گذشتہ دنوں ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران پیش آئے باہمی تھپڑ
بازی معاملہ کی گونج میڈیا میں اب تک سنائی دے رہی ہے، Zee Hindustan نامی
ایک غیر معروف ٹی وی چینل نے اس مباحثہ کا اہتمام کیا تھا، یہ مباحثہ طلاق،
حلالہ اور مسلمانوں کے عائلی مسائل پر گفتگو کے لیے رکھا گیا تھا، بریلی سے
تعلق رکھنے والی ایک لڑکی ندا نے گذشتہ دنوں حلالہ سے متعلق غیر شرعی
بیانات دیے تھے، جس پر وہاں کے علماء نے اس کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا، اس
تناظر میں زی ہندوستان نامی چینل نے اس موضوع پر ڈیبٹ کی محفل سجائی تھی،
حلالہ اور طلاق ہمارے ملکی ٹی وی چینلوں کے انتہائی پسندیدہ موضوعات
ہیں،ملکی الیکٹرانک میڈیا کسی نہ کسی بہانے سے ان موضوعات کو زندہ رکھنا
چاہتا ہے، ندا کا معاملہ کیا پیش آیا ہمارے ٹی وی چینلوں کو سنہری موقع
ہاتھ آگیا اور’’ زی ہندوستان‘‘ نے بازی ماری، ڈیبٹ میں شریک ارکان کے
درمیان مباحثہ کا آغاز ہوا، جیسے جیسے گفتگو آگے بڑھتی گئی، گرما گرمی کا
ماحول پیدا ہونے لگا،بات تو تو میں تک پہونچی، حتی کہ بے قابو شرکاء آپس
میں تھپڑ بازی پر اتر آئے، تھپڑ بازی کا اقدام سپریم کورٹ کی وکیل فرح فیض
نے کیا، پھر رد عمل کے طور جوابی کاروائی کرتے ہوئے مولانا اعجاز ارشد
قاسمی نے تین تھپڑ رسید کیے، ایک مولوی کی جانب سے ہونے والے اس رد عمل نے
اسلام دشمن عناصر کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا زرین
موقع فراہم کیا، چنانچہ ملک کے سارے چینلوں نے آسمان سر پر اٹھالیا اور اس
واقعہ کی انتہائی جانب دارانہ رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی
کہ اس پورے معاملہ میں فرح فیض بے قصور اور مظلوم ہے اور اسلام کی نمائندگی
کرنے والے عالم دین بدتمیز، ظالم اور تہذیب وشائستگی سے عاری ہیں، ملک کے
برقی میڈیا نے جو ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتا ہے اس واقعہ سے ایک
تیر سے دو ہی نہیں بلکہ بہت سے شکار کیے، اس واقعہ کی تشہیر کرکے پہلا
پیغام یہ دیا گیا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ انتہائی جاہل گوار غیر شائستہ
اور اُجڑ ہوتا ہے ،جس کے اندر نہ گفتکو کا سلیقہ ہوتا ہے اور نہ ہی متانت
وسنجیدگی، چنانچہ اس واقعہ نے سارے ملک میں علماء کی شبیہ کو بری طرح متأثر
کیا، جس سے ایک طرف خود مسلمانوں کا ٹی وی چینلوں پر انحصار کرنے والا طبقہ
علماء سے بد ظن ہوا اور دوسری جانب برادران وطن کو یہ پیغام پہنچا کہ مسلم
مذہبی شخصیات اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے کسی باہمی معاملہ میں گفت وشنید کی
جاسکے، اس واقعہ سے دوسرا تأثر جو قائم ہوا وہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک
ہے، ملکی عوام کو یہ پیغام پہنچا کہ مسلم معاشروں میں عورتیں انتہائی مظلوم
اور نہایت ستم رسیدہ ہیں، جب مسلمانوں کے مذہبی طبقہ سے تعلق رکھنے والا
ایک قابل احترام شخص یہ حرکت کرسکتا ہے تو عام مسلمان، خواتین پر کیا کچھ
