پروردگار نے اپنے آخری بنی محمد مصطفےٰﷺپر آخری آسمانی
کتاب قرآن مجید اتار کر تو حیدو رسالت کا کلمہ پڑ ھنے والو ں کو قیامت تک
کے لیے منا بطہ حیات رہنے دیا ۔ اس کتا ب میں خدانے ’’ما ضی حال اور مستقبل
‘‘ کی ایسی ایسی با تیں سمجھا ئیں ہیں کہ عقل انسانی رنگ ہے کیو نکہ اس میں
ما ضی کے قصے کھو ل کھول کر سنائے گئے ہیں ۔ انبیا ء اکر ام اور ان کی امت
پر نا زل ہو نے والے عذاب و ثواب کا نہ صر ف ذکر ہے بلکہ مستقبل کی بہتری
اور قرب الہٰی کے حصو ل کے نسخے بھی مو جو د ہیں ۔ آسمان وزمین اور انہیں
تسخیر کر نے کا پیغام بھی نما یا ں ہے اور اس بات کی تکر ار بھی ہے کہ مالک
کائنا ت نے زمین وآسمان کی کو ئی شے بے مقصد نہیں بنا ئی ۔
فرما ن الہٰی ہے کہ ’’اگراس کو ہم پہاڑ پر نا زل کر تے تو وہ ریز ہ ریزہ ہو
جاتا ‘‘ قربا ن محسن کا ئنات محبو ب خدا آقائے دو جہا ں حضرت محمد ﷺ پر
جنہو ں نے اپنی امت کی فلا ح وتر بیت کے لیے وصول کیا ۔ یہ حکمت ودانائی کا
پرو انہ ہے جو ہمیں آپ اور دنیا کے کو نے کو نے میں بسنے والے تو حید
ورسالت کے پر وانو ں کو نصیب ہو ا اس کی ’’ افادیت وخصو صیا ت‘‘ اپنی جگہ
یہ دنیا کی سب سے زیادہ پڑ ھی جا نے والی ایسی کتا ب ہے جس میں نزول سے اب
تک کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکی اس لیے رب العزت نے اس کی حفا ظت ذمہ
داری بھی خود رکھی ہے ۔ قرآن مجید ایک آسمانی کتا ب ہی نہیں زند ہ معجزہ ہے
جو اپنے چاہنے والو ں کی قدم قدم پر رہنما ئی بھی کر تا ہے اور اچھے بر ے
کی تمیز کے ساتھ ’’احترام انسا نیت ‘‘بھی سکھاتا ہے ۔ حلال و حرام سے
آشنائی دیتا ہے قتل و غارت گر ی کی نفی کر کے صلح جو ئی ، رواداری اور ایک
دوسرے سے محبت کا پر چار کر تاہے اور حضرت انسان کو خبر دار کر تاہے کہ
دنیا ایک عارضی پڑاؤ ہے اس کی رنگینیو ں میں گم نہ ہو بلکہ اس ’’نسخہ کیمیا
ء‘‘ سے فائدہ اٹھا تے ہو ئے رو ز’’ جزو سزا‘‘ کی تیاری کر و یعنی یہ زندہ
کتا ب ہے زندو ں کے لیے ہے ، اسے پڑ ھو ، سمجھو اور دو سرو ں کو بھی پڑ ھا
ؤ ۔۔۔ مالک کل اﷲ تعالیٰ نے ’’قران مجید کا رعب وجلا ل کا تذکر ہ اس لیے
کیا ہے کہ ’’توحید و رسالت ‘‘پر ایمان رکھنے والے اہمیت وفضیلت سے آگا ہ ہو
جا ئیں لیکن یہ بھی حقیقت سب پر عیا ں ہے کہ محبو ب خدا حضور اکر مؐ پر نا
زل ہو نے کے بعد ’’امت مسلمہ ‘‘ کے لیے یہ رعب و جلال ‘ کی بجائے ایسی
ٹھنڈک ثا بت ہو ئی کہ ان گنت الفاظ اسے بخو شی ورضائے اسے اپنے سینے میں
لیے پھر رہے ہیں بلکہ ہمارے چھوٹے چھوٹے معصو م بچے بھی اسے با آسانی حفظ
کر لیتے ہیں ، یہ بات بھی کسی معجز ے سے کم نہیں ۔
قرآن کریم کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی بر کتو ں اور رحمتو ں کے مہینے رمضان
المبارک کے آخری عشرے میں جہنم کی آگ سے مخصو ص رہنے کے لیے نا زل فرمایا
اورکہا یہ لیلتہ القدر کی رات ہے اسے طاق راتوں میں تلا ش کر و ، کیو نکہ
اس رات کی عبادت دوسری راتوں سے افضل ہے یعنی یہ رات قدرو منزلت اور رتبے
والی ہے جس میں قرآن کر یم کو نا زل کیا گیا ۔ قرآن کی رو سے ہر کلمہ گو
مسلمان ہے اور ہر مسلمان کے لیے تقویٰ اختیار کر نا نا گزیر ہے ، اس آسمانی
کتا ب میں اﷲ تعالیٰ نے اولاد آدم کو باربار خبردار کیا ہے کہ ہدا یت تقویٰ
سے مشرو ط ہے تم میں کسی کو کسی پر فو قیت حا صل نہیں لیکن متقی دوسرو ں سے
