عید الا ضحی کی آمد آمد ہے ،اس دن اﷲ عزول انسان سے چاہتا
ہے کہ وہ خدا کے قر بت کی نیت سے جا نور ذبح کر کے اسکا قرب حا صل کرے ۔ یہ
عید حضرت ابر اہیم ؑ اور ان کے فرزند حضر ت اسماعیل علیہ اسلام کے واقعے کی
جا نب اشارہ کر تی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ
چلتا ہے کہ یہ عید اسی قربانی کی یاد میں منائی جا تی ہے جسے ابر اہیم ؑ نے
اﷲ کا قرب حا صل کر نے کے لیے اسکی بارگا ہ میں پیش کیا اورا سکی راہ میں
اپنے بیٹے کو ذبح کر نے پر آما دگی کا اظہار کیا اور اسماعیل علیہ اسلام
جیسی محبو ب ہستی کی قربانی پر آما دگی کا اعلان کر کے اس بات کا اظہار کیا
کہ وہ اﷲ کی راہ میں اپنی جا ن فدا کر نے پر بھی تیار ہیں ۔ اسی منا سبت سے
سنت ابراہیمی کی پیروی کا خو اہشمند وطن عزیز کا ہر کلمہ گو اسی کو شش میں
ہے کہ کسی طر ح اس کی مالی گنجا ئش کے مطا بق قر بانی کا جا نور میسر آجا
ئے تو اس فریضے کی ادائیگی ممکن ہو سکے ۔ اس فریضے کی ادا ئیگی کا فلسفہ
اگر سمجھ میں آجا تے تو یقیناََ اس کا اثر عملی زند گی میں بھی نظر آنے لگے
گا۔ رضا ئے الہٰی کے لیے کیے جانے والال کی جاتی تھی ۔ لیکن اسلامی تہو ارو
ں نے عر ب رسو م ورواج اپنی جگہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس قوم کی ایسی تربیت
بھی کی کہ ان کی زند گیاں ایثار قربانی کا نمو نہ بن گئیں ۔ اسلام میں عید
الفطر بقر عید عیش و عشرت یا دولت کی نمو دو نما ئش کا نا م نہیں بلکہ اپنی
ضروریا ت اور خواہشات کو قربان کر کے غربا اور مساکین میں خو شیا ں با نٹنے
کا نام ہے ۔ اس دن کو صر ف سیر و تفریح اور دو ست واجبات سے ملنے جلنے کا
دن بنا ئے بیٹھے ہیں یا شکر انے کے طورپر اس دن کے ہر پل کو رضا ئے رب میں
گزار رہے ہیں ۔
حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ ذی الج کا پہلا عشرہ انسا نی زندگی کا بہترین
عشرہ ہے ۔ اس عشرے میں وہ نیکیو ں کا انبار لگا سکتا ہے لیکن کیا ہم نے
کبھی احتساب کیا کہ ہمارا عمل رب چاہی ہے یا من چاہی ہم لہو لعب میں سارا
وقت گزار دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قربانی کا حق ادا ہو گیا ۔ حضرت
ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسولؐ نے فرمایا کہ ’’ان دس دنو ں
سے بڑ ھ کر اور کو ئی دن نہیں جن میں نیک عمل اﷲ کو زیادہ محبو ب ہو ں ، پس
ان دنو ں میں تکبیر و تحمید کثرت سے کر و ‘‘
|