روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کرنا اور وہاں زندگی
کے چند لمحات گزارنا ہر مسلمان کی دلی تمنا اور سچی خواہش ہے ۔ احادیث
مبارکہ میں بذات خود حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے زیارت مدینہ اور
قبر انور پر حاضری کی ترغیب دلائی ہے۔ مزید یہ کہ زیارت کرنے والوں کے لئے
احادیث مبارکہ میں بشارتیں بیان کی گئی ہیں۔روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں
جس مقام پر جسد انور موجود ہے اس مقام کا افضل و اعلیٰ ہونا متفقہ و مسلمہ
ہے۔ یادرہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر جس طرح آپ
کی حیات مبارکہ میں مسلمانوں پر فرض تھی اسی طرح دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے
کے بعد بھی فرض ، لازمی اور ضروری ہے۔ مسلمانوں کا طریقہ ہے کہ جب بھی حج
کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو ضرور بالضرور حج سے پہلے یا حج کے
بعد مدینہ منورہ میں بھی حاضری کا شرف حاصل کرتے ہیں کیونکہ زیارت روضۂ
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کرنا گویا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ
میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کے مترادف ہے۔حضرت حاطب رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے وصال(
ظاہری) کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (سنن
دار قطنی: ۲۶۶۸)اس کے علاوہ دیگر روایات میں بھی حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والے کے لیے شفاعت اور
جنت میں پڑوسی ہونے بشارتیں دی ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مکہ
مکرمہ میں حج کیا پھر اس نے میری مسجد میں قصد کیا اس کے لیے دو مبرور حج
لکھے جائیں گے۔(خلاصۃ الوفاء)حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت
کر نے آئے گا وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ (شعب الایمان: ۴۱۵۸)حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (الترغیب
والترہیب : ۱۶) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری
شفاعت واجب ہوگئی۔ (سنن دار قطنی: ۲۶۶۹) یہاں تک کہ اگر کوئی شخص صرف اس
لیے مدینہ جائے کہ اس کا مقصد اور نیت صرف روضۂ انور پر حاضری دینا ہوتو
ایسے خوش نصیب کے لیے بھی بروز قیامت شفاعت کی نوید ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص
میرے پاس زیارت کے لیے آیا، اس کے پاس میری زیارت کے علاوہ کوئی حاجت نہیں
تھی تو میرے اوپر اس کا حق ہے کہ میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں۔ (طبرانی)سفرِ
حج میں روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نہ کرنا گویا رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے ساتھ ناانصافی اور مذہب کی رو سے اصول کی خلاف ورزی کرنا ہے۔
یعنی یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناراض کرنے کے مترادف
ہے۔چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی بے شک
اس نے میرے ساتھ جفا کی۔
روضہ ٔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر حاضری کے آداب میں انتہائی اہم ادب یہ ہے
کہ زیارت کرنے والے کا رخ روضہ کی طرف ہو اور پیٹھ قبلہ کی جانب ہو ۔ عام
مشاہدہ اور معمول بھی یہی ہے کہ کسی بھی شخص کی زیارت کے لیے جایا جاتا ہے
تو چہرہ اسی کی جانب ہوتا ہے نہ کہ اس کی جانب پیٹھ کرکے سلام پیش کیا جاتا
