پُر سکون زندگی کے مزید تین اُصول

میرے ایک دوست کو سیلف ہیلپ والی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، اِن کتابوں میں کامیابی کے نسخے دئیے ہوتے ہیں، زندگی گزارنے کی ترکیبیں بتائی جاتی ہیں، حقیقی مسرت حاصل کرنے کا راستہ سمجھایا جاتا ہے، دنیا میںپر جوش طریقے سے رہنے کا ڈھنگ سکھایا جاتا ہے اور اپنے اندر پوشیدہ طاقتوں کو ’’ان لاک‘‘ کرنے کے گُر بتائے جاتے ہیں۔ میرے دوست نے کافی عرصے تک یہ کتابیں پڑھیں اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اُن ہدایات پر عمل کیا جو اِس قسم کی کتابوں میں لکھی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک کتاب میں اُس نے پڑھا کہ کامیاب انسان ہونے کے لئے اچھا انسان ہونا ضروری ہے اور ایک اچھا انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے کام کو اپنا کام سمجھے اور پوری نیک نیتی کے ساتھ لوگوں کی مدد کرے۔ اس بات کو موصوف نے پلے سے باندھ لیا جس کے حیرت انگیز نتائج نکلے۔ جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا وہاں کا ہر کام اُس کے ذمے لگ گیا، اُس کی میز پر فائلوں کے ڈھیر لگ گئے، وہ رات گئے تک دفتر میں فائلوں میں سر کھپانے لگا، اُس کے کولیگز نے اُس کی خوش اخلاقی سے متاثر ہوکر اپنے ذاتی کام بھی اُس کے ذمے لگانے شروع کر دیئے، صبح سویرے جب وہ بستر سے اٹھتا تو کاموں کی ایک طویل فہرست اُس کے ہاتھ میں ہوتی یار صبح آتے ہوئے میرے بچے کی فیس بھرتے آنا ۔۔۔جان برادر ذرا...... سوئی گیس کے دفتر میں

کوئی واقفیت تو نکالو میں نے اپنے سالے کے گھر گیس کا کنکشن لگوانا ہے...... یار میری بھتیجی کا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ہوا اپنے سسر کو کہو کہ ہمارے ساتھ ڈین کے دفتر چلیں آخر وہ اُن کے بچپن کا دوست ہے کچھ لحاظ کرے...... بیوی کے بتائے ہوئے کام اِس کے علاوہ ہوتے اور خود اُس کے ذاتی کاموں کو نمٹانے کی تو کبھی باری ہی نہ آتی۔ ایک مہینے میں اُس کی حالت ایسی ہو گئی جیسے کوئی برسوں کا بیمار ہو۔ آج کل موصوف اسپتال میں داخل ہیں جہاں اُن کے دماغ کا علاج جاری ہے، کبھی کبھار اچانک پلنگ سے چھلانگ لگا کر اٹھتے ہیں اور آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر نعرے لگاتے ہیں کہ ہاں میں کر سکتا ہوں، مجھ میں پوشیدہ طاقت ہے، میں کامیاب ہو سکتا ہوں...... سرہانے سیلف ہیلپ کی ایک نئی کتاب دھری ہے جس کا عنوان کچھ اِس قسم کا ہے کہ ایک نئی زندگی کی شروعات کیسے کی جائیں!

