اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے ما بعدجدید تناظرمیں
نئے عہد کی تخلیقیت کے رجحان کے نظام صدیقی بنیادگزار ہیں۔ان کی مایۂ ناز
کتابــــــ ـــــــ’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘‘ پر2016میں
ہندوستانی حکومت کا بڑا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا ہےْ عموماً تنقیدی کتابوں
پر یہ ایوارڈ کم ہی ملاہے۔ اس خصوصی اعزازیافتہ کتاب سے قبل ہی نظام صدیقی
کی تخلیقیت سیریز (سہ ماہی ’’توازن‘‘مالیگاؤں ناسک) اوربعد میں نئے عہدکی
تخلیقیت سیریز کے روپ میں(شاعر ممبئی) ہم عصر اردو ادب نمبر ( جلد
اوّل)،’’نئے موسموں کا پتہ‘‘ (کتاب) سہ ماہی فکرو آگہی،دھلی اور سہ ماہی
’’مباحثہ‘‘ پٹنہ وغیرہ میں خوشبو انگیز اور ثمر بار ہوئی تھی۔پاکستان میں
بھی سہ ماہی’’اوراق‘‘ لاہور ،’’ سمبل‘‘ لاہور اور ’’ادبیات‘‘ لاہور میں کئی
مسبو ط مقالات شائع ہوئے۔ تخلیقیت سیریزمیں ہی سب سے پہلے نظام صدیقی نے
اردو ادب میں ما بعد جدیدیت کو متعارف کرایا تھا۔ مغرب میں ما بعد جدیدیت،
ما بعد ساختیات، رد تشکیل اور قاری اساس تنقید کے ساتھ آگے کا مرحلہ ہےْ
ہمارے یہاں ما بعد جدیدیت، جدیدیت سے آگے کا سفر ہے۔ اس ضمن میں اپنے اہم
اور معنی خیزآر ٹیکل ’’ ما بعد جدید تنقید کے نئے فکریاتی زاوئے میں‘‘ نظام
صدیقی رقمطراز ہیں ــــ:
’’ما بعد جدید تنقید ہمہ رخی روشنی کا مینار ہے۔ ترقی پسندی کا خاتمہ
1953میں ہو گیا۔ جدیدیت اردو ادب پر 1953سے 1970 تک حاوی رہی۔ لیکن آہستہ
آہستہ 1980تک آتے آتے اس نے بھی دم توڑ دیا۔ 1985 تک تو وہ خود حنوط شدہ
دقیانوسیت ، بد ترین عصبیت او ر ادعائیت کے مترادف ہو گئی۔ یہ اپنے کو
محفوظ گھونسلوں میں سمیٹنے کا ایک آسان وسیلہ بن چکی ہے اور ما بعد جدید
منظر نامہ میں نئی فکریات کی تازہ ہواؤں کو روکنے میں یکسر ناکام ہو کر خود
اپنی شکست کی آواز ہو گئی ہے۔ ’’جدید‘‘ اور ’’ معا صر عہد‘‘ میں زمین آسمان
کا فرق ہے۔ معاصر رجحان ما بعد جدیدیت ہے اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
کے ما بعد جدید منظر نامے میں فوری معاصر میلان نئے عہد کی تخلیقیت ہے۔
انسانی فکریات عالیہ میں کوئی حرف اوّل اور حرف آخر نہیں ہے۔ ہیرا کلیٹس اس
روشن ترین لا زوال نقطہ پر اصرار کناں ہے۔ ’’وقت بہتے ہوئے دریا کے مانند
ہے۔ تم ایک ہی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے ، کیوں کہ تازہ پانی کی
موجیں ہمیشہ تمہارے اوپر گزر رہی ہیں۔‘‘
’’معاصر رجحان ما بعد جدید ادب اور تنقید پر ساہتیہ اکیڈمی دہلی درجن بھر
سیمینار کرا چکی ہے۔ اسی قدر اہم اور معنی خیز کتابیں بھی شائع کر چکی ہے۔
تمام کتابوں میں میرے مقالات شامل ہیں۔معاصر اردو شاعری کے موضوع پر 2011
میں منعقدہ ساہتیہ اکیڈمی کے سہ روزہ 20،21 او ر22کے قومی سیمینار میں
اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تنا ظر میں فوری معاصر میلان میں اپنا معنی خیز
بصیرت افروز کلیدی خطبہ ’’نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسری کائنات پڑھ چکا
ہوں۔ اس کا صرف پہلا پیراگراف خاطر نشیں ہو۔ ’’اکیسویں صدی کے عالمی، قومی
اور مقامی سیاق و سباق میں ہر سطح پر نئے عہد کی تخلیقیت کا جشن عالیہ قائم
ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت کا متوازن تیسرا راخ ہے۔ جو ما بعد جدیدیت کے پہلے رخ
کی فکریاتی، علمیاتی،ثقافتی اور غیر جمالیاتی انتہا پسند رخ کی ہر نوعیت کی
مردہ روایت سے یکسر گریزاں ہے اور ما بعد جدیدیت کے نسبتاً دوسرے محتاط،
مثبت، معقول،زندگی افروز اور فن پرور رخ کی زندہ، نامیاتی اور متحرک روایت
کی جستگاہ سے بے محابا زقند بھر کر نئے عہد کے نا قابل تسخیر تحرک سے ہم
آہنگ ہو گئی ہے۔ یہ نئے عہد میں پیدا ہونے والے نئے چیلنجوں، چنوتیوں،
للکاروں اور آزمائشوں کے آشوب آگیں مسائل اور کوائف کو مکمل طور پر یکسر
نئے تخلیقیت افروز اور نئی معنویت کشا زاوئیہ نگاہ سے قبول کر رہی ہے۔ یہ
غیر معمولی معاصر داخلی تنقیدی بصیرت سے منور ہے۔ ان ہمہ رخی مسائل اور
کوائف کی نئی تخلیقی آگہی اور نئے تخلیقی اظہاریہ کی بیباکی کے لیے نئی
جمالیاتی ترجیحات، نئی اقداری ترجیحات، نئی علمیاتی ترجیحات اور نئی
وجودیاتی او عرفانیاتی ترجیحات کے نئے موقفوں،حربوں اور وسیلوں کی تخلیق
میں حتی الامکان کوشاں ہے۔ جو اردو ادب میں بھی یقیناً نئے عہد کی نت نئی
نظمیہ تخلیقیت، غزلیہ تخلیقیت، نئی جمالیاتی ہیتی تخلیقیت اور مختلف نئی
اصنافی تخلیقیت کے بطون سے ہی آہستہ آہستہ نمو پذیر ہو رہے ہیں۔‘‘
(ماہنامہ ’’تمثیل نو‘‘ دربھنگا شمارہ 11 12-ص 28تا 29)
محولا بالا ضخیم تر نو معیار ساز مقالہ ’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی
تخلیقیت تک‘‘ کا آخری مقالہ ہے جو قابلِ مطالعہ اور قابلِ قدر ہے۔ پروفیسر
گوپی چند نارنگ اپنے ادبی مکالمات کے گرانقدر مجموعہ ’’دیکھنا تقریر کی لذت
میں ‘‘ شامل ’’فنی دسترس کے بغیر نروان نہیں‘‘ میں ابرار رحمانی ،مدیر،آجکل
،دھلی کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’بیشک نئی فکریات پر میں پچھلے دس پندرہ برسوں سے مسلسل لکھ رہا ہوں لیکن
ایسے اہل نظر کی بھی کمی نہیں جو نئے مسائل کو خوب سمجھتے ہیں اور انھوں نے
اچھا لکھا ہے۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ پاکستان میں اکیلے وزیر آغا، فہیم
اعظمی، قمر جمیل، ضمیر علی بدایونی اور ہندوستان میں اکیلے نظام صدیقی اور
وہاب اشرفی نے اتنا لکھ دیا ہے کہ نئے مسائل کی طرفیں کھل گئی ہیں۔‘‘
(صفحہ 378)
نظام صدیقی کو تنقید کے نئے منظر نامہ میں غیر معمولی اعتبار، وقار اور
استناد کا درجہ حاصل ہے۔ محولا بالا اعزاز یافتہ کتاب ان کے نئے تازہ اور
نادر پندرہ تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ کتاب مسبوط اور معنی خیز فکریاتی
نوادرات اور 408 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ پروفیسر شافع قدوائی نے تحریر
فرمایا ہے۔ جامع اور فکر آلود بھاری بھرکم مقالات کی فہرست درج ذیل ہے:
1۔ ما بعد جدید تنقید و ادب کا جمالیاتی اور اقداری نظام
2۔ معاصر اردو غزل ـ: نئے تنقیدی تناظر
3۔ نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینہ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ
سازی
4۔ نئے عہد کی تخلیقیت کے آگہی خانہ میں ایڈ ورڈ سعید کی تنقیدی نظریہ سازی
5۔ تخلیقی ترسیل کا بحران اور امکان
6۔ اردو نظم کی تہذیبی تخلیقیت کی نیوکلیائی فوق متنی تنقید
7۔ ما بعد جدید تنقید کا فکریاتی اور جمالیاتی مطالعہ
8۔ اردو افسانہ میں تخلیقیت کا میلان
9۔ اردو ناول میں تخلیقیت کارجحان
10۔ اکیسویں صدی میں خدائے سخن میر انیسؔ کا فکر و فن
11۔ فراقؔ : نئی غزل کا پورڑ اوتار
12۔ اکیسویں صدی میں قرۃ العین حیدر کی نئی افسانویاتی اورناولاتی معنویت
13۔ ندا فاضلی کا نیا اور انوکھا غزلیہ فوق متن
14۔ ایک الف لیلہ ولیلہ نیا ناولاتی اسطور ساز
15۔ نئے عہد کی شعری تخلیقیت کی تیسری کائنات
یہ پر مغز کتاب صرف ضخامت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ نت نئے موضوع کی
گہرائیوں، پنہائیوں اور بلندیوں، ٹھوس مواد، ترا شیدہ ہیت، نئی تکنیک اور
ترقی یافتہ زبان و بیان کی اسلوبیاتی جدتوں اور ندرتوں کے اعتبار سے ایک
جامع و مانع کتاب ہے۔ جس میں ’’نئے عہد کی تخلیقیت میں‘‘ خصوصی طور پر ما
بعد جدیدیت کے ما تحت رو نما ہونے والے مختلف رجحانات و میلانات بخوبی نظر
آتے ہیں۔ ہر مقالہ نئے اردو شعر و ادب میں پنہاں نئے نئے جمالیاتی،
قدریاتی، علمیاتی، وجودیاتی اور عرفانیاتی ترجیحات کے رموز و افکار کو سورج
آسا عیاں کرتا ہے بلکہ یوں سمجھ لیجیے نئے عہد کی تخلیقیت کے نگار خانۂ
رقصاں میں متعلقہ سخنور نقاد اور ادیب کے ادبی، تنقیدی اور شعری صفات، جہات
اور مضمرات و ممکنات کو اپنے مخصوص تخلیقیت افروز زاوئیہ نگاہ سے غیر
معمولی تنقیدی اکسرے کاری کی فصیح و بلیغ کاوش ہے۔
معاصر اردو تنقید میں نظام صدیقی ایک نئے میلان’’La Novau Age
Creativite‘‘( نئے عہد کی تخلیقیت)
کے نقیب ہیں ۔ جو عالمی ادب کا سب سے زیادہ تازہ کار، نادرہ کار اور توانا