ظلم نہ ڈھاتے ہوں گے،اور جب پبلک میں عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے دریغ نہیں
کیا جاتا تو گھروں میں کیسے کیسے مظالم نہ ہوتے ہوں گے، دنیا بھر میں یہ
پیغام دیا گیا کہ عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ انتہائی متشددانہ اور
نہایت ظالمانہ ہے، علاوہ ازیں اس واقعہ نے اسلامی لباس پر وضع قطع کی نفرت
بھی لوگوں کے دلوں میں بٹھا دی کہ جبہ ودستار پہننے والے انتہائی ظالم اور
گنوار ہوتے ہیں، اس پورے واقعہ کے تناظر میں چند باتیں ملحوظ خاطر رہنا
ضروری ہیں:
۱- سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن نشیں ہونا چاہیے کہ موجودہ دور کے میڈیا کا اصل
ہدف اسلام دشمنی، اسلامی تعلیمات سے لوگوں کو متنفر کرنا اور اسلام اور
مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہے، عالمی سطح پر
بھی میڈیا شب وروزاس مہم میں مصروف ہے، اور ملکی میڈیا بھی اسی کو اپنی
معراج سمجھتا ہے، جہاں تک عالمی میڈیا کا تعلق ہے تو وہ یہودیوں کے زیر
قبضہ ہے، امریکہ کے بیشتر ٹی وی چینلز اور اکثر کثیر الاشاعت اخباروں کے
مالک یہودی ہیں، جو دنیا بھر میں اسلام کے خلاف ہونے والی پروپیگنڈہ مہم کی
سرپرستی کرتے ہیں،ہمارا ملکی میڈیا بھی اسلام دشمنی اور مسلم آزاری میں
مغربی میڈیا سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے، اِدھر جب سے آر ایس ایس کی
سیاسی ونگ کہلانے والی بی جے پی اقتدار پر آئی ہے، میڈیا کی اسلام دشمنی
میں کچھ زیادہ ہی شدت آئی ہے، ملک سے تقریباً سات ہزار اخبار ات ورسائل
چھپتے ہیں جن کے قارئین کی تعداد کروڑوں میں ہے، جب کہ ٹی وی چینلوں کی
تعداد تقریباً سات سو ہے، جن میں سے ۸۰ چینل صرف خبروں اور سیاسی تجزیوں کے
لیے مختص ہیں، بیشتر ٹی وی چینلز اور ہندی وانگریزی اخبارات کے مالکین نے
حکمراں جماعت سے ڈیل کررکھا ہے،گذشتہ دنوں ٹی وی چینلوں اور بعض اخبارات کے
خلاف ایک ادارے نے کوبرا اِسٹنگ کے نام سے خفیہ آپریشن کیا تھا، جس سے یہ
بات بے نقاب ہوچکی تھی کہ اِن سارے چینلوں نے حکومتی دباؤ میں اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کو اپنی پالیسی بنا رکھی ہے، اس کے لیے باقاعدہ
خبریں گڑھی جاتی ہیں، اور بسا اوقات واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا
ہے، اور کہیں حقائق کو بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، بیشتر چینلز گودی
اور زعفرانی میڈیا کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسے میں کوئی سادہ لوح شخص ہی
ہوسکتا ہے جو ٹی وی چینلوں سے کسی خیر کی امید رکھے، سوائے چند کے سارے
چینلز صاحب اقتدار افراد کے اشاروں پر ناچتے ہیں، اس سے بھلے صحافتی اقدار
پر کیسی ہی آنچ آجائے، اس وقت حکمراں جماعت ملک میں مسلم پرسنل لاء کا
خاتمہ کرکے یکساں سول کوڈ کا نفاذ چاہتی ہے، اس کے لیے ایک ایک کرکے
مسلمانوں کے عائلی وشرعی قوانین کو نشانہ بنایا جارہا ہے، طلاق ثلاثہ کے
بعد اب تعدد ازواج اور حلالہ حکومت کے نشانے پر ہیں، حکومت نے اپنے گودی
میڈیا اور زعفرانی چینلوں کو پابند کردیا ہے کہ وہ حلالہ، تعدد ازواج اور
