آگاہی

اسلام کی اصل تصویر سے آگاہی"

اسلام و علیکم
تمام مسلمانوں سے عاجزانہ گزارش ہے کہ میرے اس مختصر پیغام پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے سرا ہیں نہ سہی تو اپنی ذات کا تجزیہ لازم و ملزوم کریں میں یہاں کسی پر تنقید کرنے نہ کسی کے خیالات کی تائید کے لیے تحریر کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں میں تو بس کمزور سہ احتجاج کرنے کی جرات کر بیٹھی ہوں دراصل میں سوچتی ہوں کہ "تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے" یہ خیال میرا اپنے حوالے سے ہے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی جہاں سب خود کو مسلمان تو بڑے آرام سے کہلواتے مگر ہر ایک الگ الگ فرقے سے منسوب نظر آتا دادا خود کو دیوبند کہتے تو دادی کی سوچ بریلوی والی اس ہی طرح والدہ دیوبند تو والد کا کسی ایک فرقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے میں نے سوچا کہ مجھے کسی کا پابند ہونا چاہیے تو خیال آیا کہ ماں جس سے منسوب ہے اس کی فالوور بن جاؤں اس طرح میرا شمار بھی دیوبند طبقے میں ہونے لگا میری اکثر اپنی سہیلیوں سے اس بات پر لڑائی ہوجاتی کہ وہ مختلف فرقے سے منسوب ہیں اس ہی طرح ہی اختلافات گھر میں بھی رہتا شاید میں اپنے فرقے سے مخلصی کا اظہار کچھ زیادہ ہی کرنے لگی ایک مرتبہ میں کالج سے واپسی پر تھی کہ اچانک ۷۰ سال سے کچھ اوپر کے ایک کمزور بزرگ پر نظر پڑی کمر کافی جھکی ہوئی تھی ہاتھ میں سامان کا تھیلا تھا جو بمشکل اٹھاۓ ہوۓ تھے میں نے سوچا کہ انکی مدد کروں میں نے سلام کیا اور ان سے کہا کہ آپ کا سامان میں اٹھالیتی ہوں انہوں نے سلام کا جواب دیا اور انکار کرنے لگے میرے دو تین بار کے اسرار کے بعد سامان میرے ہاتھ میں دے دیا میں نے پوچھا کی آپ کہاں رہتے ہیں انکل تو انہوں نے رستہ بتایا گھر آنے میں تھوڑی دیر تھی میں نے ان سے اپنی فطرت کے مطابق یہ پوچھا کہ آپ دیوبند ہیں تو وہ مجھے چند ثانیہ دیکھنے کے بعد بولے "نہیں"
" اوہ تو آپ بریلوی ہونگے" میں نے تجسس سے پوچھا انہوں نے پھر نفی میں سر ہلادیا میں نے کہا کہ آپ شاید اہلِ تشیع طبقے سے منسوب ہونگے
"نہیں بھئی " انہوں نے لرزتی آواز سے کہا میں نے کئی اور فرقوں کے نام دھردیے انہوں ہر بار ہی انکار کیا پھر میں نے جھنجلاتے ہوۓ پوچھا کہ آپ مسلمان تو ہیں ناں؟؟ انہوں نے دکھ سے آہ بھری اور کچھ دیر بعد کہا "کاش تمھارا پہلا اور آخری سوال یہی ہوتا " اس ہی دوران انکا گھر آگیا اور وہ فی امان ﷲ کہ کر چلے گۓ اور میں بھی گھر آگئی میں نے فریش ہوکر نماز پڑھی اور کھانا کھا کر سو گئی۔۔

اندھیری رات میں بالکل تنہا کھڑی کچھ ڈھونڈتے ڈھونڈنے میری آنکھیں جلنے لگیں اور اچانک موجودہ ہلکی روشنی بھی نابلد مجھے اندھیرے سے خوف آیا اور رونے لگی اچانک خود سے کچھ دور ایک پرنور روشنی نظر آئ میں نے وہاں جانے کے قدم بڑھاۓ بہت دیر بعد اندازہ ہوا کہ جہاں سے چلنا شروع کیا تھا اب تک وہیں ہوں میں بھاگنے لگی تو روشنی اور دور ہوگئ میں تھک کر وہیں بیٹھی رونے لگی اور میری آنکھ کھل گئی نمازِ عصر کا وقت ہوچکا تھا اور میں سردیوں کی ٹھنڈی شام میں بھی پسینہ پسینہ تھی مجھے عموماً اس وقت خواب نہیں آتے تھے اور آتے بھی تو کوئی خواب اتنا پراسرار نہیں دکھا میں نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز ادا کی نماز کے بعد جب میں جاۓ نماز اٹھانے لگی تو وہ بوڑھے انکل ذہن میں آۓ
"کیا مطلب تھا انکل کا" میں پرسوچ تھی
اچانک ذہن میں خیال آیا کہ وہ ناراض تو نہیں ہوگۓ مجھ سے میں نے بے دھڑک ان کے فرقے کے متعلق پوچھ لیا کچھ لوگ بتانا پسند نہیں کرتے انہیں دونوں میں تھی امی نے آواز دی۔

