پا ک فوج اور اس کے جوانوں کو خیراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیپٹن
نجم ریاض راجہ شہیدکی یاد میں ایک تحریر
آ پ کی جرت اور بہادری کو سلام۔ قوم آپ کی اس لازوال قربانی کو کبھی فراموش نہیں کر
سکتی ، آپ قو م کا فخر اور پاک فوج کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
اے پاک وطن کے جوانوں نہ بچھڑیں گے ہم
رکھو آگے قدم رکھوآگے قدم
جب للکارے کوئی تیرے ضمیر کو
تیرے پاک وطن جیسی جاگیر کو
پھررکنا نہیں چاہے سر ہو قلم
رکھو آگے قدم رکھوآگے قدم
پاک فوج تجھے سلام، بحیثیت پاکستانی اور لکھاری جب بھی پاک فوج کے بارے منفی
پراپیگنڈہ سنتا ہوں یقین مانیں دل خون کی آنسو روتا ہے ، پاک فوج کے جوانوں کی
قربانیاں، اُن کی خدمات اور ان کے جذبات کس قدر پاکستانی اور ملک کی مٹی سے جڑے
ہوئے ہیں کہ اُن کے لیے سب سے پہلے پاکستان پھر کچھ اورسوات آپریشن ہو، وانا میں
پاک فوج کی کاروائیاں ہوں، آپریشن ضرب عضب ہو ، آپریشن ردالفساد ہو یا کراچی آپریشن
پاک فو ج کے جوان ہی اس مشن کو کامیاب کرنے میں اپنی جوانیوں اپنی زندگیوں کو
پاکستان پر نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ابھی الیکشن کے دنوں میں بھی ڈیوٹی
سر انجام دینے کے دوران پانچ فوجی جوان ایک گاڑی میں سوار تھے کہ گاڑی 250فٹ گہری
کھائی میں جا گری اور یوں پانچ جوان دنیاوی زندگی کی بازی ہار گئے اور ابدی زندگی
میں داخل ہو کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے ۔
قربانیوں کا یہ سلسلہ ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہابھارتی جارحیت کا جواب دیتے
ہوئے ایل او سی (LOC)پر جوان اپنی زندگیوں کو وطن عزیز کی حفاظت اور قوم کے لیے
قربان کر دیتے ہیں لیکن دشمن کے ناپاک ارادوں کو کبھی پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچنے
دیتے ۔پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے یہ جوان ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہی نظر آتے ہیں
، عید شب برات،بکراعید اور ایسی انگنت خوشیوں کو قربان کیے اپنے پیاروں سے دُور
رہتے ہوئے اپنی ڈیوٹی کو خوشی سے سر انجام دیتے ہیں ’’کس لیئے؟‘‘ صر ف اور صرف ملک
و قوم کی بقا کے خاطر۔دشمن طرح طرح کی ترکیبیں لڑا کر پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی
ناکام کوشش میں مصروف ہے وادی سوات پاکستان کی خوبصورت ترین وادیوں میں شمار کی
جاتی ہے اس کو پاکستان کا سویٹزرلینڈ بھی کہتے ہیں، سرسبز و شاداب میدانوں، خوبصورت
قدرتی مناظر سے بھر پور نظارے ، آسمانوں کو چھوتے بلند و بالاپہاڑ، ٹھنڈے اور میٹھے
پانی کے چشموں کے دلنشین نظارے،بہتے جھرنوں کی دل موہ لینے والی خوبصورت آواز،
چاروں طرف قدرت کی جنت نظیر وادیاں، دنیا کے حسین ترین خطوں میں شمار پاکستان کے
دارلخلافہ اسلام آباد سے 254سے 250کلومیٹر اور پشاور سے تقریباََ 170 کلومیٹر کے
فاصلے پر یہ حسین و جمیل وادی ہے۔ جہاں سیاح سیرو تفریح کی خاطر جاتے ہیں اور قدرت
کی اِن رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ بہت پیار کرنے والے لوگ
ہیں۔یہ لوگ محنت کش، جنگجو،بہادر نڈر اور غیور ہیں اور وطن عزیز کے لیے کسی بھی
قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔ یہاں کے ایک بہادر بیٹے کی داستان پڑھ رہا تھا یقین
کریں کہ کیسے اِس بہادر قوم کے بیٹے نے مشکل میں اپنی زندگی کو دشمن کے چُنگل میں
گذاری لیکن پاک فوج اور وطن عزیز کے بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا بلکہ گھر والوں کو
ہدایت کی کہ نہ تو پاک فوج کے بارے میں کوئی غلطی بیانی کریں اور نہ ہی پاکستان کے