ترین سالم رجحان ہے۔ مختلف مکاتیب کی انتہا پسندیوں کے درمیان نو فکریاتی
اور جمالیاتی توازن کی نشاندہی کرتے ہوئے تخلیقیت پسندی (CREATIONISM) کی
نئی معنویت و اہمیت کو سب سے زیادہ انھوں نے اجاگر کیا ہے:
’’نئے سیاق میں تو پرانا توازن بھی بے معنی، بے مصرف اور بد ترین نوعیت کی
انتہا پسندی کے مترادف ہوتا ہے۔ فکریات اور جمالیات کی مردہ روایت، زندہ
روایت اور حقیقی نئی فکریاتی اور جمالیاتی تخلیقیت نئے عہد 2015 کے اس
بصیرت افروز ــ’’نو مرکزی نقطہ‘‘ کی تلاش نا گزیر ہے۔ جو ’’نیا توزان
پرور‘‘ ہو اور بیک وقت حقیقی آتش رفتہ اور خورشید فردا کا امین ہو۔ زندہ
روایت زمین پر نہایت مضبوطی سے جمائے ہوئے قدم کے مانند ہے اور نئے عہد کی
2015 کی نئی معاصر اضافی تخلیقیت آگے کی طرف اٹھا ہوا قدم ہے۔ دونوں ایک
دوسرے کے لیے لا’بدی ہیں۔ جو نئے تناظر میں جمالیات اور بصیرت+ یات میں
یکسر ’’نئے نواازن‘‘کے متقاضی ہوتے ہیں۔
(ما بعد جدید تنقید و ادب کا جمالیاتی اور اقداری نظام، ص 18)
’’ ما بعد جدید تر تنقید کے نئے جمالیاتی اور اقداری معیار (موٹے طور
پر)(1) باغیانہ ریڈیکل کردار (2) وفور تخلیقیت (3) کثیر معنویات (4) متن کا
لا شعور (5) ادب میں سیاسی اور سماجی معنویت (6) ّ آئیڈو لوجی کی ہمہ گیر
کارفرمائی(7) قاری اور قرأت کا خلّاقانہ تفاعل(8) حسن پارہ کی تمام طرفوں
کی واشگافی ہے۔ نئے تناظر کے اصول حقیقت(REALITY PRINCIPLE) اور اصول
خواب(DREAM PRINCIPLE) کے زائیدہ ان ما بعد جدید ادبی اور فکری معیاروں
قدروں کی نسبت جدیدیت گزیدہ فرسودہ اور منجمد جمالیاتی فکر سے نہیں ہے۔ یہ
یکسر تازہ کار اور متحرک نو جمالیاتی اور نو اقداری فکر ہے۔ مورخ جدیدیت کی
غیر حرکی فکر اور غیر جمالیاتی جبریت کے باعث اردو ادب میں نئی جمالیات اور
نئی اخلاقیات کی نئی تخلیقیت گزار جستجو کا شعوری طور پر فقدان ہے جو
عالمی، قومی اور مقامی نفرت سے بھری نیوکلیائی جنگ کی آتش فشاں پر کھڑی
پرانی دنیا کے متبادل نئی دنیا کی تخلیق کا پیغام دے سکے۔
ما بعد جدید تر تناظر میں بھی انسان برقی سرعت سے نیا آدمی(NEW MAN) یا
’’نا آدمی‘‘(NO MAN) کے خوفناک انسان کش اور کائنات کش موڑ پر آ پہنچا
ہے۔معاصرسیاق میں نئی قدریں، نیا حسن ، نیا آدمی، نئی دنیا اور نیا انصاف
ہی یکسر غیر مرئی ہے۔ اس لیے آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ نئی فکر، معیار
اور قدر کی بابت سمجھوتہ پرست اور مصلحت گزیدہ روئیے اور برتاؤ کو ختم کیا
جائے اور ہر نوعیت کے تنظیم پرور اور فرقہ پرست فکری اور فنی جمود سے بے
محابا نبردآزما ہوا جائے جو اکثر روایت(ادبی فرقہ واریت یا مردہ روایت) کے
مترادف ہے۔ ان کے بر خلاف اپنے مقامی ،قومی اور عالمی منظر نامہ سے جڑ کر
اپنی عظیم تر زندہ اور متحرک روایت کی روشنی میں ما بعد جدید تر معاشرہ کی
(نو زائیدہ اور پروردہ) نئی عہد کی تخلیقیت کی پرورش کی جا سکے۔‘‘
(نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینۂ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ سازی،
ص: (88
’’اپنے ما بعد جدید سیاق کے اصول حقیقت سے جڑ ے بغیر بے معنی تخلیقیت سے
عاری تقلیدی تحریروں کا پہاڑ کھڑا کر دینا توآسان ہے لیکن رائی بھر ما بعد
جدید تخلیقیت آفریں ادب کی تخلیق نہیں۔ ہر تحریر تخلیق نہیں ہوتی۔ وہ محض
ترتیب، تقلید،تحکیم (DICTATION)تکسیر کا منشور ہو سکتی ہے۔ تخلیقی فن اور
تکسیری فن میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ حقیقی تخلیق کی تہذیب اور محض
تقلید کی کسری تہذیب میں قطبینی تفاوت ہے۔ خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے
جدلیاتی الفاط (فاروقی کی اصطلاح) یا ’’استعاراتی فلک الافلاک‘‘ (افتخار
جالب) پر فائز ہو۔ احساس کے ساتوں آسمان کے عرفان کے بغیر اس تک رسائی نا
ممکن ہے اور یہ جمالاتی اور فکری رسائی بیک وقت اپنی ذات، اپنے سماج اور
اپنی پوری دنیا کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے یکسر نئے تناظر کے تصور وقت کی
مکمل آگاہی سے نصیب ہوئی ہے۔ اس کی تخیلاتی اور جمالیاتی تقلیب تو بعد میں
ہوتی ہے۔ ہر دور میں سیاق نیا ہوتا ہے اور وہی نئی تخلیقی معنویت عطا کرتا
ہے جو نئے تناظر کو اس کی عام داخلی اور خارجی سطحوں پر پہچاننے کو تیار
ہے۔ وہ خود بخود نئی تخلیقیت سے ہمکنار ہو جاتا ہے اور اس کی ادبی نگارشات،
تفکرات اور تنقیدات سے نئے عہد کی تخلیقیت گویا ہوتی ہے۔ نئے مفاہیم، نئے
کوائف اور معانی طلوع ہوتے ہیں جو از سر نو نئی حرکی جمالیات، نئی معنویات،
نئی اخلاقیات اور نئی روحانیات کی تخلیق،تشکیل اور تعمیر کرتے ہیں۔‘‘
(نئے عہد کی تخلیقیت کے آئینہ خانہ میں گوپی چند نارنگ کی ادبی نظریہ سازی،
ص : 95)
’’ فی زمانہ تخلیقی ادبی تنقید اس وجدانی اور بصیرتی اہلیت اور ذوقی و علمی
معنویت و اہمیت کی مستحق ہے جو تخلیق کا حقیقی منصب ہے۔ ہر تخلیق میں تنقید
اور ہر تنقید میں تخلیق، ہر خالق میں ناقد اور ہر ناقد میں خالق شامل ہوتا
ہے۔ خالق فنکار، مخلوق متن یا فن پارہ، تخلیقیت شناس ناقد یا تخلیقیت فہم
قاری با ہمد گر منسوب ہیں۔ باہمی رشتوں کے نظام سے منسلک ہیں۔ تخلیقیت
افروزی، کیفیت انگیزی اور معنی خیزی ان کا مشترکہ بنیادی وظیفہ ہے
معنویات(SEMANTICS) اور کیفیات(رس کا تصور) کی تخلیق میں تینوں کی اضافی
تناظر میں مساوی معنویت اور فضیلت ہے۔ اس ضمن میں صرف فن کار (رومانوی
ادبیات کی مانند) صرف متن (نئی تنقید کے مانند) یا صرف ناقد اور
قاری(ساختیات قاری اساس تنقید اور اکتشافی تنقید کے مانند) صرف متن (نئی
تنقید کے مانند) صرف سیاق اور تناظر ( ما بعد نو آبادیاتی تنقید اور اور نو
تواریخیت کے مانند) کو ادبی معنی کی تخلیق یا تنویر معنی کی کار کردگی میں
حتمی اور کلّی اہمیت اور فوقیت دنیا فکری انتہا پسندی اور جذ باتی شور و شر
ہے۔ یہ دانشورانہ سلامت روی اور جمالیاتی سنجیدگی کی ضد ہے۔ نئے عہد کی
تخلیقیت کے فلسفۂ معنی اور فلسفۂ کیف و رس کی رو سے ادبی حسن پارہ کی افہام
و تفہیم میں ان چاروں محولا بالا سر چشموں کی مساوی مساوی معنویت اور نا
فعیت مسلم ہے۔ اپنی غیر معمولی مفکرانہ، خلّا قانہ، عارفانہ جرات، رفیع اور
بر تر ذہنی قوت، وجدانی صلاحیت، بصیرتی گہرائی اور بلندی، حساس اور شعلہ
آسا تجربہ کنندگی یا تجربہ کشی، ہمدلی اور ہم قلبی (EMPATHY)اور شاہدانہ
ہوشمندی کے باعث فی زمانہ’’تنقید کی تہذیب‘‘ کی قدر و قیمت’’تخلیق کی
تہذیب‘‘ کے مساوی ہے۔ تخلیقیت حقیقی تخلیق کا احساس و عرفان ہے۔ تخلیقیت،
تخلیق کی ہی روح یا بنیادی وصف نہیں ہے۔ تنقید کا بھی لازمی وصف ہے۔
تخلیقیت کی صحیح غلط فکر اور قدر کا تعین بالآخر ناقد کو ہی کرنا پڑتا ہے۔
تخلیقیت کشا اور تخلیقیت پسند ناقد کا کام ادبی تخلیقیت اور معنیت کی حسیت
و بصیرت کی ترسیل کے ساتھ ادب کی صحیح جہت اور میلان کی نشاندہی بھی کرنا
ہے اور حسن تخلیق، حسن فکر، حسن روایت اور حسن اجتہاد کی صحیح قدر شناسی
اور سالم قدر سنجی کا پُل صراط بھی طئے کرنا ہے۔ میں تو یہ بھی مانتا ہوں
کی تخلیقیت سائنس، آرٹ اور اسراریات کا بھی جوہر اصل اور مغز اصل ہے۔آرٹ
اِن دونوں کے ایک قوس قُزحی پُل تعمیر کرتا ہے۔‘‘
(اکیسویں صدی کی نئی فکریات اور تصورات کا تخلیقی و جمالیاتی کردار، ص 1 3
)
میں نے مذکورہ بالا اقتباس کتابی سلسلہ ’’پہچان‘‘ (6) شمارہ الہ ا ٓباد سے
لیا ہے۔ یہ 2003 میں شائع ہوا oy۔ میں ایک اور طویل تر اقتباس اس جامع اور
مانع لافانی مسبوط مقالہ سے لینے پر اپنے کو مجبور پا رہا ہوں، یہ نئے عہد
کی تخلیقیت کے منائع نور پر بھرپور روشنی مرکوز کر رہا ہے۔ نظام صدیقی کی
بصیرتوں کی دنیا بے حد وسیع اور رفیع تر ہے۔ انھیں نئی فکریات اور تخلیقیات
کے نت نئے وسیلوں سے اپنی بصیرت+ یات کو تخلیقی ترسیل کا جامہ پہنانے میں
ید طولیٰ حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے اس فاضلانہ آرٹیکل میں عمیق اور رفیع ترین
غیر معمولی تنقیدی شعور و آگہی اور بیباکی کی جو مشعل فروزاں کی ہے۔ وہ
ابدی قدر و قیمت کی حامل ہے۔ ان کی غیر معمولی رفیع تر تنقیدی افکار عالیہ