دیگر شرعی قوانین کی خوب تضحیک کریں، تاکہ ملک کے عام باشندوں کے دل میں ان
قوانین کی نفرت بیٹھ جائے، بیشتر چینلز اس حکومتی مہم کی انجام دہی میں
مصروف ہیں، طلاق اور حلالہ پر کیا گیا حالیہ ڈیبٹ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے،
واقعہ میں جو کچھ پیش آیا اس سے صاف جھلکتا ہے کہ یہ سب منصوبہ بند تھا،
اول تو اس قسم کے مباحثوں میں ایسے افراد کو شریک کیا جاتا ہے جو ڈیبٹ
کرانے والوں کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوں، بھلے ان کا متعلقہ موضوع سے دور
کا بھی واسطہ نہ ہو، حالیہ مباحثہ میں مولانا اعجاز ارشد قاسمی کے علاوہ جو
افراد شریک تھے وہ اسیطبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، فرح فیض عرف لکشمی ورما،یاسر
جیلانی اور عنبر زیدی تینوں دین بیزار ملحد اور سنگھی پس منظر کی حامل
شخصیات ہیں، فرح فیض سپریم کورٹ کی وکیل ہیں، ان کی مسلم دشمنی اور آر ایس
ایس سے قربت کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ انھیں آر ایس ایس کی مسلم
خواتین ونگ مسلم راشٹریہ مہیلا ونگ کا اعزازی صدر بنایا گیا ہے، فرح فیض
گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گوڑسے کی بھکت ہیں، انھیں مسلمانون سے کس قدر
دشمنی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے بس اتنی جانکاری کافی ہے کہ اس نے
عدالت میں مسلم پرسنل لاء کے خلاف عرضی دائر کی ہے، شروع سے ملحدانہ نظریات
کی حامل اس خاتون نے ایک غیر مسلم ونود شرما سے شادی رچائی ہے، اس کا تبدیل
شدہ اصل نام لکشمی ورما ہے،لیکن وہ شریعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے
لیے خود کو فرح فیض سے متعارف کراتی ہے، مباحثہ میں شریک دوسری خاتون عنبر
زیدی ہے، وہ فلم پروڈیوسرڈائریکٹر اور سوشل ایکٹوسٹ ہے، اور خواتین سے
متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کرتی ہیں، تیسرے شریک یاسر جیلانی ہیں، جو آر
ایس ایس سے عملی ونظریاتی تعلق رکھتے ہیں، آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم
راشٹریہ منچ کے کوآرڈنیٹرہیں اور بی جے پی کے سرگرم کارکن ہیں،ان کی مذہبی
رواداری کا یہ عالم ہے کہ وہ ماتھے پر ٹیکا بھی لگاتے ہیں اور تصویروں پر
پھول مالا بھی چڑھاتے ہیں،بھلا بتایئے کہ جس ڈیبٹ کے تین شرکاء آر ایس ایس
سے قلبی وابستگی رکھنے والے ہوں اور اینکر بھی اسی ذہنیت کی ہو، اس کا
نتیجہ اسلام دشمنی، مسلمانوں پر الزام تراشی اور شریعت اسلامی کی تضحیک کے
سوا اور کیا نکل سکتا ہے۔
ٹی وی چینلوں کا طریقۂ کار کس قدر اسلام دشمنی پر مبنی ہوتا ہے، اس کا
اندازہ کرنے کے لیے حالیہ ڈیبٹ کی کچھ تفصیل جاننا مناسب ہوگا، ڈیبٹ کے
دوران اینکر کا طرز عمل انتہائی جانب دار تھا، پھر پورے واقعہ کی اشاعت سے
پہلے ایڈیٹنگ بھی کی گئی، ان تمام مناظر کو حذف کیا گیا، جو حقائق کی عکاسی
کرتے ہیں، صرف انہی حصوں کو باقی رکھا گیا جو حصول مقصد میں معاون ثابت
ہوسکتے ہیں، تحریک فروغ اسلام کے جنرل سکریٹری مولانا غلام مصطفی نعیمی نے
