ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف مشکل سے ناممکن ہوتا
جارہا ہے ، ان کے ساتھ امتیازی سلوک عام بات ہے۔ اس کی شکایت کہاں کریں کس
سے کریں ، کس بنیاد پر کریں کیوں کہ منصف ظالم کے صف میں کھڑا نظر آرہا ہے۔
پوری دنیا میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ظالم و مظلوم کے درمیان فرق
کیا جائے اور ظالموں کو مظلوموں کے صف میں کھڑا ہونے سے روکا جائے لیکن جب
قاتل ہی حکمراں بن جائے، قانون سازوں کی فہرست میں شامل ہوجائے، عدالت میں
بیٹھ جائے یا عدالت قاتل کے اشارے پر رقص کرنا شروع کردے اور پولیس جب قاتل
بھیڑ کا حصہ بن جائے تو انصاف ناممکن ہوجاتا ہے۔ پوری دنیا میں انصاف کا
اصول ہے کہ 99مجرم بری ہوجائے لیکن ایک بے قصور کو سزا نہیں ملنی چاہئے،یہ
فارمولہ ہندوؤں کے معاملے میں ہندوستان میں سو فیصد اپنایا جاتا ہے اور یہ
اچھی بات بھی ہے لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔مسلمانوں کے بارے
میں ہندوستانی عدلیہ اصول یہ ہے کہ 99 بے قصور مسلمانوں کو سزا ہوجائے تو
ہوجائے لیکن ایک بھی مجرم مسلمان بچنا نہیں چاہئے۔ اسی اصول کی بنیاد پر
ہندوستان کی ذیلی عدالتوں میں تھوک کے حسا ب سے مسلمانوں کو سزائیں دی جاتی
رہی ہیں۔کوئی بھی بم دھماکہ ہوتا ہے درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا
جاتا ہے، فساد میں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے سیکڑوں بے گناہوں کے خلاف
مقدمات درج کرکے ان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔سارے ثبوت ان لوگوں کی بے
گناہی کی شہادت دے رہے ہوتے ہیں لیکن طے شدہ ذہن کے تحت مسلمانوں کو گرفتار
کیا جاتا ہے اور آسانی سے ان کی ضمانت نہیں ہوتی۔ بے شمار واقعات میں اس
طرح کا ایک واقعہ کاس گنج کا تھا ، ترنگا جھنڈ لہرانے والے مسلمانوں کے
ساتھ بھگوا دھاریوں نے لڑائی کی اور ان ہی لوگوں میں سے کسی کی فائرنگ میں
ایک ہندو مارا گیا لیکن سیکڑوں مسلمان کونہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان کی
جائداد قرق کی گئی ، ان کے مکانوں کو سیل کیا گیا اور ان لوگوں پر قتل کا
مقدمہ عائد کیا جو لوگ یہاں تھے ہی نہیں لیکن یہاں کی عدالت تو مسلمانوں کے
لئے اندھی ہوجاتی ہے ان کوکچھ نظر نہیں آتا ہے اور ان کو وہی نظر آتا ہے جو
پولیس پیش کرتی ہے اور پولیس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہندو فسادیوں کے ساتھ
کاندھا سے کاندھا ملاکر چلتی ہے۔ تقریباً ہر فساد میں پولیس کو ہندو
فسادیوں کے مسلمانوں پر سنگباری اور فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یانہیں
تو کم از کم فسادیوں کا تحفظ کرتے دیکھا گیا ہے۔اس لئے مسلمانوں کے ساتھ
ہندوستان میں انصاف ناممکن سا ہوگیا ہے البتہ کچھ واقعات میں سپریم کورٹ سے
انصاف مل جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات
نہیں۔عدالت عظمی کا درورازہ کھٹکھٹانے کا مطلب ہے آپ کے پاس کم از کم
20،25لاکھ روپے ہوں۔ پیسے کے باوجود ضروری نہیں کہ آپ کو انصاف مل ہی جائے
کیوں کہ اس پر منحصر کرتا ہے کہ آپ کی بات رکھنے والاکون ہے اور سننے والا
کون۔مفتی اعجاز ارشد قاسمی کے معاملے کو بھی اسی آئینے سے دیکھنے سے بات
سمجھ میں آئے گی کیوں کہ اتنا معمولی واقعہ پر عدالت نے ان کو جیل بھیج دیا
جب کہ ان کا قدم دفاعی تھا۔ ہم ان کی اس قدم کی حمایت نہیں کرتے کیوں کہ ان
کے ساتھ ایک عالم دین اور ایک مفتی ہونے کا لاحقہ ہے جو اسے عام آدمی سے
الگ کرتا ہے۔ ہندوستان میں ہر شخص کو اپنا دفاع کرنے کا حق دیا گیا ہے لیکن
