میں اور قلم

میرے افسانے اتنے متنازع تو نہیں مگر شائد میں خود متنازع ہوں حالانکہ میں نے کوی تنازع کھڑا نہیں کیا کسی کی زندگی میں کبھی مداخلتِ بے جا نہیں کی کبھی ادھر کی اُدھر کرنے کا شوق نہیں رہا جو کرنا ہوا خاموشی سے کرتا گیا میرے والد نے کہا پڑھو تو میڈیکل کولج میں خدا کے فضل سے داخلہ میرٹ پر لیا اور انہوں نے کہا چھوڑ دو تو چھوڑ دیا مگر دوستوں کی راے سے چھوڑنےکا ارادہ متزلزل ہوا تو خدا یاد آیا اور خدا کو ڈھونڈنے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گیا بجاے اپنی شہ رگ کے قریب جانے کے
ڈھونڈتا ہے آپ کوخود سے پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے

مولوی صاحب بڑی شفقت سے پیش آے اور گلے ملنے پر احساس ہوا کہ مولوی صاحب سے ملنا ہو تو اُن کی وسیع توند سے پہلے ملنا ہوتا ہے اور ان کی وسیع معلومات بعد میں نصیب ہوتی ہیں اور میں اس وقت یہ سمجھتا تھا کہ مولوی صاحب کی نیکیوں کی وجہ سے ان کا رزق بڑھ گیا ہے اور ساتھ میں وزن بھی اور ہم جیسے خطا کاروں کی کمر وافر کھانے کے بعد بھی سیدھی کی سیدھی کہ ناپ کی پتلون بازار میں نہ ملنے کی وجہ سے بار بار اوپر کرنی پڑے حفاظتی بیلٹ کے باوجود میں نے استخارے کی درخواست پیش کر دی تو انہوں نے طریقہ بتا کے جان چھڑا لی اور سات دن تک پڑھتا رہا مگر دل ایک طرف نہ ہوا اور خواب میں بھی میڈیکل کالج کی لڑکیاں ہی نظر آتی تھیں اور اُن کا ذکر مولوی صاحب سے نہ کیا جاسکتا تھا کیونکہ مجھے عزت بھی عزیز تھی اور اس سے زیادہ عورت عزیز تھی اور وہ کوی قریبی عزیز تھی اور سیکھی میں نے تمیز تھی اور ڈھیلی میری قمیض تھی

آخر ان کو ہی استخارہ کرنا پڑا اور ایک اشارہ بتایا جس کو میں نے عقل یا اپنی خواہش کے مطابق سمجھا مگر سچ پوچھیں تو میرا جھکاو باپ کی طرف تھا کہ وہ غلط نہیں کہہ سکتا اور پھر تقدیر کاروبار کی طرف لے جارہی تھی جو کہ والد چاہتے تھے
اور میرے ایک مخلص کزن جو ڈاکٹر تھے سمجھاتے ہی رہ گئے اور والد اُن کو سمجھاتے رہے اور میں نے سمجھنے سمجھانے کو چھوڑ کر آسان رستہ اختیار کر لیا جو شائد بہتر ہی ہو گا میرے لیے
بات افسانے کی ہو رہی تھی تو اس پر یاد آیا کہ کوی واقعہ ایک دن میں نہیں ہوتا اس کی بنیاد زندگی میں بہت پہلے کی رکھی ہوی ہوتی ہے مگر ہمیں پتہ نہیں ہوتا جیسے پرویز اختر کو سنا ایک دفعہ کہ انہوں نےکہا کہ برسوں آپ کے ذہن میں جو کچھ جما ہوتا ہے وہ بعد میں پگھل کر تحریر یا شاعری کی صورت میں آتا ہے اور حال ہی میں ایک میری قاری خاتون نے کہا کہ لکھتے رہیے اچھا لکھتے ہیں اور یہ آپ نہیں لکھ رہے آپ سے لکھوایا جا رہا ہے جو میں انکا مطلب پوری طرح نہ سمجھ پایا

خوش قسمتی سے نوجوانی میں کچھ اچھے ادیبوں کی کتابیں ہاتھ لگ گئ تھیں جو بہت شوق سے پڑھیں جب میرے ہم عمروں میں کوی بھی یہ شوق نہ رکھتا تھا اور میں نے بھی دو چار ہی پڑھی ہونگی اور پھر کاروبار زندگی میں ایسا پھنسا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور اب اچانک لکھنے کا شوق اُبھر آیا اور ابھی ابتدای منزل پر ہوں اور انتہای منزل کی تمنا ہے
دعا ہے کہ قلم کا ذوق جاری رہے اور قلم اور علم کا ذکر تو خدا نے بھی فرمایا ہے

اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
جس نے قلم سے سکھایا۔

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 264904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.