بارے غلط سوچ کو بڑھنے دیں۔ بلکہ وہ پاک فوج کوا پنا قبیلہ اور گھر سمجھتا تھا ،
اُس نے اپنی جان کی قربانی دے دی لیکن وطن عزیز پر حرف نہ آنے دیا۔
راولپنڈی کی ایک تحصیل کہوٹہ ہے جو کہ راولپنڈی سے تقریباََ 38 کلومیٹر کے فاصلے پر
واقع ہے یہاں کے ایک شیر بہادر کی کہانی آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں۔کیپٹن
نجم ریاض راجہ شہیدان کی عظیم قربانی کے بارے زیادہ لوگ نہیں جانتے یہ نوجوان کہوٹہ
میں پیدا ہوئے۔ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ کیپٹن نجم ریاض راجہ شہید ملٹری کالج جہلم
کا طالب علم رہا اس کالج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے فوج کی نرسری تصور کیا جاتا ہے
وہاں سے اپنی ابتدائی تعلیم (ملٹری کالج جہلم) سے مکمل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد
کیپٹن نجم نے فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعدخود کو رضاکارانہ طور پرایس ایس جی
سروسز (سپیشل سروس گروپ) کے لیے پیش کر دیا۔فوجی تربیت کے حوالے سے انتہائی مشکل
اور کٹھن مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن کیپٹن نجم نے ہر مشکل کو آسانی سے عبور کیا اور
وہ ایک سخت جان کمانڈو بنے جس کا ثبوت انہوں نے شہادت حاصل کر کے عملی طور پر پیش
کیا۔کہانی پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے یہ ایک ایسا جوان تھا جو
اپنی زندگی میں پاک فو ج میں شمولیت کی خواہش رکھنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی خاطر
قربان ہونا اور شہادت کی آرزو رکھتا تھا۔ان کی کہانی پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ
اپنی بہن کے دل کی دھڑکن ہو جیسے انہوں نے اپنے بھائی کے لیے الفاط کا چناؤ کیا
شائد میرے پاس وہ لفط ہی نہ ہوں ۔یقینا بہنوں کے بھائی اور بہادر بیٹے او ر بہنوں
کے دلوں کی جان، اُن کا مان اور شان کیپٹن نجم جیسے بھائی ہی ہوتے ہیں ۔وہ ایک ایسا
بہادر غیور جوان تھا جس نے دشمن کے مکروہ ارادوں کو خاک میں ملا دیا لیکن دشمن کو
اپنی فوج اور وطن کے بارے کچھ نہ بتایا۔ایک با ر کیپٹن نجم سے پوچھا کہ آپ کو ڈر
نہیں لگتا تو انہوں نے مسکراتے جواب دیا ’’مجھے مو ت سے ڈر نہیں لگتا‘‘ میں شہید ہو
جاؤں گا مگر اپنے وطن کی عزت پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دونگا۔وہ حق و باطل کو خوب جانتا
تھا جس کے چہرے پر موت کا خوف نہیں بلکہ شہادت کی خوشی تھی۔
2007 ء سے 2009ء تک سوات کا یہ علاقہ دشمن کے قبضے میں رہا ، طالبان نے اسلام کے
نام پر ایک تحریک شروع کی جس کی رو سے لڑکیوں کا تعلیم حاصل کر نا معیوب سمجھا جانے
لگا، پولیو کے قطرے پلانے بند کروا دیے گئے بچوں نے سکول جانا چھوڑ دیا۔ نفاز شریعت
کی آڑ میں گھناؤنے مقاصد کے لیے جدوجہد کرنا شروع کر دی گئی، جو وادی جنت نظیر
خوبصورت نظاروں اور سیاحوں کی سیرو سیاحت کا مرکز تھی اس وادی کوخون میں نہلا دیا
گیا۔ طالبان نے یہاں اسلام کے نفاذ کے نام پر اپنی جاگیر بنا لی۔ یہاں خوف کے سائے
منڈلانے لگے ۔ لوگوں نے سیرو سیاحت کو خیر آباد کہہ دیا اور اس علاقے میں آنا جانا
ختم کر دیا۔یہاں تک کہ یہاں پر طالبان نے سرکاری دفاتر، سکولوں اور ہسپتالوں کا
کنٹرول بھی سمجھال لیااور سبز ھلالی پرچم کی جگہ ان کا اپنا پرچم لہرا دیا گیا۔
ایسی گھمبیر صورت حال کو سمبھالنے کے لیے پاک فوج نے آپریشن کا فیصلہ کیا اور
تقریباََ پچیس ہزار (25000) جوانوں پر مشتمل ایک لشکر (فوجی دستہ)سوات روانہ کیا۔
جن کی کامیاب کاروائی نے طالبان کے بہت سے قریبی ساتھ مارے دیے اور اُن کی کمر توڑ
دی۔اس کاروائی میں پاک فوج کے تیرہ (13) کے قریب جوانوں کو شہید کیا گیا ان جوانوں