وہ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ حق دفاع کا استعمال کہاں کررہے ہیں۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی ۔لکشمی ورما عرف فرح فیض کا قضیہ والے ویڈیو کوں میں
نے دس پندرہ بار دیکھا۔ 17منٹ کے اس ویڈیو کوبار دیکھنے کا مقصد اس کو
سمجھنا تھا اور معاملہ کو دیکھنا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی کیا یہ سارا کچھ
منصوبہ بند تھا؟ کسی عالم دین کو پھنساکر پوری مولوی برادری کو ذلیل کرنے
کی کوشش تھی۔ جو لوگ ٹی وی مباحثہ کو قریب سے جانتے ہیں وہ سب سمجھتے ہیں
کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔کس طرح یکطرفہ بات کہی جاتی ہے اور دلائل سے بات کرنے
والوں کو للو بنادیا جاتا ہے۔ زی ہندوستان کے اس ٹی وی ڈیبیٹ میں جس کی
نظامت سبینا تمانگ کر رہی تھی اس میں سارے مہمان مسلمان تھے۔اس مباحثے میں
فرح فیض (لکشمی ورما) عنبر زیدی، ندا خاں، سید زریں خاں، فرحت نقوی، یاسر
جیلانی ، فہیم بیگ اور صاحب معاملہ مفتی اعجاز ارشد قاسمی شامل تھے۔ اس
ویڈیوں میں دس منٹ تک مختلف لوگوں کے درمیان تکرار (جھگڑا) جاری رہتا ہے
اور ہرمہمان ایک اپنی اوقات کے حساب سے گندگی انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی کی بحث عنبر زیدی سے ہوتی ہے جس کے بعد وہ رونے کا
ڈھونگ کرتی ہے۔شور اتنا ہوتا ہے کہ سب کچھ صاف سنائی نہیں دے رہا ہے لیکن
سب ایک دوسرے کے خلاف تیرہدف چلاتے ہیں۔ آخری تین منٹ کے دوران فرح فیض
اورمفتی اعجاز ارشد قاسمی کے درمیان زبردست بحث شروع ہوجاتی ہے اور دونوں
اپنی سیٹ سے کھڑے ہوجاتے ہیں اوردونوں کی انگلیاں ایک دوسرے کی طرف ہوتی
ہیں اور زبردست تکرار ہوتا ہے ۔ اسی دوران آر ایس ایس کی نام نہاد مسلم شاخ
مسلم راشٹریہ منچ سے وابستہ یاسر جیلانی اٹھتے ہیں اور فرح فیض کے کنارے
ہوتے بیچ بچاؤ کے لئے آتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
انہوں نے فرح فیض کے ہاتھ کوسہارا دیکر مفتی اعجاز ارشد قاسمی گال کی طرف
بڑھادیا ہے اور مفتی صاحب کو طمانچہ رسید ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں مفتی
صاحب تین زوردار طمانچہ فرح فیض عرف لکشمی ورما کو عنایت کرتے ہیں۔ اتنا
تماشہ ہونے کے بعد اسٹوڈیو میں ایک صاحب بچانے کے لئے آتے ہیں۔ سترہ منٹ کے
اس ویڈیو میں کسی کو بھی اینکر خاموش کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہے اور نہ ہی
اسٹوڈیو میں موجود زی ہندوستان کا اسٹاف ان لوگوں کو خاموش ہونے اور بحث پر
توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ جو کچھ تھوڑی بہت آواز صاف سنائی دیتی
ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سارے مہمان اپنی ذاتی پرخاش مٹانے کے لئے
یہاں جمع ہوئے ہوں ۔ ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ماں باپ کو بیچ میں لایا جاتا ہے۔ مرد ذات کو
گالی دی جاتی ہے۔ سات لوگوں میں چار خواتین ہیں جو مردوں کی ستائی ہوئی
لگتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ مرد عورت کو دھوکہ دیتا ہے اور اس کا استعمال
اپنے مطلب کے لئے کرتا ہے لیکن یہ بھی اتنا زیادہ تلخ حقیقت اور سچ ہے کہ
لڑکیاں مردوں کو دھوکہ دینے اوران کا استعمال کرنے میں قطعاً پیچھے نہیں
ہیں بلکہ بڑھ چڑھ کر استعمال کرتی ہیں کام نکل جانے کے بعد ایسا سلوک کرتی
ہیں جیسا کہ انہیں جانتی تک نہ ہو۔ فریب خوردہ عورت مرد بیزار ہونے کا
مظاہرہ ٹی وی ڈیبیٹ میں کرتی ہیں لیکن مرد دھوکہ و فریب کھانے کے باوجود
کبھی بھی عورت بیزاری کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ وہ اس کو زہر ہلاہل کی طرح
پی جاتا ہے۔ زی ہندوستان کے اس ڈیبیٹ میں مردوں ، مسلمان اور اسلام کو گالی
دینے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ تنازع شروع بھی ہوجاتا ہے جو
