاں خوش نصیب ہے جو وزیر اعلیٰ تک رسائی کر کے سفارش کروائے۔
علاقے کے تمام جرائم پیشہ، منشیات فروش، بُکیے اور دیگر غنڈہ گرد عناصر
پولیس کی چھتر چھایہ میں بلا خوف و خطر سماج کوملیامیٹ کرنے میں لگے ہوئے
ہیں۔ پنجاب میں آج تک کسی پولیس والے کو رِشوت یا جرائم پیشہ عناصر کی
سرپرستی کے الزام میں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔
بلاشبہ سندھ پولیس کی کارکردگی بھی اچھی نہیں ہے۔ ماضی میں سندھ پولیس بے
شک بھتہ خوروں‘ منشیات فروشوں اور ڈکیتوں کی سرپرستی میں ملوث رہی مگر اس
معاملے میں سندھ حکومت یا کسی سیاسی شخصیت کی کوئی مداخلت نہیں رہی۔ چند
مجرمانہ خصلت کے پولیس اہلکار بے شک انفرادی طور پر غلط کاریوں میں ملوث
رہے۔ مگر پکڑے جانے پر اُنہیں کڑے احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر کسی پولیس
والے نے غلطی سے کسی بے گناہ کو مار دیا تو اُسے اس کی پُوری قیمت چُکانی
پڑی ہے۔ خراب کارکردگی کی بناء پر کئی ایس پیز اور ڈی ایس پیز کی سرزنش،
معطلی اور تنزلی معمول کی بات ہے۔ کراچی میں جرائم کسی وقت میں بہت زیادہ
رہے۔ تب بھی وہاں ہر شہری کا کم از کم پرچہ ضرور درج ہوتا ہے۔ پنجاب پولیس
کی طرح اُسے تھانے جانے پر اُلٹا ہراساں نہیں کیا جاتا تھا۔ سب سے بڑی بات
تو یہ ہے کہ سندھ پولیس نے گزشتہ دو تین سالوں کے دوران رینجرز کے شانہ
بشانہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے، جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنے اور
شہر میں امن و امان لانے میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔ درجنوں پولیس
اہلکاروں کو کراچی شہر کی روشنیاں لوٹانے کی مِشن میں اپنی جانوں کا نذرانہ
بھی پیش کرنا پڑا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کیونکہ حکومت نے پولیس کو سیاست
زدہ کر کے بدعنوان اور غیر فعال نہیں بنایا۔
تحریک انصاف کے سخت ترین ناقدین بھی معترف ہیں کہ اس وقت سب سے مثالی پولیس
بلاشبہ خیبر پختوانخواہ کی ہے۔اس صوبے میں آن لائن ایف آر درج کروانے کی
سہولت فراہم کرنا بہت بڑا انقلابی قدم ہے۔ اس پولیس نے دہشت گردی سے متاثرہ
صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہت بہتر بنایا ہے۔ یہاں کی پولیس
صحیح معنوں میں مظلوموں کی داد رسی کر رہی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہوا، اس کا
جواب عمران خان نے ایک موقع پر یوں دِیا کہ پولیس والوں کی اصلاح کے لیے
اُن کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا۔ 2013ء کے بعد سے اب تک رشوت اور دیگر
بدعنوانیوں کے الزام میں ساڑھے چھے ہزار اہلکاروں کو برطرف کیا گیا۔ اسی
باعث آج خیبر پختونخواہ کی پولیس انتہائی پیشہ ورانہ انداز اور مثبت سوچ کے
ساتھ اپنے فرائض انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے۔ |