کی تازہ کاری معتبر، مستند اور موقر ہے۔مندرجہ ذیل تنقیدی اور تحقیقی شہہ
پارہ میں نوعلمیاتی،وجودیاتی اور عرفانیاتی پس منظر میں جین مفکر اعظم
مہابیرؔ کی یگانۂ روزگار طبعزاد منطق کی سات سیڑھیوں کی موشگافیاں قابل
مطالعہ ہیں اور ژین کے جوہر اصل ’’شونیہ‘‘ کے سیاق میں نئے عہد کی تخلیقیت
کے بیکراں تجلئی اعظم کا مکاشفہ متحیر کن اور روشنی بخش ہے۔ خاطر نشان ہو:
’’نئے عہد کی تخلیقیت سب سے زیادہ نو متوازن، جامع اور مانع ایک تنقیدی
مستقبل نما اور غیر معمولی دانشورانہ تنقیدی بصیرت کا معنی خیز اعلامیہ ہے
جو اول و آخر تخلیقیات(CREATRICS) کا نقیب و امین ہے اور صحیح معنوں میں
تدریسی تنقید کے منشیانہ اور محررانہ رجحان کے بر خلاف زندہ، نامیاتی اور
متحرک تخلیقی تنقید کے حکیمانہ اور عارفانہ آفاق کی نشاندہی کر ہا ہے اور
نئے تناظر میں نئے
علم الحسن(KALOLOGY)، نئے علم القدر (AXIOLOGY)، نئی
علمیات(EPISTEMOLOGY)اور نئی وجودیات اور عرفانیات(ONTOLOGY)کی نت نئی
متنوع اور بو قلموں جہات کو روشن کر رہا ہے۔ یہ مقامی، قومی اور عالمی
زلزلوں اور دہشت انگیزیوں میں بھی بیک وقت نئی انسانیات(HUMANITIES) نئی
ثقافت+یات اور قدریات کی بحالی اور نئی جمالیات، تخیلات اور ادبیات کی
بحالی کا علمبردار ہے۔ یہ بیک وقت زندگی کی اکبری ساخت اور فن کی اصغری
ساخت میں نہایت محبت اور بصیرت کے ساتھ تخلیقی مداخلت بھی کرتا ہے اور
مستقبل آ فریں مزاحمت اور مقاومت بھی اور ممکنہ سالم و ثابت دنیاؤں کی
تخلیقیت افروز نشان دہی بھی کرتا ہے اور بے محابا کار ٹیزین ورلڈ ویو
(نظریۂ عالم) کو ردّ کر (HOLISTIC WORLD VISION) ’’سالم نظر ئیہ عالم‘‘ کی
تخلیق، تشکیل اور تعمیر کرتا ہے اور بیک وقت ریزہ کار خارجیت(OBJECTIVITY)
اور پارہ پارہ داخلیت(SUBJECTIVITY) کا ارتفاع کر(OMNIJECTIVITY) ہمہ رنگی،
ہمہ جوئی اور ہمہ کشفی تجربہ کے نت نئے مکاشفاتی اور تخلیقیاتی
عمل(CREATRICAL PROCESSES) سے گزر رہا ہے۔ یہ نو تخلیقیت کا نیا زندگی پرور
اور نیا فن پرور عہد ہے جو ہمہ لذت کوش اور ہمہ معنویت کوش نو امکاناتی
پیراڈائم (ماڈل) ہے۔ یہ زندگی، فکر و فن کے پرانے یک رنگ اور یک جہت فطعیت،
کُلیت، ادّعائیت اور مطلقیت پسند ماڈلوں کی ردّ تشکیل کرتا ہے جو (1) پرانی
برف پوش ارسطوئی منطق (2)پانی آسا سیّال آئنسٹینی اضافیائی منطق(3)نئی بھاپ
آسا یا دھند آسا لطیف ترین غیر ادّ عائیت پسند منطق (FUZZY LOGIC) پر قائم
و دائم ہے جو ’’جہانِ دیگر‘‘ کو نشان زدکرتی ہے۔اس کی جڑیں بیک وقت مہابیرؔ
کے (ـــL;krokn)․’شاید و بایرپن‘‘ کے ابعاد (PROBABLISTIC DIMENSION)ژین
(بدھ دھرم کے جوہر اصل کے اندر پوشیدہ ہے) یہ روز مرہ، محاورہ یا عام سوجھ
بوجھ(COMMON SENSE) پرمبنی ’’سیاہ اور سفید‘‘ اور ’’مطلق صحیح اور غلط‘‘ کے
بجائے درمیانی رنگ کے خاکستری کردار کے علاوہ انسانی تکلم کے درمیانی دعوں
اور اظہاریوں’’کچھ حد تک صحیح‘‘ اور ’’کچھ حد تک غلط‘‘ کے سات لطیف تر
سطحوں اور ساختیوں کے متبادلات تک پھیلی ہوئی ہیں جو بالآخر ’’شونیہ‘‘
(فنانفی اﷲ ) میں تحلیل ہوتی ہیں۔ یہ باطن عینی ہی حقیقی تخیلات کا منبع
نور ہے۔ (باقی باﷲ) اس کے آگے رفیع تر باطن عینی سِرّ الاسرار (سِرّ اخفیٰ)
ہے۔ یہ نئے عہد کی تخلیقیت کا بیکراں ’’تجلیّ اعظم‘‘ ہے جو الفس و آفاق میں
محیط ہے۔ کنزالحسن و قدر ہے۔ نت نئے حسن و قدر کا پوشیدہ خزانہ ہے۔مظہریت
کا علمبردار ہوسرل اس خورشید نیم روزی حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ ’’کامن
سینس‘‘نے نئے انسان کو اندھا کر دیا ہے، حقیقت ہر گز وہ نہیں ہے جو نظر آتی
ہے۔‘‘
ہیں کو اِکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
(غالبؔ)
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں فلسفۂ معنی ہو یا فلسفۂ حقیقت، فلسفۂ حسن
ہو یا فلسفۂ قدر ان کا سارا ارتقاء و ارتفاع اس رمز میں ہے کہ حقائق وہ
نہیں ہیں جو نظر آتے ہیں۔‘‘
’’فکر وفن کے مسائل آخری تجزئے (ULTIMATE ANALYSIS) میں انسانی اور اخلاقی
مسائل ہوتے ہیں۔ جمالیات،اخلا قیات کا دائرہ(PERIPHERY) ہے اور
اخلاقیات،جمالیات کا مرکز ہے(CENTRE)ہے ۔ ہر نئے عہد میں ان کی اساس پر نئے
اقداری اور جمالیاتی رویے اور نئے فکریاتی اور حسنیاتی طریق کار کا رونما
ہوتے ہیں۔ نئے عہد کی تخلیقیت کا قالب، ما بعد جدید تر جمالیات، قلب وسیع
تر اخلاقیات اور روح غیر مشروط وسیع تر بصیرت یات یا نوری روحانیات ہے۔‘‘
نئے عہد کی تخلیقیت کی بوطیقا ’’نئی تخلیقیت پسند شعریات‘‘ نظام صدیقی کی
معرکتہ الآرا ایک موضوعی کتاب ہے۔ جو اردو ادب میں ایک نیا معیار قائم کر
گئی ہے۔ یہ متحیر کن اور نو شعور و آگہی ساز تصنیف سہ ماہی توازن مالے
گاؤں،ناسک، سلسلہ نمبر 11-12 مکمل طور پر 300صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے دیدہ
زیب ٹائٹل کور کی پیشانی پر نظام صدیقی کی تصویر کے نیچے بہ طور خاص مصور
سلطان سبحانی نے نیلگوں آسمان کی شعریات اور زعفرانی زمین کی شعریات کے
درمیان چشم وجدان اور بصیرت کی پتلی کے تل کو سبز دائرۂ نور میں منقوش کیا
ہے۔ اس کے زیریں ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ گراں قدر رائے مرقوم ہے۔
’’ نظام صدیقی کا تحیر انگیز مطالعہ بہت وسیع اور یکسر غیر جانبدار نظر بہت
گہری اور نئی ہے جو کسی چیز کو مِس نہیں کرتی ہے جو قابلِ قدر ہے۔ یہ دور
بیں اور تہہ شناس زاویہ نگاہ اور ذوق سلیم ایک بڑی عمودی تنقیدی جست ہے جو
جدید تر اردو تنقید کو ایک نئے اور کشادہ ترین مدار میں داخل کر گئی ہے۔‘‘
سہ ماہی ’’توازن‘‘ کے مدیر اعلیٰ مرحوم عتیق احمد عتیق نے اپنے پر مغز
اداریہ ’’سخن در سخن‘‘ میں لکھا ہے:۔
’’جناب نظام صدیقی اردو کے ایک معتبر ادیب اور اوریجنل نقاد ہیں جن کا ایک
ایک لفظ ادب کے ہمہ جہتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ایسا اعماقی تخلیقی
ساختیہ ہوتا ہے جو جدیدیت، ما بعد جدیدیت(مع ساختیات، ما بعد ساختیات، ردّ
تشکیل اور قاری اساس تنقید) سے آگے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ کی تازہ،
مبسوط و مدلل تنقیدی کتاب ’’نئی تخلیقیت پسند شعریات‘‘ کے بغور مطالعہ سے
ان کے وسیع تر ذہنی افق اور فکر رِسا تک بآسانی جست لگائی جا سکتی ہے یوں
تو تخلیقیت سیریز کے سلسلہ کا ان کا ہر مقالہ بر صغیر ہند و پاک میں جس نے
بھی پڑھا۔ وہ متاثر ہو کر رہا اور مسخر بھی۔ لیکن متذکرہ تنقیدی صحیفہ کی
بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ نقد و نظر کے لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہی
نہیں،قرار واقعی ایک نئی راہ نما کتاب ہے۔ جس کے مکاشفاتی نکات کا حوالہ
ادب میں ہمیشہ دیا جاتا رہے گا۔‘‘
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی اس تنقیدی کتاب کی بابت اپنے تنقیدی تعارف نامہ
کچھ اس نقد عالیہ کے بارے میں رقمطراز ہیں جو سات صفحہ پر مشتمل ہے۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سہ ماہی توازن کے مدیران میں شامل تھے۔
’’نظام صدیقی نے دنیا سے جو کچھ بھی لیا ہے۔ ان سب کو مع سود اس ہمہ جہت
کوش اور مرکز شناس نقد عالیہ میں احسن طور پر واپس کر دیا ہے اور اردو ادب
میں باقاعدہ نئے عہد کی تخلیقیت کے میلان کی واضح طور پر تن تنہا تخلیق،
تشکیل اور تعمیر کر دی ہے۔ یہ اردو ادب میں اکیسویں صدی کے ربع اول کا سب
سے اہم، دور رَس، معنویت آگیں اور حسن پرور واقعہ ہے جس کے درخشاں نتائج
پوری اکیسویں صدی پر بھی محیط ہوں گے جس طرح حالیؔ کے ’’مقدمہ شعر و
شاعری‘‘ کے غالبؔ خفی اور جلی اثرات کسی نہ کسی شکل میں بیسویں صدی پر محیط
رہے ہیں۔ صاحب کُن ’’اﷲ‘‘ کے سوا کون ہے؟ یہ صدف بھی ابر نیساں کا زیر بار
ہے بقول علیم و حلیم نظام صدیقی کے،وہ تو محض وسیلۂ الٰہی رہے ہیں۔ خدا ان
سے اس کتاب کی شکل میں بہا اور برسا ہے۔ ’’وہ ہیں ہی نہیں!‘‘ علاوہ ازیں
انھوں نے خصوصی طور پر اطلاقی تنقید(APPLIED CRITICISM) کے رفیع ترین نمونے
’’اردو افسانے میں تخلیقیت کے میلان‘‘ اور ’’اردو ناول میں تخلیقیت کے
رُجحان‘‘ میں نہایت عالمانہ حلیمی سے پیش کیے ، جن کی بات دانائے روزگار
ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر ظ
انصاری، جوگندر پال، مظہر امام اور فضا ابن فیضی کے علاوہ ہند و پاک کے بہت
سارے اکابرین ادب ایک ساتھ رطب السان ہوئے ہیں۔‘‘
نظام صدیقی کا رفیع تر اطلاقی نقد پارہ ’’اکیسویں صدی میں خدائے سخن میر
انیسؔ کا فن (نئی تھیوری کی روشنی میں)‘‘ انیسیات کے ضمن میں غیر معمولی
طور پر قابل ذکر و فکر ہے۔ اس کی اطلاقی اوریجنیلٹی (طبعزادگی‘‘ خاطر نشیں
ہو، جو آنکھوں کو خیر گی ہی نہیں نئی شعری معرفت بھی عطا کرتی ہے:
’’میر انیسؔ کی عظیم الشان رثائی تخلیقیت در حقیقت (1) صوتی تخلیقیت (2)
صرفی تخلیقیت (3)مخوی تخلیقیت (4) معنویاتی تخلیقیت (5) بد لیعیاتی
تخلیقیت(6) کیفیاتی تخلیقیت (7) عروضیاتی تخلیقیت کے سات آسمانوں سے منور
ہے۔ تاہم ان سب کا اولین عرشی نصب العین میر انیسؔ کے رثائی حسن پارہ میں
روح گداز درد، غم و الم اور کیمیا تاثیر ہی ہے جو حاصل مرثیہ ہے۔پھر ’’درد
کی باتوں‘‘ کے موزوں اور مترنم اظہاریہ کے لیے اَطناب کی شاعری کے توازن پر
قدرت ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں حسن کار انیسؔ اور مرثیہ نگار انیسؔ دونوں ایک
دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے پوری زندگی ہمدم اور ہمسفر رہتے ہیں اور با
لآخر ہم روح اور ہم جان ہو جاتے ہیں اور ’’انیسیات‘‘ وجود پذیر ہوتی ہے۔
ادب میں ایک انچ کا اضافہ صدیوں میں ہوتا ہے۔‘‘
’’میر انیسؔ سراپا فن کار شاعروں کے شاعر ہیں۔ ان کے حسن پاروں میں فننیت
اور ادبیت اپنے پورے حسن و عظمت کے ساتھ موجود ہے، جس نے انسانی محسوسات،
جذبات اور تخیلات کو روشنی کی زبان عطا کی۔ ان کا شاعرانہ ادراک و عرفان
اِحتساسی کردار اور اِحتساسی مخصوصیت(SENSUOOS PARTICULARITY) کا حامل ہے۔
ان کی شاعری صوتی اور بصری حسیت اور پیکریت کا نگار خانۂ رقصاں ہے۔ اس کی
بصری اور صوتی ترسیل نہایت موثر اور کار گر ہے۔ وہ اپنے اقلیم سخن میں جس
نوعیت کی بھی حسیت اور پیکریت کو بیدار اور متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے
حسب حال لفظ، پیکر، استعارے ان کے یہاں آسمان سے اتر آتے ہیں۔ انیسؔ کو
ریطوریقا (RHETORICS) ُ پر وہ فنی اور ادبی قدرت حاصل ہے جو خدا کو بندہ پر
ہے۔
(1) بصری حسیت اور پیکریت:
اک گھٹا چھا گئی ڈھالوں سے سیہ کاروں کی
برق ہر صف میں چمکنے لگی تلواروں کی
(2) صوتی حسیت اور پیکریت:
کُوکُو وہ قمریوں کی وہ طاؤس کی پکار
(3) شامی حسیت اور پیکریت :
نافے کھلے ہوئے تھے گلوں کی شمیم کے
(4) الوانی حسیت اور پیکریت:
سنولا گیا تھا فرق مبارک جناب کا
پھولوں کے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
(5)لمسیاتی حسیت اور پیکریت:
آئے تھے سرد سرد وہ جھونکے نسیم کے
(6) ذوقی حسیت اور پیکریت:
پِستے لبوں کے وہ، جو نمک سے بھرے ہوئے
پائی نہیں کبھی یہ حلاوت نبات میں
(7) حر کی حسیت اور پیکریت:
سمٹا، جما ،اڑا، ادھر آیا، ادھر گیا
یا نزاکت و وحشت کے ساتھ:
گھبرا کے ننھے ہاتھوں کو دَے دَے پٹکتا تھا
(8) نظریاتی یا اعتقادی حسیت اور پیکریت:
قرآن رحل زین سے سرِ فرش گر پڑا
CONCEPTUAL SENSIBILITY & IMAGE
(9) تصوراتی حسیت و پیکریت:
دیوار کعبہ، بیٹھ گئی ’’عرش‘‘ گر پرا
PECEPTUAL SENSIBILITY & IMAGE
محولا بالا مرثیہ کی بیت میں تینوں استعاروں میں پہلے دو ’’قرآن‘‘ اور
’’کعبہ‘‘ خصوصی طور پر نظریاتی یا اعتقادی حسیت اور پیکریت کا اشاریہ ہیں۔
ان کا تعلق مخصوص نظریہ یا عقیدہ سے ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر قاری ان کی
معنویت و اہمیت سے آگاہ ہو۔ تیسرا استعارہ ’’عرش‘‘ کے گرنے کا ہے۔ یہ نا
ممکن الوقوع عمل ہے۔ اس کا صرف تصوراتی ادراک ہی انسان کر سکتا ہے۔ بہرحال
ان تینوں پیکروں سے رفعت و عظمت کا تصور وابستہ ہے۔ ان کے گرنے سے ان کی
قدسی فوقیت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ان کی عظمت ہر حال میں بحال رہتی ہے۔
میر انیسؔ کی فنی بصیرت کا یہ معراج کمال ہے کہ وہ اپنے مرثیوں کی بیت میں
نہایت نازک خیالی،لفظیاتی شائستگی اور بد لیعی خوش سلیقگی سے رباعی کے
چوتھے مصرعہ کا سارا زور، حسن اور کیمیا تاثیر پیدا کردیتے ہیں۔ ایسے کیمیا
اثر حسیاتی تاثرات اور پیکرات سے وہ قاری کی حسیات کو شدید طور پر متاثر
کرنے میں ہر جگہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ بیشتر ان کے یہاں احتساسی مخصوصیت یا
حسیاتی وضاحت و صراحت اپنے انتہائی اور منتہائی نقطوں پر نظر آتی ہے اور
ہمیں بے اختیار متحیر اورمنکبف کرتی ہے۔ گو ان کی شاعری بیشتر بیان کی
شاعری ہے تا ہم ان کے یہاں ڈرامہ بیانیہ شاعری کے ساتھ ہی ساتھ موجود ہے۔
وہ نظمیہ بیانیہ ہو، ڈرامائی مکالمہ ہو یا غزلیہ کلام ہو۔ وہ اکثر افکار کی
تخلیقی اظہاریت میں شدید احتساسی تاثرات کے ساتھ بڑی شاعرانہ نزاکت، لطافت
اور نفاست سے کام لیتے ہیں،جو نہایت جادو اثر اور اعجاز آگیں ہوتی ہے۔ غریب
الوطنی کی پیکر آفرینی خاطر نشیں ہو:
غربت میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
شمعیں بھی جلاؤ تو اجالا نہیں ہوتا
انیسؔ دم کا سہار ہ نہیں، ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
پہلے مصرعہ میں قصیدہ کی روح اور دوسرے مصرعہ میں تغزل کا حسین اور معنی
افروز امتزاج ہی ان کے یہاں فصاحت کا آفریدگار ہے۔ لیکن درج ذیل شعر میں
مثنوری کی روح اور رباعی کی روح کی آمیزش لطیف ترین بلاغت کی پروردگار ہے۔
لہذا پوری اردو کی کلاسیکی شاعری کی فنی اور جمالیاتی تقلیب بھی خاطر نشان
ہو جو اپنے عہد میں دھلی اور لکھنؤ کی تحریات کا ارتفاع کر جاتی ہے۔لفظ کی
تجلی ریزی اور معنی کی نور پاشی ملاحظہ کیجئیے:
چمک تھی برق کی یہ، یا تھی شرر کی لپک
ذرا جو آنکھ جھپک کر کھلی، شباب نہ تھا
عالم پیری میں آئے کون یاس
اے عصا گرتی ہوئی دیوار ہوں
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ لوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
کسی کی ایک طرح سے بسر ہوئی نہ انیسؔ
عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا
مثل بوئے گل سفر ہوگا مرا
وہ نہیں میں ،جو کسی پر بار ہوں
کنج عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشۂ گیر
رزق پہونچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کے حسینوں کو
خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو
ان رثائی اشعار میں (1) نہایت سادہ،برجستہ، خود رو اور طبعی ’’آمد‘‘ کے
ساتھ (2) زندہ نامیاتی اور متحرک کنواری تشبیہات (3)مرتعش عام فہم استعارات
(4)نہایت سبک اور متوازن صفت ایہام (5) تضاد و طباق (6) معروف معنی کے ساتھ
قدرے غیر معروف معنی کی وابستگی(7) متعلق معنی کے ساتھ قدرے غیر متعلق معنی
کی عضویاتی پیوستگی اور درستگی حسن آرا اور معنی آرا ہے۔ یہ رثائی اشعار
تخلیقی زبان و ترسل کے سات آسمانوں سے مملو ہیں۔ ان اشعار کی خارجی ساخت
بیشتر سہل ممتنع کی آئینہ دار ہے اور سہل ممتنع ہی فصاحت کا کمال ہے۔ لیکن
ان کی داخلی ساخت واقعتا ’’کلام ادق‘‘ کے کنز الحسن، معنی اور کیف کا
جمالیاتی مظہر بھی ہے۔ یہ معنویاتی گہرائی،اونچائی اور گیرائی کلام بلاغت
بھی ہے:
ہے سہل ممتنع یہ ’’کلام ادق‘‘ مرا
برسوں پڑھو تو یاد نہ ہوئے سبق مرا
در حقیقت آفاقیاتی نفسیات (COSMOLOGICAL PSYCHOLOGY) ـکی رو سے اپنی عظیم
تر رثائی شعری تخلیقیت اور معنویت میں میر انیسؔ نہ صرف اپنے شعور کے ہی
برّ اعظم کے سیاح نظر آتے ہیں بلکہ وہ زیریں ؒٓلا شعور، اجتماعی لا شعور
اور آفاقی لا شعور کے نیم تاریک بُحُور اعظم کے بھی غوّاص معلوم ہوتے ہیں
اور اس سے ماورا اکثر بالائی رفیع، منوّر شعور، رفیع تر منوّر اجتماعی شعور
اور شاذ و نادر رفیع ترین منوّر آفاقی شعور کے بھی بیک وقت تجربہ کنندہ اور
عارف و شاہد ہوتے ہیں۔اس وجودیاتی اور کائناتی وجدان و عرفان سے ہی ان کے’’
فوق رثائی متن‘‘(PARA TEXT) فوق رثائی بین المتونیت (PARA TEXTUALITY)میں
محولا بالا نشان کردہ تخلیقی زبان و ترسیل کے سات آسمان کے مانند معانی و
مفاہیم کے سات آسمان بھی ظہورپذیر ہوئے ہیں۔(1) نشانیاتی یا لسانیاتی معنی
(2) سیاقی معنی (3) آثاری معانی یا رسومیاتی مشروطی معنی (4) عرفانی معنی