بڑھتے بڑھتے مفتی اعجاز ارشد اور فرح فیض عرف لکشمی ورما کے درمیان طمانچے
کے تبادلے پر منتج ہوتا ہے۔ اس کے بعد زی ہندوستان پولیس کو طلب کرکے مفتی
صاحب کو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں اور پولیس سرعت کے ساتھ کارروائی کرتے
ہوئے مفتی صاحب کو لاک اپ میں بند کردیتی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا
اس طرح کا یہ پہلا واقعہ ہوا ہے ۔یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے اور اس سے
پہلے اس طرح کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں لیکن کسی معاملے میں پولیس کو طلب
نہیں کیاگیا تھا معاملہ اسٹوڈیومیں ہی رفع دفع کردیا گیا۔ تو مفتی اعجاز
ارشد کے معاملے میں پولیس کیوں کہ طلب کی گئی اور زی ہندوستان نے شکایت درج
کیوں کرائی۔جب کہ اس سے پہلے سوامی اوم نے خاتون کو تھپڑ مارا تھا اور ان
کو گندی گندی گالیاں آن ریکارڈ دی تھی۔ پھر اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں
ہوئی ۔ ابھی حال ہی میں مسلم راشٹریہ منچ سے وابستہ یاسر جیلانی کو سدرشن
چینل پر سرے عام ایک سادھو نے تھپڑ سے تواضع کی لیکن اس کے خلاف کاررائی
کیوں نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ تھپڑوں کے تبادلے اور ہاتھائی کا واقعہ
متعدد بار ٹی وی اسٹوڈیومیں پیش آچکا ہے لیکن نہ تو پولیس حرکت میں آئی اور
نہ ہی عدالت میں کوئی ہلچل مچی۔ معاملہ یہی ہے جس کا میں نے اوپرذکر کیا ہے
۔99 بے قصور مسلمانوں کو سزا ملے تو مل جائے لیکن ایک مسلمان مجرم بچنا
نہیں چاہئے۔یہ اصول ہندوستانی جمہوریت کے چار ستونوں کا ہے۔ مفتی اعجاز
ارشد کو اس کے لئے 14دن کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔اس سب سے زیادہ دلچسپ بات
تو پولیس کا موقف ہے جو عدالت سے 14 دن کا ریمانڈ مانگ رہی تھی۔ دہشت گردوں
کے الزام میں پکڑے گئے نوجوانوں کیلئے بھی 14دن کا ریمانڈ پولیس نہیں مانگی
جاتی۔ خصوصاً اس معاملے میں جب سب کچھ لائیو (راست)تھا۔ پورا ملک اس کودیکھ
رہا تھا۔ مفتی اعجاز ارشد کے جوابی اقدام کو جہاں کچھ لوگوں نے صحیح
ٹھہرایا وہیں کچھ لوگوں نے غلط ٹھہرایا۔غلط ٹھہرانے والوں کی دلیل یہ ہے کہ
وہ عام لوگ نہیں ہیں جو اس طرح کا ردعمل ظاہر کریں۔وہ مذہب کے نمائندہ ہیں
اس میں معاف کرنے پر زور دیاگیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی پوری تاریخ عفو درگزر
سے پر ہے۔ وہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے خاتون کے تھپڑ کا جواب تو دینا ہی
چاہئے۔جو عورت سر عام مرد پر ہاتھ اٹھاسکتی ہے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ کچھ
لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ گھر میں بہت اپنے شوہر ونود ورما سے بہت
تھپڑ کھاتی ہوگی اس کا بدلہ انہوں نے مفتی اعجاز ارشد سے لیا ہے۔ بہر حال
مفتی اعجاز ارشد کے معاملے میں نہ صرف پولیس کا رویہ معاندانہ نظرآتا ہے
بلکہ عدالت کا رویہ بھی متعصبانہ دکھائی دیتا ہے۔ کارروائی اگر ہونی ہے تو
دونوں پر ہونی چاہئے۔ کیوں کہ سب سے پہلے تھپڑ فرح فیض عرف لکشمی ورما نے
اٹھایا تھا۔جس کی سزا ن کو ملنی چاہئے تھی ۔ پولیس نے لکشمی ورما کے خلاف
رپورٹ تک درج نہیں کی اور ان کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کردیا ۔ پولیس
نے آخر ایسا کس کے کہنے پر کیا اور عدالت نے لکشمی ورما کے خلاف کارروائی
کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا۔ اس پر غور کریں تو سارا معاملہ خود بخود سمجھ
میں آجائے گا۔
کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا مفتی اعجاز ارشد کو جیل بھیجا جاتا ۔ انہیں