حالیہ ڈیبٹ کے مختلف مناظر کا جو تجزیہ کیا ہے اس سے حقیقت بے نقاب ہوجاتی
ہے، مولانا نے ڈیبٹ کے مکمل ویڈیو کلپس کا مشاہدہ کرکے اس کے مختلف مناظر
کا تجزیہ کیا ہے، مولانا لکھتے ہیں: ’’مباحثہ کے دوران مولانا قاسمی اور
عنبر زیدی کے مابین تکرار ہوجاتی ہے اور عنبر زیدی بڑی بد تمیزی کے ساتھ
مولانا سے کہتی ہے کہ ’’میں تمہارامنھ توڑ دوں گی‘‘ جواب میں قاسمی صاحب
کہتے ہیں ’’میرے پاس بھی جوتا ہے‘‘ جیسے ہی مولانا نے یہ کہا اینکر مولانا
پر برس پڑتی ہے کہ آپ مولانا ہوکر ایسی بات کرتے ہیں، فوراً معافی مانگئے
اور زیدی صاحبہ ایسے بلک بلک کر روتی ہے کہ مانو ان پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے،
ویسے عنبر صاحبہ فلم پروڈیوسر ہیں، اتنی ایکٹنگ تو آنا ہی چاہیے، لیکن
اینکر کا تعصب دیکھنے لائق ہوتا ہے کہ وہ عنبر زیدی کے منھ توڑنے والے بیان
پر ایک لفظ نہیں کہتی، لیکن مولانا کے جوتے والے واقعہ پر معافی کا مطالبہ
کرتی ہے۔ دوسرا سین: اینکر ٹیلفونک لائن سے جڑی ندا سے کچھ پوچھ رہی ہوتی
ہے کہ مولانا قاسمی کی آواز آتی ہے کہ دیکھئے یہ ’’(لکشمی ورما عرف فرح
فیض)ہمارے ساتھ بدتمیزی کررہی ہیں، ہم بھی انسان ہیں، آخر کب تک یہ برداشت
کریں گے‘‘ جواب میں لیڈی اینکر مولانا کو ٹالنے والے انداز میں کہتی ہے کہ
ٹھیک ہے مولانا ان کو بول دیا ہے آپ ذرا خاموش ہوجائیں، ایک گھنٹہ کا
پروگرام ہے، ذرا کچھ ان(ندا)سے پوچھنے دیں۔ تیسرا سین: اینکر سے فریاد کے
باوجود مولانا پر فرح عرف لکشمی کا حملہ جاری رہتا ہے اور مولانا کے یہ
کہنے پر کہ ہم بھی انسان ہیں، وکیل صاحبہ کہتی ہیں تم انسان نہیں جانور ہو،
اتنا سنتے ہی مولانا غصہ میں کہتے ہیں کہ جانور تم ہو، جیسے ہی مولانا نے
یہ جملہ کہا اینکر مولانا پر برس پڑی اور کہا کہ مولانا ہوکر عورت کو گالی
دیتے ہو، شرم نہیں آتی(لکشمی نے جانور کہا تو خاموشی لیکن مولانا نے کہا تو
گالی) چوتھا سین: فرح عرف لکشمی ورما کے جانور کہنے کے جواب میں جیسے ہی
مولانا نے جانور کہا سبھی پینلسٹ کھڑے ہوگئے اور اس عورت نے مولانا کو
’’پاکھنڈی ڈھونگی‘‘ کہنا شروع کردیا، جواباً مولانا بھی اسی کے لفظوں کو
اسی پر لوٹاتے گئے، حتی کہ اس عورت نے کمال بد تمیزی کرتے ہوئے مولانا کے
گال پر چپت لگا ہی دی، اس کے بعد مولانا نے ایک کے بعد ایک تین کرارے تھپڑ
لگا کر وکیل صاحبہ کو مردانہ قوت کا بھر پور احساس کرواہی دیا‘‘۔
مولانا غلام مصطفی نعیمی آگے اس پورے معاملہ میں ٹی وی چینل کے متعصبانہ
رویہ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس تماشے کے فورا بعد چینل نے
مولانا کی آڑ میں مسلمانوں کی کردار کشی شروع کردی، چینل کا تعصب دیکھئے:
٭ جب لکشمی ورما عرف فرح نے مولانا کو تھپڑ مارا وہ کلپ بالکل نہیں دکھائی،
جب کہ مولانا والی کلپ مسلسل دکھائی جارہی ہے۔
٭ عنبر زیدی کے منھ توڑنے والے بیان کو بالکل ہضم کرلیا اور مولانا کے بیان
کو بدتمیزی کہہ کر ابھی بھی نشر کیا جارہا ہے۔
٭ مارپیٹ کی وجہ سے پولیس کو بلا کر مولانا کو گرفتار کرایا گیا، حالانہ کہ