بہتر ملے ۔ اس کتا ب خدا وند ی میں شک وشبہ کی کو ئی گنجا ئش نہیں ، یہ
جستجو قر ب الہٰی اور اﷲ سے ڈرنے والو ں کے لیے ’’صراط مستقیم ‘‘پر گامزن
کر تی ہے ۔
یہ زندہ کتا ب زند ہ لو گو ں کے لیے با عث نجا ت ہے ایک مکمل ضا بطہ حیات
ہم اسے مانتے ہیں ، جا نتے ہیں لیکن جس نے ہمارے لیے تحفہ بھیجا ، اس کی
نہیں مانتے ،۔ وہ پر ودگار ، آقا و ما لک اور رحمان ورحیم سے ہم ڈر تے بھی
ہیں ، جنت کی تمنا ، بھی کر تے ہیں لیکن اپنے رب کے نسخہ کیمیاء پر دھیان
نہیں دیتے ، ہم احترام میں اسے کسی اونچی جگہ ’’طاق ‘‘یا الماری میں سجا
دیتے ہیں صرف اس خو ف سے کہ کہیں اس صحیفہ کی بے ادبی نہ ہو جا ئے ، اسے
اپنی پر یشانیو ں اور بیماری کا علا ج بھی جا نتے ہیں لیکن خطر نا ک دواؤ ں
کی بنا ء کی طر ح ڈاکٹر کی ہدا یت کے بچو ں کی پہنچ سے دور رکھتے ہیں جبکہ
حکم اسے بار بار سمجھ کے ساتھ ’’پڑھنے اور پڑ ھانے‘‘ کا ہے ۔ یہ کتا ب
الہٰی زند گی کو دنیا اور آخر ت میں کا میابی کی کنجی ہے اورہم اسے زند گی
ہارنے والے مردو ں کیلئے نجات کا تعو یز سمجھتے ہیں ۔
کتاب کی رو ح اور اقوال محسن کا ئنا ت کی رو شنی میں خالق حقیقی اپنی مخلو
ق سے شدید محبت ’’کتا ب ‘‘ کی رو ح اور اقوال محسن کا ئنا ت کی رو شنی میں
خالق حقیقی اپنی مخلوق سے شدید محبت کرتا ہے لیکن اس نے نسل آدم کو اشرف
المخلو قات ، عقل و دانش دے کر دنیا میں فتو حات اور دوسرو ں کی بھلائی کے
لیے بھیجا ہے ، وہ اپنے بندے کی تما م تر صلا حیتو ں سے واقف ہے ، اس لیے
مغفرت کرنے والا ہے ، اسی لیے اس نے تو بہ کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور
اپنے مہینے رمضان میں پکارتاہے کہ کو ئی ہے رحمت کا طلبگار کوئی ہے جو
مغفرت کی تمنا رکھتاہے ، کوئی ہے جو جہنم کے عذاب سے بچنے کا خوا ہشمند ہے
۔ اس نے آدمی کو انسان بنانے کے لیے قرآن حکیم کی مختلف آیات قرآن حکیم کی
مختلف آیات میں قسم کھا کھا کر ہد ایت ، اچھا ئی اور برائی سے بچنے کی راہ
دکھائی ہے لیکن ہم ’’ضا بطہ حیا ت ‘‘ کو عقید ت واحترام میں صرف سنبھا لے
بیٹھے ہیں ۔ بچیو ں کو تعلیم دیں یا نہ دیں ، وقت رخصتی سے قرآن عظیم کے
سائے میں رخصت ضرور کر تے ہیں اور وہ بھی سسرال جاکر اسے عزت واحترام کے
ساتھ الماری میں سجا دیتی ہے حا لا نکہ حکم پڑ ھنے ، پڑھانے سمجھنے اور
سمجھا نے کا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے کہ ’’قسم ہے زمانے کی انسان کھانے میں
ہے ‘‘پھر بھی ہم زمانے کی رنگینیو ں میں گم مست ہا تھی کی زند گی گزارنے
میں مگن ہیں ۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ تم اپنے رب کی کو ن کو ن سی نعمت کو
جھٹلا ؤ گے ‘‘ہم نعمتو ں کا حق بڑی شان سے استعمال کر تے ہیں لیکن متقی اور
پر ہیز گار ہونے کی بات انتہا ئی ڈھنا ئی سے نہیں مانتے بلکہ فخریہ کہتے
نظر آتے ہیں کہ رب معا ف کر نے والا ہے تو بہ کے درو ازے کھلے ہیں بند ہ جب
چاہے گا معافی مانگ لے گا۔ صیح وہ رب ہے مالک کائنا ت کا بندے سے کیامقابلہ
؟ لیکن زندگی بے ہند گی ۔ شر مند گی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، اس لیے
’’ضابطہ حیا ت ‘‘ قرآن مجید کا اس کا حقیقی مقام دینا ’’کلمہ گو ‘‘کا فرض
ہے لیکن ہم اس فریضہ سے نظر یں چراتے ہیں کیا یہ بے حر متی نہیں ؟ ۔۔۔ |