ضمانت دی جاسکتی تھی کیوں کہ یہاں کی عدالتیں قتل کے معاملے میں 20دن میں
ضمانت دے دیتی ہیں۔ اترپردیش کی عدالت نے 20دن میں ہاپوڑ میں ماب لنچنگ کے
شکار محمد قاسم کے ملزموں کو ضمانت دے دی۔ الور میں یکم اپریل 2017کو ماپ
لنچنگ کے شکار پہلو خاں قتل کے چھ ملزموں کو جن کا پہلو خاں نے نام لیا تھا
کلین چٹ دے دی گئی۔ جنید قتل کے اہم ملزم کو کچھ دنوں میں ہریانہ کورٹ نے
ضمانت دے دی۔ علیم انصاری کے قاتلوں کو ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ اسی طرح
ماب لنچنگ کے شکار بیشتر معاملات میں ملزمان ضمانت پر باہر ہیں اور متاثرین
کو کیس واپس لینے کے لئے دھمکی دے رہے ہیں۔ اسی طرح مبینہ ہندو دہشت گردی
کے ملزم ضمانت پر باہر ہیں۔اسی طرح ہزاروں معاملے میں جہاں متاثر ہیں
مسلمان اورملزم ہندوہیں تو انہیں ضمانت دے دی گئی ہے ۔ اگر ملزم مسلمان
ہوتا ہے تو انہیں ضمانت کے لئے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور سپریم کورٹ سے
ضمانت مل پاتی ہے اور یہاں تک آتے آتے انہیں سالوں جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔
جو لوگ بھی بی جے پی اور سنگھ پریوار کے بارے میں یہ سوچتے ہیں وہ مسلمانوں
کے ہمدرد ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں ہیں اور ان کا مقصد ہی مسلمانوں کو
تباہ و برباد کرنا ہے، دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ وہ مفتی اعجاز کے ساتھ
انسانیت کا رویہ کیسے اپنا سکتے ہیں۔ مفتی اعجاز ارشد نے بی جے پی کے لئے
کافی کام کیا ہے۔ 2014میں ایس ایم ایس کے ذریعہ بی جے پی کے لئے راہ ہموار
کی اور مودی کی تعریف کے لئے ان کی زبان رطب اللسان تھی۔ اس کے باوجود جب
موقع ملا تو ان کو اندر کردیا اور کوئی تعلق اور بی جے پی سے نزدیکی کام
نہیں آئی۔ مسلمانوں اور خاص طور پر علمائے کے لئے مفتی اعجاز ارشد سبق
ہیں۔آپ ان کے لئے کچھ بھی کرلیں لیکن وہ آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔
ٹی وی ڈیبیٹ کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستان
میں مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے جس کو شہرت اور پیسے
کے بھوکے ہمارے علمائے کرام کامیاب کررہے ہیں۔ بارہا دارالعلوم دیوبند سمیت
متعدد اداروں اور شخصیات نے اس طرح کے ٹی وی مباحثے میں علماء کرام اور
مسلمانوں کو جانے سے منع کیاہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ٹی وی ڈیبیٹ میں
جاتے رہے ہیں۔ جس کا آسان شکار مفتی اعجاز ارشد قاسمی ہوگئے۔ ٹی وی مباحث
میں حصہ لینے والوں کی کوئی نہ کوئی تنظیم ضرور ہوتی ہے اور زکوۃ و صدقات
اور خیرات لینے میں دریغ نہیں کرتے تو کیا ان لوگوں ان سے پیٹ نہیں بھرتا
جو اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے ٹی وی ڈبیٹ میں چلے جاتے ہیں۔
دراصل آج کل سادھو اور پجاری خواتین کی آبروزی کے کیس میں بڑے پیمانے پر
پکڑے جارہے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ آشرم عیاشی کا اڈہ ہیں وہاں خواتین کا
استحصال بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ بیشتر باباؤں کے بارے میں آبروریزی کی
خبریں آتی رہتی ہیں جس سے ہندو ؤں کی بدنامی ہوتی ہے اس لئے علماء کرام کو
بلاکر ٹی وی پر حلالہ، تین طلاق مسلم خواتین کی مظلومیت جھوٹا رونا رو کر
یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ صرف ہندوؤں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ
مسلمانوں کے یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔اس واقعہ کے بعداگر مسلمانوں میں
تھوڑی سی بھی شرم باقی ہوگی تو ٹی وی مباحث میں حصہ لینے سے گریز کریں گے۔
|