مارپیٹ کی شروعات خود لکشمی ورما عرف فرح نے شروع کی تھی، اصولاً اس کو بھی
گرفتار کرانا چاہیے تھا‘‘۔
۲- اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ موجودہ ٹی وی مباحثوں سے دین کی خدمت
تو کجا الٹا دین کی جگ ہنسائی ہوتی ہے، ان مباحثوں کا مقصد لوگوں کے سامنے
اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے، ایسے میں بہتر
یہ ہے کہ علماء اس قسم کے منصوبہ بند ٹی وی مباحثوں سے خود کو دور رکھیں
اور عام مسلمان بھی ایسے ٹی وی چینلوں کا مکمل بائیکاٹ کریں، مولانا اعجاز
ارشد قاسمی کے ساتھ جس قسم کا رویہ اپنایا گیا وہ انتہائی افسوس ناک ہے،
مولانا نے اپریل ۲۰۱۷ء میں دارالعلوم دیوبند کی درخواست پر ٹی وی مباحثوں
میں شرکت نہ کرنے کا عہد کیا تھا،بہتر تھا کہ وہ اپنے اس عہد پر برقرار
رہتے، لیکن انھوں نے اپنے وعدوں کو فراموش کرتے ہوئے پھر سے شرکت کی اور
اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کا ذریعہ بنے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام
علماء اس قسم کے مباحثوں کا بالکلیہ بائیکاٹ کریں، سال گذشتہ دارالعلوم
دیوبند نے بائیکاٹ کی اپیل بھی کی تھی۔
۳- ناگزیر صورت میں اگر ایسے مباحثوں میں کسی عالم کی نمائندگی ضروری
ہوجائے تو علماء انفرادی طور پر شرکت نہ کریں، بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل
لاء بورڈ یا دارالعلوم دیوبند جیسے مرکزی اداروں کی جانب سے سنجیدہ اور
باصلاحیت علماء تجویز کیے جائیں، اور وہ اسلامی آداب ومباحثہ کا مکمل لحاظ
رکھیں، قرآن وسنت میں دعوتی مقاصد کے لیے ناگزیر صورت میں مباحثہ کو اپنانے
کی اجازت دی گئی ہے، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ مباحثہ احسن طریقہ سے
ہو، چنانچہ اسلوب دعوت پر روشنی ڈالنے والی آیت میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ادْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ
وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ(النحل:۱۲۵) آیت شریفہ میں دعوت کے
تین طریقے بتائے گئے ہیں: (۱) حکمت، (۲) موعظت اور مجادلہ (مباحثہ) کو اخیر
میں لایا گیا ہے اور وہ بھی احسن کی شرط کے ساتھ ہے، مباحثہ ایک مستقل فن
ہے، جس کے لیے مطلوبہ صلاحیت ضروری ہے، مباحثہ کا ایک ادب یہ ہے کہ اس میں
حصہ لینے والا طیش میں نہ آئے، فریق مخالف ہزار مشتعل کرے لیکن خود کو قابو
میں رکھے۔
۴- آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے اکابر کو ایسے علماء کی تیاری پر توجہ دینا
چاہیے جو ڈیبٹ کے موجودہ طریقوں اور نزاکتوں سے واقف ہوں، اور ساتھ ہی
اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کی تفہیم کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہوں، اس
وقت ملک میں ایسے علماء کی بڑی کمی ہے، قابل مبارک ہیں حضرت مولانا خالد
سیف اﷲ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کہ انھوں نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے
اپنے ادارے میں ڈیبٹ کے لیے علماء کو تیار کرنے کا ایک مستقل شعبہ قائم کیا
ہے۔
|