(5) حواسی معنی (6) ذہنی معنی (7)لازوال بیکراں وحدانی معنی۔ اب لازوال
بیکراں اور وحدانی معنی کے دانائے راز ہے۔ میر انیسؔ کا جمالیاتی اور
معنویاتی مُکاشفہ خاطر نشیں کیجئے جو ’’لطائف ستہّ‘‘ کو اپنے قلب میں مستور
کیے ہوئے ہے۔ یہ ’’نو رس‘‘ کا ارتفاع کرکے ’’شانت رس‘‘ سے آگے بیکران تجلی
اعظم کا امین ہے۔ اردو ادب میں انیس ؔرس کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ وہ ’’رثائی
رس راج ‘‘ ہیں۔ ان کے یہاں بوند میں ساگر سمایا ہوا ہے۔ بالآخر حقیقت پس
حقیقت، معنی پس معنی، کیف پس کیف کو شدّت سے محسوس کیجئیے۔ یہ
خاموشی(SILENSE)اور غیر موجودگی (ABSENCE) کی ’’لاشعریات‘‘ اور ’’لا
بوطیقا‘‘ ہے جو شعر کے خلا یا نافہ میں مخفی ہوتی ہے اور ہوشمندی قاری کو
’’لذت خلاپُری‘‘ اور ’’کیف نافہ جوئی‘‘ عطا کرتی ہے اور روح کی آنکھ کھولتی
ہے۔ نور پاشی کرتی ہے۔
اس خاموشی اور لاموجودگی کی کیفیت نے انیسؔ کے اقلیم سخن میں کتنا اچھوتا
اسلوبیاتی پیکر اختیار کیا ہے جو خوش آہنگی، جمالیاتی حسن اور کیمیا اثری
سے مملو ہے:
مرا’’راز دل‘‘ آشکارا نہیں
وہ ’’دریا‘‘ ہوں جس کا کنارا نہیں
وہ ’’گل‘‘ ہوں جدا جس کا ہے سب سے رنگ
وہ ’’بو‘‘ ہوں کہ جو آشکارا نہیں
وہ ’’پانی‘‘ ہوں شیریں ،نہیں جس میں ’’شور‘‘
وہ ’’آتش‘‘ ہوں جس میں شرارا نہیں
خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے
’’شمع کشتہ‘‘ ہون، فنا میں ہے بقا میرے لیے
اسی کا نور ہر ایک شے میں جلوہ گر دیکھا
اسی کی شان، نظر آگئی جدھر دیکھا
ع: اسی کی شان نظر آ گئی جدھر دیکھا
یہ مصرعہ حقیقی تخلیقیت و معنویت کے جوہر اصل کا منبع نور ہے۔ یہ سرِّ
اخفیٰ کا جمالیاتی اور عرفانیاتی مظہر ہے۔ اس میں بے پناہ رمزیت، معنی خیزی
اور تاثر انگیزی ہے۔
میر انیسؔ کی بیکراں آفاقی درد مندی کس بلند درجہ کی حسنیاتی سنجیدگی اور
اقداری علویت سے سہل ممتنع کے آبگینہ میں منوّر ہوئی ہے:
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
میر انیسؔ کی رفیع تر تخلیقیت اردو زبان کی اکبری تحریر(ARCH WRITING) ہے۔
ان کے رثائی حسن پاروں میں ایک ان دیکھی سمت ہوتی ہے۔ اس غیر مرئی سمت جوئی
کے لیے آج نئے عہد کی تخلیقیت یعنی 2015 کے دور میں ایک تابکار فوق متنی
تنقید یا ضَو ریز فوق اطلاقی تنقید نا گزیر ہے۔ اس کے لیے روایتی آہن پوش
ترقی پسند تنقید یا روایتی برف پوش جدیدیت پسند تنقید بہت حد تک نا کافی
ہے۔
نظام صدیقی کی اطلاقی تجزیہ نگاری کا ایک فقید المثل تنقیدی شہہ پارہ
’’فراق : نئی غزل کا پورڑ اوتار‘‘(نئی تھیوری کی روشنی میں) نہایت درّاک
اور بصیرت افروز ہے۔ اس کی غیر معمولی فلسفیانہ سنجیدگی اور نو فکریاتی
گہرائی اور گیرائی قابلِ مطالعہ ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
’’فراقؔ کی ذات میں بحر وجود میں ہاتھ پیر ڈھیلا کرکے اپنے آپ کو چھوڑ دینے
کی وہ فطری دھیان (MEDITATION) صلاحیت تھی جس کے استغراق کے باعث بیک وقت
حسن آفریں اور معنی آفریں اشعار آپ ہی آپ ڈھلتے چلے آتے تھے یا فراقؔ کا
وجود کیمیا تاثیر اشعار کی بالائی ساخت اور زیریں ساخت مین ڈھلتا جاتا تھا۔
معمولی سے معمولی واردات کی اکائی میں صفروں کی قطاریں لگ جاتی تھیں۔
افلاطون نے کہا ہے’’لکیر ایک بہتا ہوا نقطہ ہے۔‘‘ فراقؔ نے ’’الہام نما‘‘
کی اپنی ایک مفکرانہ رباعی میں تخلیقیت کے رمز کو بڑی فصاحت اور بلاغت سے
منکشف کیا ہے:
ہر بات کا ہو چلا ہے ساقی بستار
سنسار اپنی حدوں کو کرتا چلا یار
مئے کے قطرے لگا رہے ہیں ساقی
دنیا کی اکائیوں پہ صفروں کی قطار
تخلیقیت چھوٹی سے چھوٹی بات کی اکائی میں صفروں کی قطار ہے۔ ہر لمحہ
تخلیقیت کا عمل جاری ہے۔ اس کے سرے زماں و مکاں کی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتے
ہیں۔ فراقؔ کا ایک بلیغ ترین اور مکاشفاتی غزلیہ شعر ہے جو ان کے تخلیقیت
کشا شعری مزاج کا بھرپور مکاشفہ ہے۔
آگے شاید پڑتا ہے عدم، کچھ ٹھیک ہمیں معلوم نہیں
یہ درد کی حد ہے فراقؔ، یہیں سے دل کی بستی چھوٹ گئی
جسم، دماغ،دل کی بستی سے آگے روح کے چوتھے کھونٹ (TURIYA) کی شروعات ہوتی
ہے جو حقیقی تخلیقیت کا منبع ہے۔ یہ بقول فراقؔ ’’کُن فیکُن‘‘ کے ساز پیہم
کا سرمدی چشمہ ہے۔ یہاں تخلیق جہان نو ’’دما دم‘‘ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں لاؤ
تسے نے ’’تاؤ‘‘(TAO)NATURE میں بڑی اہم اور معنی خیز بات کہی ہے جو اخفی یا
مہا شونیہ کی بابت ہے۔
NON-BEING AND BEING.EMERGES FROM THE SINGLE GROUND,THAT IS DARKNESS. TO
MAKE IT DARKER,IS THE GATE OF ALL,WONDER.
نیستی اور ہستی ایک ہی سر زمین سے صادر ہوتی ہے جو اخفیٰ ہے۔ اس کو مزید
خفی بنانا تمام حیرانیوں کا بابِ اکبر ہے۔
اردو ادب میں فراقؔ کے شعری مزاج میں بیک وقت ڈی۔ایچ لارنس اور لاؤتسے کا
ایک حیرتناک امتزاج نظر آتا ہے۔ فراقؔ کے رفیع شعور (SUPER CONCIOUSNESS)
کی بابت بھی اب تنقیدی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فراقؔ کی جمالیاتی حسیت اور
بصیرت میں کثافت سے لطافت اور مادیت سے روحانیت کی سرحدیں جدا نہیں ہیں
بلکہ یہ با ہمد گر ایک ہو کر آہستہ آہستہ آفاقی روحانیت میں تبدیل ہو جاتی
ہیں۔ ان کے شعری مزاج، شعری روح اور شعری کائنات میں جنس بیج ہے۔ محبت پھول
ہے اور بیک وقت آفاقی دردمندی یا نشاط آگہی خوشبو ہے۔ ذیل کا یہ جمالیاتی
شعر ’’رسو ویسہ‘‘ وہ رس روپ ہے کہ بیک وقت حسنیاتی، قدریاتی، وجودیاتی اور
عرفانیاتی تفسیر و تعبیر ہے۔ حروف علت کی آوازوں سے پیدا بصری اور لمسی
پیکرات کو ملاحظہ کریں:
وہ تمام روئے نگار ہے وہ تمام بوس و کنار ہے
وہ ہے چہرہ چہرہ جو دیکھئے، وہ ہے ، چومئے تو دہن دہن
کرشن نے گیتا میں آدمی کو دس دروازے والے مکان سے موسوم کیا ہے۔ درج ذیل
شعر میں آنکھیں ان دروازوں کا اشاریہ ہیں۔ ’’مسکن آہواں‘‘ استعاراتی ترکیب
توانائی زار، تجلّی زار اور حرارت و تمازت زار کا اعلامیہ ہے۔ شمس الرحمٰن
فاروقی اور ڈاکٹر وارث کرمانی نے ہندوستان ناشناسی کے باعث اس غزلیہ شعر کو
مہمل اور لغو کہا ہے۔ ابہام،اہمال اور اشکال کی منطق کے سب سے بڑے مُدّعیان
سے ایسی امید نہ تھی:
کفِ پا سے تا سر نازنیں،’’ کئی آنکھیں ‘‘، کھلتی جھپکتی ہیں
کہ تمام ’’مسکن آہواں‘‘ ہے، ’’دم خمار‘‘ تیرا بدن
دھیان (اِعتکاف) میں سات شگافوں، نافوں یا آنکھوں کو بند کرنے کی تاکید کی
جاتی ہے تاکہ اِنرجی باہر نہ بکھرے۔ کئی دھیان (مراقبہ) میں دسوں آنکھوں کو
بند کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ’’دمِ خمار‘‘ کی خوش معنی اور خوش نوا ترکیب
شعری کلید ہے:
عالم کا جمال ،قد آدم آئینہ نما ترا بدن ہے
غزلیہ اِخفا، ایما،ارتکاز اور اعجاز خاطر نشان ہو:
گم سم ہے فراقؔ محو دیدار
حیرت کی سرا ترا بدن ہے
کہاں ہر ایک سے ’’بار نشاط‘‘اٹھتا ہے
بلائیں یہ بھی، محبت کے سر گئی ہوں گی
کچھ گراں ہو چلا ہے ’’بار نشاط‘‘
آج دُکھتے ہیں، حسن کے شانے
فراقؔ وصل کے اعجاز کے قائل ہیں۔ لیکن ان کے یہاں جنس سے عشق اور عشق سے
رفیع شعور (SUPER CONCIOUS) تک کی حسن آفرینی اور کیفیت آفرینی کار فرما
ہے۔ وہ محبت کے نفسیاتی اور روحانی پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ فراقؔ کے
تخلیقیت انگیز شعری مزاج میں جنس سے عرفان تک کے ارتفاعی رویہ کی توفیقیت
(GRACE) خاطر نشیں ہو جو زندگی کو بھرپور بناتی ہے۔ زندگی کو پارہ پارہ کے
بجائے سالم و ثابت بناتی ہے:
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق ’’توفیق‘‘ ہے گناہ نہیں
فراقؔ کا یہی تخلیقیت پسند ہندوئی شعری مزاج ان کے شرنگار رس سے لبریز
رباعیوں کے بھی انتہائی حسین،تازہ اور معنی خیز نفسیاتی، ارتفاعی اور
روحانی پہلو میں نمایاں تر ہوا ہے۔ ان میں بصیریات،لمسیات اور صوتیات متحد
ہو گئے ہیں۔ فراقؔ کا بصری تخیل اور سماعی تخیل بیک وقت اتنا شدید ہے کہ وہ
جس چیز کو دیکھتے ہیں۔ اس کو سننے لگتے ہیں۔ کلام میرؔ میں فن مصوری کے جس
کثرت سے حوالے دستیاب ہیں۔ کلام فراقؔ میں اسی کثرت سے فن موسیقی کے حوالے
ہمدست ہوئے ہیں۔ یہ موسیقانہ حوالے غزل اور رباعی کے علاوہ نظم میں بھی حسن
