شروع کرتا ہوں اﷲ پاک کے با برکت نام سے جو نہایت رحم
کرنے والا ہے ،دیکھتی آنکھیں ، یہ شان و شوکت یہ دولت شہرت آج تیری کل میری
ہے اگر آج میری تو کل تیری ہے، رب کائنات کا فرمان مبارک ہے ’’ بے شک انسان
گھاٹے میں ہے ‘‘آیت نمبر 2سورۃ العصر،یہ دنیا ایک فریب ہے اس میں خود کو
تباہ نہ کیجئے ،انسانی تاریخ عجیب و غریب قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور
انسانوں سے ایسے ایسے واقعات منسوب ہیں جن کو انسانی ذہن تسلیم کرنے اور
عقل قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ،لیکن انسانی عقل کے تسلیم کرنے یا نہ
کرنے سے ان حقائق کی صداقت اور حقانیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،اس سے بڑی
عجیب بات اور کیا ہو سکتی ہے ،اس گوشت پوست کے انسان نے خدا بننے کی ناکام
کوشش کی ہے ،جس خدا نے انسان کو پیدا کیا،اس کم ظرف نے اسی کے مقابلے میں
خدائی کا دعویٰ کر دیا نمرود اور فرعون کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں ان کی اس
حماقت سے خدا کو تو کوئی فرق نہ پڑا ،مگر وہ دعویٰ خدائی کرنے والوں کا
دونوں جہانوں میں رسوائی مقدر ٹھہری ،اسی طرح متعددافراد نے نبوت کا بھی
کیا اور ذلالت ان کے حصے میں آئی ہے،اس کے علاوہ بھی انسان کی ہر دور میں
نمایا ہونے کی کوشش رہی ہے ،کسی نے اس دنیا میں اپنے دستار کا وقار بڑھانے
کیلئے علم وہنرکا سہارا لیا ،اور کسی دولت کے ڈھیر لگا کر دوسروں کو اسیر
کرنے کی سعی کی اور شہرت ونا مور ی کی دیوی کو حاصل کرنے کیلئے کسی نے
اقتدار کا کوڑاہاتھ میں پکڑ کر مقصد کو پانا چاہا ،آگے بڑھنا اور اعلیٰ
مقام حاصل کرنا کوئی معیوب اور بری بات نہیں ہے لیکن جائز طریقہ اپنانا
چاہئے ،نہ کہ اپنا شملہ اونچا کرنے کیلئے کسی دوسرے انسان کی گردن ہی کاٹ
دی جائے بعض دولت کے پجاری دولت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ،اور دولت کے بل
بوتے پر ہر چیز کو اپنے قدموں میں دیکھنا چاہتے ہیں ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ کار خانہ قدرت میں ہر چیز برائے فروخت نہیں ہے ،دست قدرت نے کچھ
نایاب ہیرے بھی تراشے ہیں دولت کے پجاریوں کا خیال ہے کہ کثرت دولت سے
زمانے میں نیک نامی ملتی ہے ،لیکن علامہ اقبال فرماتیں ہیں کہ ،خودی نہ بیچ
غریبی میں نام پیدا کر،کم دولت بھی بلندی اقبال کا بہانہ اور غربت وجہ شہرت
بن جاتی ہے،اس جہان میں کتنے دولت مند انسان آئے خوب شہرت پائی اور پھر
صفحہ ہستی سے مٹ گئے ،اور آنے والی نسل انسانی ان سے نا واقف رہی ان کی
ساری شہرت کتابوں کے اوراق میں سمٹ کر رہ گئی اور کچھ ایسے ستارے بھی مطلع
دنیا پر طلوع ہوئے جو کہ چھپ جانے کے بعد بھی جگمگا رہے ہیں اور شائد رہتی
دنیا تک اس جہان میں روشنی بکھیرتے رہیں جس سے بھولے بھٹکے راہ گم کرتا
مسافر اپنی منزل کا تعین کرتے رہے گے ، کم عقل اور فہم لوگوں کی خدمت میں
عرض ہے کہ دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتی اوربھی بہت کچھ ہے جس کو حاصل کرنے کی
جدوجہد کرنی چاہئے عزت قارون کا خزانہ دے کر بھی نہیں خریدی جا سکتی اور
بازار مصر میں حسن یوسف تو فروخت ہو سکتا ہے مگر عزت مصر کے بازار میں سے
عزیز مصر بھی نہیں خرید سکتا تکبر و غرور اور گھمنڈ میں عزت نہیں رسوائی
بلکہ روسیاہی ہے ،ہماری اس دنیا میں اکثریت ایسے سربراہان مملکت کی ہے جو
اپنی شاہانہ ٹھاٹھ باٹ کی شہرت رکھتے ہیں اورشان و شوکت کی وجہ سے لوگوں کی
توجہ کے مرکز بن جاتے ہیں ،کہتے ہیں دولت اگلے پچھلے پہر کا سایہ ہوتی ہے
یہ کسی بھی وقت ساتھ چھوڑ سکتی ہے ،اس کے باوجود ہم آخرت کو بھول کر 4دن
زندگی کیلئے دولت شہرت اور چھوٹی شان و شوکت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔مگر
یاد رکھو دولت ڈھلتا پرچھا واں ہے آج میرے پاس کل تیرے پاس اس کا کبھی مان
نا کرو ۔ اب جس کی جی چاہے وہ پائے روشنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باؤ جی ہم نے تو اپنا
دل جلا کے رکھ دیا، |