تحریر: رقیہ فاروقی، راولپنڈی
اسپتال کی انتظار گاہ میں بیٹھ کر میں گردوپیش کاجائزہ لینے میں مشغول تھی۔
سامنے ڈاکٹر کے کمرے کے باہر مریضوں کی لمبی لائن کافی دھمک پیل کے بعداب
کافی پر سکون دکھ رہی تھی:ہر ایک رپورٹس کی فائل پکڑے ادھر ادھر بھاگ رہا
تھا۔ ابن آدم کی عجلت مضحکہ خیز منظر پیش کر رہی تھی۔میں انہماک کے ساتھ اس
ساری صورتحال کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچی کہ شایدیہ بھاگ دوڑ ایام زیست
کو بڑھا دے گی یا ابن آدم کی پریشانیوں کامداوا ثابت ہو سکے گی؟
اسی اثناء میں میرے پہلو میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت دھم سے آکر بیٹھ گئیں۔
میری توجہ کچھ بٹ گئی،سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ مختصر سلام دعا کے بعد سلسلہ
گفتگو آگے بڑھا۔ تو وہ بتانے لگی کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ آء ہوں۔ میں نے
ان کی خیریت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ ایک آسودہ حال گھرانے کی خاتون
ہیں۔تمام بچے اپنے گھروں میں خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی والدہ
کے حق سے بھی بے خبر نہیں ہیں، لیکن ایک بے نام اور انجان بے چینی ان کے
وجود سے چمٹ گء ہے۔ معمولی بات آنسوؤں کی برسات کا سبب بن جاتی ہے جس کی
وجہ سے ساری اولاد پریشان حال تھی۔
یہ ایک گھر کا قصہ ہے۔ دنیا میں ایسے کتنے ہی گھرانے ہوں گے۔جو محلات کی
طرح بظاہر سجے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن مکینوں کے لئے زندہ قبریں بن جاتے ہیں۔
کوئی اچانک کی پڑی افتاد۔۔۔ چاہے اپنی ذات پر ہو یا اپنے پیاروں پر۔۔۔۔ لذت
زیست چھین لیتی ہے، پھر انسان زندہ لاش بنا پھرتا ہے۔ ہسپتال میں گزرے چند
گھنٹے مجھے یہ باور کروا گئی کہ انسانوں کی کثرت اس المیے کا شکار ہے۔ ہر
دوسرے شخص میں ناشکری کا عنصر نمایاں ہے۔ ہر کوئی رب کریم سے اس چیز کا
گمان باندھے ہوئے ہے۔ جس کی اس کو طلب ہے ، جہاں نہیں ملا وہیں ڈپریشن کا
مرض پال لیا جاتا ہے۔
کوئی مال کے لئے پریشان حال ہے اور کسی کو اولاد کا غم وبال جان بنا ہوا ہے۔
امت کی یہ حالت دیکھ کر یہ یاد پڑا کہ بزرگ تو فرمایا کرتے ہیں کہ کلمہ گو
کو ڈپریشن ہو ہی نہیں سکتا، پھر ہر ہسپتال میں نفسیات کا شعبہ کیوں قائم ہے۔
کتنے کلمہ گو خود کشی جیسے کبیرہ گناہ کے مرتکب ہو کر جہنم کے مستحق بن
جاتے ہیں اور کتنے ہی انسان بغاوت اور سرکشی پر کمر باندھ لیتے ہیں۔ کوئی
یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتا کہ اصل سبب جان کر اس بے کلی کا مداوا کیا
جاسکے۔مومن کا دل تو غم دنیا سے بے نیاز ہونا چاہیے کیونکہ اس میں تو رب
بستا ہے، کائنات کا خالق ومالک۔۔۔۔پھر یہ دل ناتواں نہ جانے کیوں پریشانیوں
کے انبار اٹھا کر چشم کو اشکبار کرتا ہے اور انسان مایوسی کے پاتال میں
پاؤں پاؤں اتر جاتا ہے۔
ڈپریشن اس وقت ایک بڑا مسئلہ ہے۔وقتی طور پر پریشان ہونا کوئی اتنی بڑی بات
نہیں ہے یعنی پریشانی کی لکیر دماغ پر ابھر کر ختم ہو جائے۔ اس سے صحت پر
بھی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ جبکہ پریشانی کا حواس پر طاری کر لینا
روحانی اور جسمانی طور پر انسان کو متاثر کرتا ہے پھر بسا اوقات یہ ہسٹریا
کے مرض کا سبب بن جاتی ہے۔ انسان دماغی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔ خداداد
صلاحیتیں بے کار چلی جا تی ہیں۔ ایسے ٹینشن زدہ دماغ معاشرے کی اخلاقی
آلودگی کا سبب بن جاتے ھیں۔
اس گھٹن زدہ کیفیت سے دماغ کو آزاد کرنے کے لئے انسان یہ سوچ لے! کہ زندگی
اﷲ پاک کی نعمت ہے اس کی فرمانبرداری میں گزارنے سیہی ہمیں سکون دے سکے گی۔
جہاں انسان صراط مستقیم کی پٹڑی سے اترے گا وہیں مسائل کا عفریت اسے نگل لے
گا۔
چند روزہ عیش و آرام کے لئے مال کمانے کی خاطر وہ صحت خراب کر لے گا۔ اپنی
اولاد کا حق وصول کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق کچل ڈالے گا۔ کہیں یہ وہ اسباب
تو نہیں جو بے نام بے چینی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ نیند کی گولیاں کھا کر بھی
لذت آرام سے آشنا نہیں ہونے دیتے۔
ان پریشانیوں کا ایک سبب ناشکری ہے۔ انسان بھی عجب حیوان ہے کہ کمی کی لکیر
کو پیٹتے ہوئے نعمتوں کے انبار بھول جاتا ہے۔ مالی خسارہ کے سامنے اسے صحت
کی نعمت ہیچ نظر آتی ہے حالانکہ اسی صحت کو پانے کے لئے سارا مال لٹا دیتا
ہے۔ اپنے آپ کو خوش اور مطمئن رکھنے کے لئے ہمیں نعمتوں کو سوچنا ہو گا۔
مخلوق کے دکھوں کا مداوا کرنا ہوگا اور اپنے خالق کو راضی کرنا ہوگا۔
آئیے! آج سے اپنے آپ کو مایوسی کے اس عمیق گڑھے سے نکال کر ایک نئی زندگی
جینے کا عزم کریں۔ جہاں سے حسد اور کینہ کے جھاڑ جھنکار کو صاف کر کے
مسکراہٹوں کے گلاب اگائیں۔ تاکہ یہ بدحواس اور اداس انسانیت زندگی کی طرف
لوٹ سکے۔
|