آرا اور معنی آرا ہیں۔ دو ایک نظمیہ شعر خاطر نشان ہوں:
جو سن سکے کوئی، ہر عضو بات کرتا ہے
نظر نظر ہے تکلّم، ادا ادا گفتار
جمال ہے مجسّم کھینچی ہوئی اک الاپ
نشان نغمہ ہے، ایک ایک خطِ جسم نگار
سکوت اور آواز ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں اور یہ ازل سے ابد تک آنکھ مچولی
کھیل رہے ہیں۔ ان کی نظم ’’آدھی رات‘‘ میں احساس سکوت کے صرف دو ایک مصرعے
ملاحظہ ہوں۔ ایک میں بصری پیکر اور دوسرے میں لمسی پیکر مسرت اور بصیرت بخش
ہے:
زمیں سے تامہ و انجم، سکوت کے مینار
کنول کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ
فراقؔ کی انوکھی فنکارانہ شخصیت، فکر و فن اردو ادب کا سب سے بڑا انصمام
ضدّین(THE UNITY OF OPPOSITES)ہے ۔ یہی ان کا بنیادی تخلیقی شعری مزاج
(OXYMORONISH POETIC TEMPARAMENT) بھی ہے۔ وہ ایک طرف کلاسیکی غزل کے آخری
بڑے شاعر ہیں۔ دوسری طرف وہ جدید غزل کے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ وہ بیک وقت
اپنی زندہ روایت اور درخشندہ و پائندہ تخلیقیت کا گوری شنکر ہیں۔
نظام صدیقی سب سے پہلے قرۃ العین حیدر کو نہایت تنقیدی دیانت داری سے ما
بعد جدید فوق افسانوی اور ناولاتی حقیقت نگاری (META FICTION) اور ما بعد
ساختیاتی تانثیت(POST STRUCTAL FEMENISM) کی بھی حقیقی بڑی پیشرو تسلیم
کرتے ہیں۔ ترقی پسند سر براہ ناقد محمد حسن کو ہمیشہ یہ اعتراض رہا کہ وہ
آخر کب تک تقسیم کے مسئلہ کو لے کر افسانے اور ناول لکھتی رہیں گی۔جدیدیت
پسند ناقد فاروقی ہمیشہ معترض رہے۔ قرۃالعین حیدر کی بابت میری رائے ذرا
مختلف ہے اور یہ جو آپنے فرمایا اس عہد کی تخلیقی کشاکش کا اظہار ان کے
یہاں ملتا ہے۔ وہ فراوانی سے نہیں ملتا اور ملتا بھی تو ہے۔ NARROW VISION
کا شکار ! زبان کے معاملہ میں LOOSE WRITINGبہت ملتی ہے۔ ان دونوں کے
برخلاف اپنے مبسوط تر بھاری بھرکم مقالہ ’’اکیسویں صدی میں قرۃ العین حیدر
کی افسانوی اور ناولاتی معنویت‘‘ میں نظام صدیقی نہایت بصیرت آفریں اسلوب
میں رقمطراز ہیں:
’’قرۃالعین حیدر کا ایک اور نیا فکریاتی اور جمالیاتی بعد قابل توجہ اور
قابل مطالعہ ہے۔ ان ناولٹوں، طویل افسانوں اور بیشتر مختصر افسانوں کے
علاوہ ان کے ناولوں تک مین پدرانہ اور مردانہ معاشرہ میں عورت کی تقدیر
عورت کی صنف (SEX) نہیں بلکہ بطور جنس(GENDER عورت کی ثانوی حیثیت، عورت کے
وجود کے داخلی اضطراب، ذہنی آشوب ، احساس تنہائی۔ جذباتی جلا وطنی، روحانی
بیگانگی، دنیا کی نصف نسوانی آبادی کو قائم بالذّات تسلیم نہ کیے جانے کے
بے پایاں کرب، نسائی مجبوری،استحصال، بے بسی، مردوں کے بنائے ہوئے خایہ
اساس آئینی اصول و ضوابط لی رحم اساس غلامی ،لا متناہی انتظار کی کیفیت، پس
پائی، نسوانی طرز احساس اور تانیثی صورت حال کو نئے نسوانی نقطۂ نظر سے
نہایت فنکارانہ دل آویزی، جمالیاتی لطافت، نزاکت اور بلا کی تاثر انگیزی کے
ساتھ انھوں نے منعکس کیا ہے۔ ان افسانوی اور ناولاتی تخلیقات میں
تانیثیت(FEMINISM) کے مختلف نئے زاوئے کار فرما نظر آتے ہیں۔ جو محض روشن
خیال مشرقی تانیثیت(LIBERAL FEMENISM) تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ کامل
باغیانہ تانثیت(RADICAL FEMENISM) کے حامل کردار دیپالی سرکار،یاسمین مجید،
ناصرہ، نجم الّسحر اور اوُما رائے بھی ’’آخری شب کے ہم سفر‘‘ مین ملتے ہیں۔
جو ان کے دوسرے اہم ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ،’’گردش رنگ چمن‘‘،’’چاندنی بیگم‘‘
اور ’’میرے بھی صنم کانے‘‘ وغیرہ میں معدوم ہیں۔ یہ تمام اہم نسوانی کردار
اپنے انقلابی تیور،مزاحمت اور مقاومت پرور ’’ مثبت روئے‘‘ اور پیش قدمی کے
باعث جاذب توجہ اور قابلِ احترام معلوم ہوتے ہیں۔ ما بعد ساختیاتی تانثیت
اور اسلوبیاتی ردّ تشکیل کا ایک قابلِ تجزیہ افسانوی پیشکش ’’سیتا ہرن‘‘ کی
سیتا میر چندانی کی کردار نگاری میں دستیاب ہوتا ہے جو غالب مردانہ ساخت
شکنی کا اعلامیہ ہے۔ ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ کا یہ لازوال افسانہ اردو
افسانویات یا ناولیات میں عورت کو مکمل خودمُکتفی آزاد، بالادست یا مساوی
حیثیت سے پیش کرنے کی انقلابی جرأت عارفانہ ہے جو مرد کرداروں کے سہارے کے
بغیر زندہ رہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور مردانہ بالادستی کو اپنے پیروں کی
زنجیر سمجھتی ہے۔ یہ سفاک حقیقت ہے کہ مستحکم مردانہ تسلط بیشتر عورت کو
اپنی ذات کی تلاش، دید و یافت، ہمہ پہلو ارتقا اور ہمہ جہت ارتفاع میں مانع
ہوتا ہے جو اس کو علاحدہ سے امتیازی شناخت عطا کرتا ہے۔
قرۃالعین حیدر کے افسانوی اور ناولاتی نگار خانۂ رقصاں میں کردار جس طرح
اپنے زندہ تناظر کی مختلف تہذیبی باریکیوں،کشیدہ کاریوں اور مینا کاریوں کے
ساتھ منعقس ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ نسبتاً پورے آدمی پر
ترقی پسند افسانہ نگاروں سے کچھ زیادہ ہی مرکوز ہے اور ساتھ ہی خود، اس کی
سچویشن میں جا کر خود اس کی ذاتی سطح پر جاکر محسوس کرنے کی بھرپور تخلیقی
صلاحیت بھی موجود ہے۔ زندگی کے گہرے بنیادی کرب کا وجودی شعور اور احساس و
تجربہ کی سچائی کا نہایت جمالیاتی ذکاوت اسلوبیاتی کشش اور ساختیاتی ندرت
کے ساتھ احساس کرا دینا ان کا غیر معمولی فنی کمال ہے جو صداقت آگیں،معنی
خیز اور حسن پرور ہے۔ ’’آخری شب کے ہم سفر‘‘ کے آخری باب میں بنگال کی
انقلابی تحریک کی دو بے حد فعال، متحرک اور مقاومت پرور کردار دیپالی سرکار
اور اوما راؤ کلکتہ میں ملتی ہیں۔ دونوں بوڑھی ہو چکی ہیں اور خاصی غیر
فطری سی ہو کر ایک دوسرے سے بات کر رہی ہیں۔ وہ نہ ماضی کا ٹھیک سے سامنا
کر پا رہی ہیں اور نہ حال کا۔ اس نازک دل گداز مقام پر ایک دل دوز جملہ
وجود پذیر ہوتا ہے:
’’دکھ ایک ڈراؤنے سیاہ پرندہ کے مانند اڑ تا ہوا آیا اور سر جھکا کر،پنکھ
پھیلا کر، ان کے پاس بیٹھ گیا۔‘‘
مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ دکھ کا یہ سیاہ پرندہ قرۃالعین حیدر کی ہر
تخلیق میں سر نگوں بیٹھا رہتا ہے۔ یہ سیاہ پرندہ معاصر افسانوی اور ناولاتی
ادبیات کا اہم ترین حاصل ہے۔ نئی ارسطو پسند تنقیدی بوطیقا کی زبان میں یہ
افسانے ریٹوریکل نہ ہو کر اِمے ٹیٹو ہیں لیکن زیادہ صحیح معنوں میں نئی
تخلیقیت پسند افسانویات (شعریات) کی رو سے کِر ے یٹو ہیں۔
قرۃالعین حیدر علی الخصوص اردو کے ناولاتی ادب میں کلٹ فیگر ہیں۔ بیسویں
صدی کی اردو ادبیات میں اتنی بڑی خلّاقانہ اور طبع زادانہ دُہانت اقبال کے
بعد مجھے تو اپنے مخصوص افسانوی اور ناولاتی رنگ و آہنگ میں قرۃالعین
حیدرمیں ہی موجزن نظر آتی ہے جو تاریخ، ماورائے تاریخ ،اساطیر،مابعد نفسیات
اور تہذیب و ثقافت میں اتنی دور تک مسلسل ذہنی جہانیان گشتی میں والہانہ
طور پر مستغرق تھیں اور ایک تسلسل کے ساتھ اپنی تخلیقات میں اس تہذیب کی
گہری سطحوں کو تلاش کر منکشف کرنے کا وظیفہ پورا کر رہی تھیں۔ اگر گذشتہ
پچاس سال کے اردو ناولاتی ادب سے ’’میرے بھی صنم خانے‘‘،’’آگ کا
دریا‘‘،’’آخری شب کے ہم سفر‘‘، ’’کار جہاں دراز ہے‘‘، ’’گردش رنگ چمن‘‘ اور
’’چاندنی بیگم‘‘ کو نکال دیا جائے تو ایک بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔
قرہالعین حیدر کے ناولوں کے بغیر اردو ناول میں نئے عہد کی تخلیقیت،
اردوئیت اور ناولیت کی تلاش زیادہ دشوار ہوگی۔ میں تو ذہنی دیانتداری اور
تنقیدی بصیرت کے ساتھ یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ’’وہ ما بعد جدید فوق افسانوی
اور ناولاتی حقیقت نگاری (META FICTION) کی بھی حقیقی اور بڑی پیشرو تھیں۔
قرۃالعین حیدر ہمیشہ تواریخ کی فاش غلطی ANACHRONISTIC)) رہی ہیں۔ پانچ
ہزار سالہ پرانی ہندوستانی جڑوں، ملی جلی گنگا جمنی تہذیبی شناخت اور دیسی
واد پر مبنی ان کی بیشتر میٹا فکشنی تحریرات از سر نو کثیر سطحی اور کثیر
معنویاتی ذہنی دعوت اور وجدانی و بصیرتی شِراکت کے لیے ہمیں چیلنج کرتی
ہیں۔‘‘
ما بعد جدید فوق افسانوی اور ناولاتی حقیقت نگاری (PARA FICTION) کی شعریات
کی مزید شعور و آگہی کے لیے نظام صدیقی کے معرکہ آرا آرٹیکل’’ایک الف لیلہ
و لیلہ شکن نیا ناولاتی اسطور ساز‘‘ کا عمیق تر مطالعہ نا گزیر ہوگا جو