خدا جانتا ہے کہ میرا ارادہ سیلف ہیلپ کی کتابوں کا ’’توا لگانا‘‘ نہیں ہے، مجھے تو خود یہ کتابیں بہت پسند ہیں، ان میں ایسے مزے مزے کی باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ بندہ پڑھتے ہوئے جھوم اٹھتا ہے، مصیبت مگر یہ ہے کہ اِن کتابوں میں درج ہدایات پر عمل کرنا خالہ جی کا گھر نہیں، مثلاً کامیابی کی کُنجی انتھک محنت، ڈسپلن، ورزش، ٹائم منیجمنٹ، مثبت سوچ اور درست منصوبہ بندی ہے۔ یہ تمام باتیں ٹھیک ہیں مگر اِن پر عمل کون کرے! میرا بھی دل کرتا ہے کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے میں اگلے دن کی پلاننگ کرکے لیٹوں (ایسا میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا) تاکہ صبح اٹھتے ہی کسی چوکس انسان کی طرح اُن کاموں میں جُت جاؤں اور شام تک سب کچھ نمٹا کر سکون کے ساتھ مالٹے کا جوس پیوں اور ٹینس کھیلوں۔ خدا کو جان دینی ہے، آج تک میں ایسا نہیں کر پایا اور نہ ہی آئندہ ایسی پھُرتیلی زندگی گزار پاؤں گا۔ تاہم اپنی بیزار اور سُست طبیعت کی وجہ سے میں نے تین ایسے اصول سیکھ لئے ہیں جن پر عمل کرنا بھی آسان ہے اور جس کے ذریعے آپ اپنی زندگی پُرسکون بھی بنا سکتے ہیں۔
پہلا اصول، Monkey Management۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جب صبح اٹھتے ہیں تو اُن کے کاندھوں پر کاموں کا ایک بوجھ ہوتا ہے، دن گزرنے کے ساتھ ساتھ کام بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اِس بوجھ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، شانے ڈھلک جاتے ہیں، گردن جھک جاتی ہے، کاموں کی فہرست طویل ہوتی چلی جاتی ہے اور نتیجے میں سکون غارت ہو جاتاہے۔ آپ اِن کاموں کو ’’منکی‘‘ کہہ لیں۔ ہوتا یہ ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا آپ کو کام کہتا ہے اور آپ وہ کام کرنے کی ہامی بھر لیتے ہیں ، گویا وہ کاندھوں سے اپنا ایک منکی اتار کر آپ کے کاندھوں پر رکھ دیتا ہے، اس کے بعد آپ کا باس دفتر کا کوئی کام آپ کے ذمے لگا دیتا ہے، یہ ایک دوسرا منکی آپ کے کندھے پر سوار ہو گیا، صبح بیگم صاحبہ نے بھی کوئی نہ کوئی کام کہا ہوتا ہے، اس طرح ایک اور منکی کاندھوں پر بیٹھ گیا، ہوتے ہوتے آپ کے کاندھوں پر کئی منکی سوار ہو جاتے ہیں اور آپ انہیں اپنے سر سے اتار نہیں پاتے، یہ منکی آپ کو جینے نہیں دیتے، کبھی آپ کا دوست اپنے کام کا پوچھتا ہے، کبھی باس باز پرس کرتا ہے تو کبھی بیوی یاد دلاتی ہے۔ اس کا حل منکی منیجمنٹ میں ہے۔ فرض کریں کہ آپ کے کسی قریبی دوست نے اپنے بیٹے کو نوکری لگوانے کا کام آپ کا کو کہا ہے، الفاظ کچھ اس قسم کے ہیں ’’جان برادر، اپنے بھتیجے کو کہیں کوئی سرکاری نوکری لگوا دو، بس یہ کام تمہارے ذمے ہے، میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ اس سے پہلے کہ یہ منکی آپ اپنے سر لیں، آپ نوکری کے متلاشی اُس بچے کو کہیں کہ ایک اچھا سا سی وی تیار کرے اور انگریزی میں لکھے ایک خط کے ساتھ منسلک کرکے آپ کو ای میل کردے اور ساتھ ہی سرکاری محکموں میں اسامی خالی ہے کے اشتہارات دیکھ کر اپنی اہلیت کے مطابق درخواست ڈال دے اور اُس کے بعد آپ کو مطلع کرے۔
اب یہ منکی آپ کے گلے سے اتر کر واپس وہیں چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ نے اسے ٹرخا دیا، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے حصے کا کام مکمل کرے پھر آپ کا کام شروع ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اپنے باس اور بیوی پر آپ یہ ٹیکنالوجی استعمال نہیں کر سکتے مگر جب آپ منکی منیجمنٹ میں استاد ہو جائیں گے تو اُس کے بعد آپ کے پاس باس اور بیوی کے کام نمٹانے کا وافر وقت بچ جایا کرے گا۔ سو منکی منیجمنٹ کی بنیادی تکنیک یہ ہے کہ اپنے سر پر کم سے کم منکی سوار کریں، دوسروں سے اُن کے حصے کا کام کروائیں، آپ کی زندگی میں سکون رہے گا۔

پرسکون زندگی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ روزانہ صرف ایک ایسا کام کریں جس سے آپ کو یہ اطمینان ہو کہ آج کا دن ضائع نہیں ہوا۔ جب ہم سیلف ہیلپ کی کتابوں میں لکھے طریقوں کے مطابق اپنی زندگی بہت زیادہ ڈسپلن کرنے کی کوشش میں Things to doکی فہرست بنا کر ہر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آخر میں کوئی ایک کام بھی مکمل نہیں کر پاتے۔ بہتر یہ ہے کہ روز صرف ایک ڈھنگ کا کام کریں، یہ کام کچھ بھی ہو سکتا ہے، مثلاً اچھی کتاب کا مطالعہ کرنا، کسی صاحب دانش سے ملاقات کرنا، اہم کاغذات کو ترتیب سے رکھنا، پرانے کپڑوں کو عطیہ کرنا، گھر کا کاٹھ کباڑ تلف کرنا...... اگر آپ ان میں سے صرف ایک ہی کام کریں تو مہینے کے تیس دن بعد آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ جن کاموں کو آپ کئی برس سے التوا میں ڈال رہے تھے وہ اگر مکمل نہیں ہوئے تو کم ازکم شروع ضرور ہو چکے ہیں۔ زندگی میں حد درجے سکون محسوس ہوگا۔
تیسرا اصول۔ مستقبل کے خوف سے جان چھڑائیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اچھی خاصی زندگی کو محض یہ سوچ کر عذاب میں ڈال دیتے ہیں کہ کل نہ جانے کیا ہوگا حالانکہ یہ لوگ اگر اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالیں تو انہیں احساس ہوگا کہ وہ صفر سے سو تک ترقی کر چکے ہیں مگر انجانا خوف انہیں جینے ہی نہیں دیتا۔ زندگی کی منصوبہ بندی ضرور کریں، مستقبل کے لئے کچھ بچا کر بھی رکھیں مگر کسی ان دیکھے خوف کی وجہ سے لمحہ موجود کو برباد نہ کریں، جو مستقبل میں ہونا ہے وہ آپ کے ہاتھ میں نہیں مگر آج کے قیمتی وقت کو ضائع نہ ہونے دینا ضرور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ خوش رہیں۔

Muhammad Shoaib Tanoli
About the Author: Muhammad Shoaib Tanoli Read More Articles by Muhammad Shoaib Tanoli: 67 Articles with 115221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.