اگلی دوپہر کالج سے واپسی پر وہ پھر نظر آۓ میں نے سوچا کل والی بات کے لیے ان سے معذرت کر لوں میں فوراً انکے پاس پہنچ گئ
اسلام و علیکم انکل؛ میں نے جھجکتے ہوۓ سلام کیا کہ ناراضگی کے باعث جھڑپ نہ ہو جائے
وعلیکم السلام بیٹی کیسی ہو؟؟ انہوں نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا
" الحمدللہ بالکل ٹھیک ہوں دراصل مجھے آپ سے کل کے لیے معذرت کرنی تھی " میں نے پھر عجلت کی
" کس بات کے لیے بیٹا " انہوں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
"وہ فرقے کی بات پر" میں شرمندگی سے کہنے لگی
" نہیں بیٹا اس میں تمھارا قصور نہیں ہے یہ تو اب بہت عام سی بات ہوگئی ہے " انہوں نے افسوس سے کہا میں خاموشی سے کچھ سوچتے ہوۓ بولی
" انکل کل یہاں سے گھر جاکر میں سو گئے تھی مجھے بہت عجیب خواب نظر آیا میں نے انہیں تمام احوال بتادیا "
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا " خوش نصیب ہو جو آگاہی کے رستے کھلنے لگے ہیں ورنہ کتنے اس نفرت کی آگ میں جھلس کر مرگۓ" ان کی بات میرے سر سے گزر گئے
" بیٹا جس روشنی کے حصول کے لیے بھاگ رہی ہو وہ نفرت کے دائرے میں رہتے ہوئے کبھی حاصل نہیں ہوگی اپنوں سے بیگانگی مت کرو روزِ محشر مسلمان بن کر اٹنا ہے یہ دیوبند و بریلوی کا جھنڈا لہرانا ہے؟ ﷲ نے مسلمانوں کے لیے اسلام بھیجا ہے فرقوں کی بنیاد پر اگر سزا و جزا کا فیصلہ ہوتا تو فرقہ پرستی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نہ ہوتی مجھے معلوم ہے کہ جس حد تک یہ نفرت پھیل چکی ہے اسے مکمل طور پر بدل دینا ہمارے ہاتھ میں نہیں مگر اپنی ذات کا تجزیہ اپنے قلب کو نفرتوں سے پاک کرنا ہمارے بس میں ہے ہاں اختلافِ راۓ کا حق ہے مگر اس اختلاف میں اتنا آگے نہ پہنچ جانا کہ اصل مقصدِحیات کہیں گم ہو جاۓ مجھے امید ہے کہ میری بات بری نہیں لگی ہوگی اسلام کو محبت و خلوص سے آگے بڑھاؤ پھر دیکھنا کہ تم نہیں وہ روشنی خود تمھارے پاس آۓگی چلو میں چلوں اپنا خیال رکھنا " مجھے لگا کہ شاید کسی نے کھینچ کر مجھے میری ذات کی انا سے باہر نکالا ہے میں کافی دیر اس پیڑ کے نیچے بیٹھی یہی سوچتی رہی کہ اگر میں بھی غفلت میں جیتی رہتی اگر مجھے آگاہی نہ ملتی تو میں کیا کرتی روزِ محشر یہ کہتی کہ ایک فرقے کا ٹیگ لگاکر آئی ہوں مجھے بخش دے ایسے کئ خیالات ذہن میں آۓ پھر اچانک وقت کا دھیان آتے ہی رب کا شگر ادا کیا اور گھر کی طرف قدم بڑھادیے۔۔۔

"اس فرضی کہانی کی تحریر کا مقصد دنیا میں پھیلی ہوئی فرقہ واریت کو فروغ دینا ہرگز نہیں ہے مقصد یہ کہ ہم پوری سوسائٹی کو بدلنے کا صرف ارادہ کر سکتے ہیں مگر اپنی ذات کو اس انا کے پنجرے سے آذاد کرنا اور سہی رستے کا انتخاب کرنے سے ہم مجبور نہیں ہیں کسی کی داد اور اعتراض پر میرا اختیار نہیں فی امان ﷲ"

Maham jawaid
About the Author: Maham jawaid Read More Articles by Maham jawaid: 3 Articles with 2100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.