انھوں نے نئے عہد کی تخلیقیت کے زندہ،تابندہ اور پائندہ تجربہ پسند بیباک
شاعر اور ناول نگار صلاح الدین پرویز کے ناول ’’ایک ہزار دو راتیں‘‘ پر
لکھا ہے۔ یہ پورا آرٹیکل قابل مطالعہ اور قابل غور و فکر ہے۔ میں جستہ جستہ
اقتباس دے کر مزید مطالعاتی ترغیب دے رہا ہوں اور دعوتِ فکر و نظر بھی جو
معنی کشا ہے۔
’’ایک ہزار دو راتیں‘‘ما بعد جدید تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت کا اولین
فوق متن (SURA TEXT) ہے۔ ایک رات کے بعدیکسر دوسری رات (دوسری دنیا) کی
تمام روایتی فکشنی شعریات اور بوطیقا کی خانم ہے۔ حقیقی زندہ،تابندہ ور
پائندہ مرمرکر بار بار سانس لینے والی اور دھڑکنے والی زندگی صحیح معنوں
میں نہ اخلاقی (MORAL) ہے اور نہ غیر اخلاقی (IMMORAL)ہے۔ وہ
لااخلاقی(AMORAL)ہے۔ وہ فضل ربّی سے منور ہے۔ وہ ترقی پسند گزیدہ شعریات
اور شب گزیدہ جدیدیت پسند بوطیقا کی میکانکی سطح پر زائیدہ اور پروردہ
’’اچھوت‘‘ اور ’’پائپرپا‘‘ نہیں ہے۔ یہ کاشف صداقت ،خیر اور حسن یا شاہد
ِصداقت ، آگہی اور انبساطِ روح یا کیف سرمدی ہے۔ یہ دوسری رات ایک
’’ہندوستانی لڑکی‘‘ کے چاک چاک، پاش پاش،ریزہ ریزہ لہو لہان وجود کے رزمیہ
+ المیہ رزمیہ کی ناقابلِ تسخیرآستھا،بھگتی اور تیاگ کا لازوال شکتی پیٹھ
ہے۔ ایک ’’ہندوستانی لڑکی‘‘ کا حجلۂ عروسی وہ ’’اشعر ترین نور‘‘ ہے جو محبت
کی گنگا، عقیدت کی جمنا اور تروینی کی مکمل آگہی کے بطن میں قائم و دائم ہے
اور یہی دائمی کنزالحسن، خیر اور صداقت ہے اور بیک وقت جو معراج آگہی پر
بھی طلوع ہوتا ہے اور نئے نئے پیکروں کا منبع نور ہے۔ اس کے لیے ’’اچھوت
کنیا‘‘ کے شکتی آگیں عمل کی جست اور باز جست نا گزیر ہے جو شعوری دنیا کی
جست گاہ سے بے اختیار ژقند بھرتی ہے اور بیکراں تجلئی اعظم سے ہمکنار ہو
جاتی ہے۔ بقول انیسؔ ’’فرش سے عرش تلک نور نظر آتا ہے‘‘۔ ’’اچھوت کنیا‘‘
پابندی میں آزادی، جبریت میں حریت اور قدم میں حدث، تقلیدیت اور تحکیمیت
میں ہمہ رنگ، ہمہ جہت اور ہمہ پہلو اور ابدی تخلیقیت کی امین ہے۔’’موج‘‘
بھی اہل دل تخلیقیت افروز شاعر اور ناول نگار ہے۔
’’ایک ہزار دو راتیں‘‘ پورا ناول ہی فوق المتن کا جیتا جاگتا مثالی نمونہ
ہے لیکن ’’بدن کے باغ میں بدی کے پھول‘‘ ’’کیسے ہوگی پوری رات‘‘،’’خواب کی
لالٹین‘‘ اور ’’ابن بطوطہ،نہر زبیدہ اور شہرزاد‘‘ کے خواببیہ میں صلاح
الدین پرویز کے تخلیقی بیانیہ نے انسانی روح کے درد و داغ، سوز و ساز اور
تلاش مدام تلاش کے پورے ’’ذہنی شاہنامہ‘‘ ’’پوری وارداتی مہابھارت‘‘ میں
(1)آدمی کے اخلاقی اور روحانی طور پر تحلیل ہونے (2) اس کے صحت مند طور پر
نشو نما پانے (3) اور اچھوت لڑکی کی ارتفاعی سطح پر پوری کھلاوٹ کی رامائن
اور ’’رسوویسہ‘‘(وہ رس روپ ہے)کے پورے شرنگار ساگر کا نہایت لطیف منتھن کر
اس کے صرف جوہر اصل کو اپنے ناولاتی مہا گیتا (اشٹا وکرکی مہا گیتا) میں
منکشف کیا ہے اور ’’سنگیت کے سنگیت‘‘ اور ’’خوشبو کی خوشبو‘‘ کو چھو لیا
ہے۔ ان حسن پاروں کی فوق المتنیت کو کہیں انتہائی و منتہائی نشاط آگہی کے
عالم میں اور کہیں بے کراں کرب آگہی کے شدید عروجی عالم مین نہایت جمالیاتی
ژرف نگاہی سے کاڑھا ہے اور رچا گیا ہے۔ میں صلاح الدین پرویز کو عالمی،قومی
اور مقامی فوق والمتن کی تہذیب میں یکسر یگانہ روزگار تسلیم کرتا ہوں۔ یوں
بھی مجھے ما بعد جدید نظمیہ اور ناولیہ اصناف میں ایسی تخلیقی بے مثالیت کا
امین تخلیقی نابغہ ہند و پاک مین دوسرا نظر نہیں آتا ہے۔ پیشرو قرۃ العین
حیدر اور انتظار حسین کو بھی صنفی سطح پر شاعری سے دور دور کا بھی ذرا
واسطہ نہیں ہے۔ تاہم مجھے اردو فکشن کی یہ بڑی موہنی تثلیث پسند ہے۔
’’صلاح الدین پرویز مختلف الحیثیت ان اصناف میں بیک وقت جادوئی آوازوں،
تجربوں اورخیالوں کا توازن ڈھونڈھتے ہیں۔ اس وسیع تر ،لطیف تر اور عمیق تر
معنوں میں ایک حسن پارہ انسانی کردار کا بھی حامل ہوتا ہے اور غیر انسانی
رویہ اور طریق کار کا بھی امین ہوتا ہے۔ مٹّی، پتھر،آواز ،لفظ - لفظ جو سب
سے ابتدا میں تھا ایک ایسی زبان پر قادر ہے جس کو ’’سمجھنا‘‘ نہیں ’’سننا‘‘
ہوتا ہے۔ ’’دیکھنا‘‘ ہوتا ہے۔ محسوس کرنا ہوتا ہے۔ یہ آفاقیت سے منور زبان
اس ’’حیات محض‘‘ کی امین ہوتی ہے جو اصلاً معنویت، کیفیت،موسیقیت اور
تخلیقیت کا سر چشمہ ہے لیکن جو آکٹوپسی ثقافت و تہذیب فطرت کی بیجا تسخیر
میں ہی اپنے حسن و عظمت کی معراج تصور کرتی ہے۔ وہ حقیقتاً
’’سننے‘‘،’’دیکھنے‘‘ اور ’’محسوس‘‘ کرنے کی صلاحیت کو ہی فنا کر دیتی ہے جو
عین علم و معرفت ہے۔‘‘
’’ایک ہزار دو راتیں‘‘ جیسے ناولاتی حسن پارے اور صداقت پارے کی تخلیقی
زبان اپنی ’’گونج‘‘ اس فطرت سے لاتی ہے جو آدمی سے ماورا ہے۔ اس کی صداقت
کی بازگشت متواتر اس کے خواب، خیال یا اوریاد، رفیع ترین یاد میں ہوتی ہے
جو آدمی کے اندر بڑی گہرائی اور اونچائیوں میں موجود ہے اور اس وقت سے عمل
آرا ہے جب وہ فطرت سے علاحدہ نہیں ہوا تھا:
’’۔۔۔ اب سمندر میں اترا ہوں۔
تو میں نے پایا ہے ایک بیڈروم
اور شب،وہ بھی پانی کی شب
شب میں جلتی ہے ایک موم بتّی
کہ پانی کی شب میں
ازل شب سے اک موم بتّی
فروزاں رہی ہے (ایک ہزار دو راتیں،ص: 132)
’’پانی کی شب‘‘ آفاقی لاشعور کے سیاہ سمندر کا اعلامیہ ہے۔ ’’اک موم بتّی‘‘
’’اشعر ترین احد نور‘‘ کا اعلامیہ ہے:
SUPREME MOST AWARENESS IS THE INNER MOST AWARENESS OF THE BEING.
اب آپ بیکراں شونیہ جسم یا شونیہ مانسرور کا ادراک و عرفان کیجئے کہ وہ
کیسے ناقابلِ علم (UNKNOWABLE) تروینی میں جست کے بعد تحلیل ہو کر بھی
شاہدانہ شعور و آگہی کے پرندہ کے طور پر باقی رہتی ہے اور اپنا وظیفۂ حیات
پورا کرتی ہے۔ یہ ناول زندگی سے زندگی کی طرف واپسی کا ناولاتی مکاشفہ ہے۔
یہ نت نئی سائنسی،علمیات،فنون لطیفہ اور اسراریات کے درمیان سترنگا پل
ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے صارفی تناظر میں ہمہ جہت انسانی اور
ثقافتی قدرں کے مکمل انہدام میں بھی یہ معدوم ہوتی ہوئی انسانی، تہذیبی اور
تخلیقی نشاۃالثانیہ کے خواب عرفان(رُویا) میں مستغرق ہے۔ اس کی اساس پریاگ
کی انسانیات،روحانیات اور الوہیات پر قائم و دائم ہے۔
’’اچانک سورج نکل آیاتھا اور میں اس کی روشنی میں نہایا ہوا، اسے ایسے نہار
رہا تھا جیسے وہ لڑکی نہیں، آسمان سے اتری ہوئی کوئی سرتیا ہو۔۔۔ بہت
دیر۔۔۔۔بہت دیر۔۔۔۔بہت دیر تک وہ یونہی پانی پر چلتی رہی اور پھر اس مقام
پر پہنچ گئی جہاں تین ندیاں گنگا، جمنا اور سرسوتی کا وصال ہوتا ہے۔۔۔۔۔
تبھی جانے میرے دل کی تیسری دیوار کا جانے کون سا ٹانکا کھلا کہ مجھے محسوس
ہوا کہ آسمان پر کرشن وارد ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں سدرشن چکر نہیں
ہے بلکہ ایک خوبصورت سا اندیکھا پرندہ ہے۔ میں نے دل ہی دل میں ان سے پرندے
کے بارے میں پوچھا اور انھوں نے اس پرندے کو آسمان پر چھور دیا ہے۔ تھوڑی
دیر تک پرندہ نگاہوں
سے غائب رہا ہے اور پھر اچانک آسمان سے گر کر عین تروینی کے بھیتر سما گیا
ہے۔ پرندہ کی کرپا کو دیکھنے کے بعد کرشن بھی اچانک آسمان سے کہیں غائب ہو
گئے ہیں۔۔۔۔۔اور بالکل اسی نقطۂ وصال پر لڑکی کا پاؤں بھی اچانک ڈگمگایا ہے
اور وہ بھی اس تروینی میں لین ہو کر ان سب سے مل گئی ہے۔ لوگ آج بھی اس
نقطۂ وصال کو تروینی کہتے ہیں۔ لیکن اب اس تروینی میں بدن کی مٹی کی ایک
پگڈنڈی بھی بن گئی ہے، جس پہ چل کے آتمائیں اپنے اپنے ’’موہ‘‘کے دائمی برہ
اور دائمی وصال کے کارن ہمیشہ جلتی بجھتی رہتی ہیں۔‘‘ (ایک ہزار دو راتیں،ص
:216 )
’’اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر کے غیر برہمنی ہزارہ میں بھی دلت، آد ی
واسی، آدی دراوڑ، پارپایا (اچھوت) نام نہاد فاشسٹی قومیت پسندی، دیسی وادی
ترقی پسند اور دیسی وادی جدیدیت پسندی کے کالے نوآبادیاتی دیسی حاکموں کے
ذریعہ بری طرح پیسے، روندے اور کچلے جاتے ہیں۔ ان کی ساویتی اذیت دہی
بہمنیت کی پاتالی سرنگوں کی اندھی دیوارون کو لہو لہان کر دیتی ہے۔ صلاح
الدین پرویز نے ان لہو لہان اندھی دیواروں کا ارتفاع کر تروینی میں ’’بدن
کی مٹی کی ایک پگڈنڈی‘‘ اور کرشن کے ہاتھ ’’پرندہ‘‘ کے ذریعہ دھرتی اور