ہے یا اس سے بات کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بزرگ کی زیارت کے لیے جائے
اور اس کی جانب چہرہ کرنے کے بجائے پیٹھ کرکے کھڑا ہوجائے اور اپنا مدعا
پیش کرنے لگے تو یقینا ہر صاحب عقل اس عمل کو بے ادبی میں شمار کرے گا۔ اسی
طرح جب عام حالات میں طرز عمل یہ ہو تو اس عظیم ہستی کی زیارت کے وقت وہی
طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جس میں ادب کا پہلو ہو۔ بے ادبی نہ ہو۔ لہٰذااسی
وجہ سے اسلاف اور علمائے کرام نے روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب چہرہ
کرنے کو ادب بتایا ہے۔ کثیر علماء، صلحاء ، مشائخ سے یہ بات پایہ ٔ ثبوت تک
پہنچتی ہے کہ نبی کریمصلی اﷲ علیہ وسلم کے رو ضہ مبارک کی حاضری کے وقت
چہرہ روضۂ انور کی طرف ہونا چاہیے۔علامہ سیدسمہودی روضہ ٔرسول صلی اﷲ علیہ
وسلم پر حاضری کے آداب میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ
علیہ اپنی مسند میں حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ:’’سنت یہ ہے کہ روضۂ مکرم کی طرف چہرہ ہو اور پیٹھ قبلہ کی جانب ہو۔‘‘(وفاء
الوفاء: ۴؍ ۱۸۳) علامہ زرقانی شرح المواہب میں فرماتے ہیں : ’’جہاں تک (روضۂ
انور کی طرف رخ کرکے ) دعا مانگنے کی بات ہے تو جمہور یعنی شوافع ، مالکیہ
اور احناف کے نزدیک اصح قول یہی ہے جو علامہ ابن الکمال بن ہمام نے فرمایا
کہ جودعا مانگنے کا ارادہ کرے اس کے لیے روضۂ انور کی طرف رخ کرکے اور قبلہ
کی سمت پیٹھ کرکے دعا مانگنا مستحب ہے۔‘‘ (شرح الزرقانی: ۱۲؍ ۲۱۴) علامہ
سیداحمد بن زینی دحلان لکھتے ہیں:شیخ طاہر سنبل نے اپنے رسالہ میں ذکر کیا
کہ فقہ حنبلی کے مفتی شیخ مکہ محمد بن عبد اﷲ بن حمید سے اس بارے میں فتویٰ
لیا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’حنابلہ کے نزدیک راجح قول یہی ہے کہ دعا
مانگتے وقت رخ روضۂ مبارک کی جانب ہو اور وسیلہ بھی مستحب ہے۔‘‘(الدرر
السنیۃ: ۲۶)
درج بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ چاروں مسالک کے ائمہ مجتہدین کے نزدیک
راجح قول روضۂ مبارک کی طرف رخ کرکے دعا مانگنا ہے اور یہی ادب کا تقا
ضاہے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ نے صریح اور واضح انداز میں روضۂ رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب پیٹھ کرنے سے منع فرمایا۔ علامہ قاضی عیاض مالکی
لکھتے ہیں:عباسی دور کے دوسرے خلیفہ جعفر المنصورحج کرنے کے بعد روضۂ انور
کی زیارت کے لیے آئے تو انہوں نے امام مالک رحمۃﷲ تعالیٰ علیہ سے سوال
کیا:’’میں کعبہ کی طرف متوجہ ہوکر دعا مانگوں یا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی
طرف متوجہ ہوکر دعا مانگوں؟‘‘حضرت امام مالک رحمۃﷲ تعالیٰ علیہ نے جواب میں
ارشاد فرمایا:’’کیوں تو اپنے چہرے کو ایسی ذاتِ گرامی سے پھیرتا ہے جو اﷲ
تعالیٰ کی بارگاہ میں تیرا وسیلہ بھی ہے اور تیرے والدحضرت آدم علیہ السلام
کا وسیلہ بھی ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو اور ان سے شفاعت
طلب کر۔ ‘‘ (الشفاء: ۲؍۴۱)
الغرض روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم انتہائی حساس مقام ہے جہاں ذرا سی بے
ادبی سے پوری زندگی کے اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور اس کا اندازہ بھی نہیں
ہوپاتا۔ لہٰذا اس مقدس مقام اور یہاں آرام فرما مقدس ہستیوں کی تعظیم و
توقیر اور آداب کا غایت درجہ خیال رکھنا ضروری ہے۔ اﷲ عمل کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ آمین۔ |