آکاش کی ایک نئی اسطور کی تخلیق کی ہے۔ جو چار واک سے شیو،زوربا سے
بدھا،کرشن سے محمّد اور زمین سے آسمان تک کی یکسر صعودی تخلیقی
انسانیات،روحانیات اور قدسیات کی آفاقی دردمندی کی تمام رنگ مالا کو سموئے
ہوئے ہے۔ یہ فکریاتی سطح پر ما بعد جدید منظر نامے میں نئے عہد کی ناولاتی
تخلیقیت کا ایک اچھوتا اور انیلا موڑہے جو سورج اور کنول کے وصال کی لطیف
ترین گاتھا سے روحانی غسل کراتا ہے۔ یہ ناول ’’اچھوت کنیا‘‘ کے نور جاں کا
نور جاناں اور نور جانِ جاناں میں تحلیل ہونے کا نو جمالیاتی،
نوعلمیاتی،نووجودیاتی اور نو عرفانیاتی مکاشفہ ہے۔ یہ وصال اصغرسے وصال
اکبر تک کا امین مخفیاتی ناول ٹھیٹ جنس سے رفیع ترین شعور و آگہی کا
ناولاتی رُویا ہے جو نئے عہد کی تخلیقیت کے تیسرے کنارے کا جویا ہے۔
’’اس کے بعد وہ یوں گویا ہوئی کہ میں آپ کی لولی لنگڑی جمالیات اور آپ کی
بولی ہوئی لولی لٹریچر کی تنقید کو سراسر ردّ کرتی ہوں۔ کیونکہ مجھے ذاتی
طور پر تیسرے کنارے کی تلاش ہے۔ یہ وہی تیسرا کنارہ ہے جسے GUIRAE S
ROSA(گائیرا یس روزا) نے اپنی ایک کہانی کا تھیم بنایا ہے۔‘‘
(ایک ہزار دوراتیں،ص : 108)
’’میرا سارا ادب،ساری جمالیات اور قدریات گائیر ایس روزا کی کہانی کےMAIN
CHARACTER کی طرح ہے جسے ندی کے تیسرے کنارے کی تلاش ہے اور جس سے مجھے
تیسرے کنارے کی تلاش کا انسپریش حاصل ہوا۔۔ وہ شاعر اور فکشن نگار(آپ کے
لیے چاہے وہ کیسا ہو) لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ وہ اسی سیمینار روم میں
بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
(ایک ہزار دو راتیں،ص 108)
یہ نو تخلیقیت افروز ناول پریاگ کی مقامی تہذیب،ذیلی متبادل(SUBALTERN)
حاشیائی تہذیب کی روح میں گھومتا ہوا آئینہ ہے۔ یہ ہر نوعیت کے سمپردائے
(فرقہ واریت) کے خلاف شدید احتجاج ہی نہیں بلکہ دو بدو مقاومت کرتا ہے جو
انسانی،اخلاقی اور روحانی قدروں کو بے حرمت کرتا ہے۔
’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘‘ کے پیش لفظ میں خود نظام صدیقی
روشنی ڈالتے ہیں:
’’میری تنقیدی پیش کش ’’ما بعد جدید ادب‘‘ میں سب سے پہلے مغربی رخ،پھر
اردوئی ما بعد جدیدیت کے دوسرے رخ اس کے بعد آخیر میں ’’نئے عہد کی
تخلیقیت‘‘ کے تیسرے رخ کی نشاندہی کی گئی ہے جو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
کے ما بعد جدید تناظر میں نیا اصول حقیقت اور نیا اصول خواب ہے۔ ان مقالات
میں حسب توفیق اور حسب ضرورت قومی سیاق و سباق میں نئی تھیوری (فلسفۂ ادب)
کی بیشتر جہات روشن اور منوّر ہوئی ہیں۔‘‘
(ص ::7)
نظام صدیقی کی اس مائیہ ناز کتاب میں نو بہ نو تنقیدی بصیرت کا انتہائی اور
منتہائی نقطہ ملتا ہے۔ نئی ثقافتی بازیافت، نئی لبرل ازم اور ہمہ رخی
تکثیریت کی اضافی دید و یافت کا نیا اقداری مخاطبہ ملتا ہے۔ اس ضمن میں
’’نئے عہد کی تخلیقیت کے آگہی خانہ میں ایڈورڈسعید کی تنقیدی نظریہ سازی‘‘
معرکتہ الآرا مقالہ ہے جو قابلِ ذکر و فکر ہے۔عالمی ما بعد نو آبادیاتی عہد
میں ’’مخالف استعماریت پسند ادب‘‘(ANTI IMPERIAL LITERATURE)کے حوالے سے
ایڈورڈ سعید، ہومی بھابا اور گائتری چکرورتی اسپیواک نے ایک مشرقیت پسند
تحریک چلائی۔ اس میں مشرقی ادب کی قدر و قیمت کو بحال کرنے کی باقاعدہ ایک
منظم کوشش ہوئی۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’مشرقیت
پسندی‘‘(ORIENTALISM) میں اس سفاک حقیقت کو برافگندۂ حجاب کیا تھا کہ مغرب
مشرقی ادب کو قطعاً تسلیم نہیں کرتا ہے اور اپنی ثقافتی بالادستی کو قائم
رکھنے کے لیے سیاسی مقتدرہ کا ناجائز استعمال کرتا رہا ہے۔ گائتری اسپیواک
کا عالمی سطح پر مقبول ترین مقالہ ’’کیا حاشیائی آدمی بول سکتا ہے؟(CAN THE
SUBALTERN SPEAK)اس مقالہ میں اسپیواک نے عالمی تناظر میں مغربی ادبیات کا
محاسبہ کرتے ہوئے سیاسی دلائل سے اس سفاک ترین حقیقت کو بھرپور طور پر
منکشف کر دیا ہے کہ دنیا کے ہر ادب میں ذہنی تعصبات اور منفی تاثرات کے
عناصر غالب رہتے ہیں۔ اسپیواک نے اس بے رحم حقیقت پر زور دیا ہے کہ قبل نو
آبادیاتی نظام میں ہمیشہ اس امر پر غالب توجہ مرکوز رہی ہے کہ آیاہم (ہم سے
مراد مغربی ناقدین) اس بات پر آمادہ ہیں کہ طبقاتی کشمکش ادب کا ناگزیر حصہ
ہو۔
’’نئے عہد کی تیسری کائنات کی شعری تخلیقیت‘‘ میں نظام صدیقی نے مشرق کے
قبلہ کو صحیح معنوں میں ’’قبلہ نما‘‘ بنا دیا ہے جس سے ہم بیک وقت اپنے
مشترکہ مشرقی ہندوستانی، قومی اور ثقافتی وجود کی رمزوں کی طرف متوجہ ہونے
کی زبردست ذہنی تحریک پاتے ہیں اور نئی انسانیات، نئی ہندوستانیات، نئی
پاکستانیات ہی نہیں نئی مشرقیات کے عظیم تر رُویا (وِیژن) کی نو دید و یافت
میں کامران ہوتے ہیں۔
’’ندا فاضلی کا نیا اور انوکھا غزلیہ فوق متن ‘‘ نئی اطلاقی تنقید کا
جمالیاتی مینا خانہ ہے۔ ’’معاصر اردو غزل: نئے تنقیدی تناظر‘‘ میں بیک وقت
نئی فکریاتی اور نئی اطلاقیاتی نقد پارہ کے امتیازات کو ما بعد جدید
تخلیقیت پسند شعرا کے کلام کے استشنادی شہادتوں کی روشنی میں منوّر ترین کر
دیا گیا ہے۔ انھوں نے بھر پور طور پر نشاندہی کی ہے کہ معاصر غزلیہ شاعری
نئی اضافی تخلیقیت، نت نئی معنویت،نت نئی عصریت اور نت نئی فنیت سے لبریز
ہے۔مافیہ اور مواد کی سطح پر بھی اس کے قلب میں عا لمیت، قومیت اور مقامیت
کار فرما ہے جس کے باعث نئے معانی و مفاہیم کا چراغاں ہو رہا ہے۔ ’’تخلیقی
ترسیل کا بحران اور امکان‘‘ متنازع فیہہ موضوع پر بے مثل اولین مقالہ ہے۔
جس میں پہلی بار ترسیل کی ناکامی کا رونا نہیں رویا گیا ہے۔ جو جدیدیوں کا
وطیرہ رہا ہے بلکہ لفظ کی تخلیقی وحدت اور اس کو پاش پاش کرنے کی استبدادی
کاوشوں کا نئی تخلیقیت افروز اطلاقی تنقید کی ایکسرے کاری میں بھرپور طور
پر محاسبہ کیا گیا ہے۔ اردو افسانہ میں تخلیقیت کے میلان‘‘،’’اردو ناول میں
تخلیقیت کے رجحان‘‘ میں پہلی باربیانیات (NARRATOLOGY) اور متنیات
(TEXTOGRAPHY) کی حرکیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ خصوصی طور پر اردو ناول
میں1932- 1947 اور 1950-1983سے تاحال تک کے ناول نگاروں مشرف عالم ذوقی،
پیغام آفاقی،غضنفر سے نواب صادقہ سحر،خالد جاوید اور رحمٰن عباس تک کوما
بعد جدیدیت کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’ما بعدجدید تنقید کا فکریاتی اور جمالیاتی مطالعہ‘‘ عالمی تھیوری کی جنگ
اور تھیوری سازوں کی جنگ کا اطلاقیاتی رزم نامہ ہے۔ ’’اردو نظم کی تہذیبی
تخلیقیت کی نیوکلیائی فوق متنی تنقید‘‘ اور ’’ما بعد جدید تنقید و ادب کا
جمالیاتی اور اقداری نظام‘‘ عالمی اور قومی تناظر میں (1) ترقی پسند فکریات
(2) جدیدیت پسند فکریات(3) ما بعد جدیدیت پسند فکریات کے منظر نامہ کے قلب
میں ’’نئے عہد کی تخلیقیت‘‘ کے ہمہ رخی مینارۂ نور کومحفوظ و مامون کیے
ہوئے ہے۔ ان کی نئی کتاب ’’نئے عہد کی تخلیقیت کا تیسرا انقلاب‘‘ عنقریب ہی
میں شائع ہونے والی ہے۔ نظام صدیقی کی فقیدالمثال عطا کی معرفت اس وقت تک
نصیب نہیں ہو سکتی ہے جب تک ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتابیں:
(1) URDU POETRY: THE CREATIVE LITERATURE
(2) THE NEW ROLE OF THOUGHTS, IDEOLOGIES OF TWENTIETH CENTURY
(3) THE CLARION CALL OF NEW AGE CREATIVITYآپکے مطالعہ کا زندہ اور دھڑکتا
ہوا حصہ نہ بن جائیں۔ ان کی فرانسیسی زبان میں تحریر کردہ کتابیں LE SEL DE
LA TERRE (1) دھرتی کا نمک اور (2) UNMOT (ایک لفظ) قابل ذکر و فکر ہیں۔ ان
کے افسانوں کے مجموعہ ’’شکستہ آئینے‘‘(اس افسانے پر قرۃالعین حیدر نے چار
لاکھ کی نوٹس دی تھی کہ اس میں عینی کو رول ماڈل بنایا گیا ہے)۔ ’’آگ اور
گلاب‘‘ اور ’’ندیا میں لاگی آگ‘‘ ناولٹ خاصے تذکرہ میں رہے ہیں۔ منوہر شیام
جوشی کے ناول ’’کیاپ‘‘ کے اردو ترجمہ اور فرانسیسی ترجمہ پر ان کو بیک وقت
ساہتیہ اکیڈمی ٹرانسلیشن ایوارڈ اور فرانس کا لاموں ٹرانسلیشن ایوارڈ پہلے
ہی مل چکا ہے۔ ان کے مایۂ ناز تنقیدی کارنامے ’’ما بعد جدیدیت سے نئے عہد
کی تخلیقیت تک‘‘ کو کل ہند
بھا رتی سمالوچنا میں اہم ترین یوگ دان مُتفقّہ طور پر مانا گیا ہے۔ |