کو چار باغ اور مٹہ کے مقام پر اتنی بے دردی سے جانورں کی طرح زبحہ کیا گیا ظلم اور
بربریت کی ایسی مثال کہ انسانیت بھی شرما جائے ۔یہاں سے دہشتگردی کی ایک ایسی لہر
دوڑی کہ پاک فوج اور سول لوگوں نے اس کے مقابلے میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر
دیے شجاعت اوربہادری کی ایسی لازوال داستانیں رقم کیں جس کی نظیر دنیا بھر کی تاریخ
میں کہیں نہیں ملتی۔ان علاقوں میں پاک فوج کے جوانوں، افسروں اور شہریوں کے خون سے
لکھی داستانیں پڑھیں اور اُن کا بغور مطالعہ کریں پھر اپنے گریبانوں میں جھانکیں
اور اس کے بعد پاک فوج پر جُملے کسیں۔
کیپٹن نجم کاروائیوں کے دوران طالبان کی حراست میں چلے گئے اور تقریباََ بائیس (22)
دن تک اپنے ساتھیوں سمیت دشمن کی قید میں رہے جو کہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھالیکن ان
کی ہمت اور بہادری دیدنی تھی وہ ذر ا برابر پریشان نہ ہوئے ان کے چہرے پر خوف بالکل
نہ تھا اور ثابت قدم رہے۔دوران حراست کیپٹن نجم کو اپنے گھر والوں سے ٹیلیفون کے
ذریعے بات کرنے اور رابطہ رکھنے کی اجازت تھی۔یہ واقع 2009ء کا ہے جب طالبان کا خوف
پورے پاکستان میں دہشتگردی کی لہرکی وجہ سے چھایا ہوا تھا۔
میڈیا اور دیگر لوگ پاک فوج کے خلاف اپنی زبانون کابے دریغ استعمال کر رہے تھے یہ
واقع صرف میرے وطن کے شہیدوں بہادروں ، غازیوں کاہے جنہوں نے فرض کی خاطر اپنی
جانوں کے نذرانے پیش کر دیے اور آج ہم ایک آزاد اور پُر امن فضا میں سانس لے رہے
ہیں۔اُن دنوں کیپٹن نجم کی بہن اور ایک بھائی باہر کے ملک میں رہائش پذیرتھے، اور
کیپٹن اپنے تین ساتھیوں سمیت طالبان کی قید میں ۔ طالبان ان کے بہن بھائیوں کو اکثر
دھمکیا لگاتے تھے تا کہ وہ ڈرجائیں اور پاک فوج کے ساتھ معاملات طے کر سکیں اور
کوئی ڈیل کر سکیں، لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ اسی دوران کیپٹن نجم اور ان کے ساتھی
قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے ایک گاؤں میں پنا ہ لے لی۔لیکن
کہتے ہیں میر جعفر اور میر صادق بھی موجود ہوتے ہیں ، اس گاؤں میں کسی شخص نے مخبری
کر دی کہ کیپٹن نجم اور اس کے ساتھی اس گاؤں میں پنا ہ گزین ہیں۔ جس کی خبر کیپٹن
نجم اور ان کے ساتھیوں کو بھی وقت پر ہی اطلاع مل گئی اور وہ اس گاؤں سے بھاگنے پر
مجبور ہوگئے، لیکن اس دوڑ میں کیپٹن نجم شہید کے ایک ساتھی کی ٹانگ میں گولی لگ گئی
اور وہ شدید زخمی ہو کر گر گیا۔ زخمی ساتھی نے کیپٹن نجم کو بھاگنے کا مشور ہ دیا
اور کہا سر آپ مجھے یہیں چھوڑ دیں اور آپ لو گ جائیں ، لیکن اس بہادر ، غیور قوم کے
سپوت (کیپٹن نجم) کو یہ بات کہاں گوارہ تھی کہ اُن کا ایک ساتھی زخمی حالت میں بے
یارو مدد گار یہیں پڑا رہے اور وہ بھاگ جائیں ،کیپٹن نجم شہید نے زخمی کو بچانے کی
خاطر وہیں رکے تھے کہ دوبارہ طالبان نے گھیر لیا اور ایک بار پھر ان کی قید میں
آگئے ۔اب کی بار طالبان نے فون پر گھر رابط کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔کیونکہ وہ سمجھ
چکے تھے کہ حکومت پا کستان کسی قسم کا سودا کرنے کو تیا ر نہیں ہے۔کیپٹن نجم اور ان
کے ساتھیوں کو الگ الگ حراست میں رکھا گیا۔ایک دن کیپٹن نجم کو معلوم ہوا کہ طالبان
ان کو زبحہ کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ دیگر ساتھیوں کر زبحہ کر دیا گیا ہے ، جب
طالبان کیپٹن نجم کے کمرے میں آئے تو ان کو معلوم ہوا کہ وہ کس شیر سر لڑنے آرہے
ہیں انہوں نے بہادری اور جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 8 آٹھ دہشتگردوں کو کمر سے دبوچ
لیا اور ان کو جہنم واصل کر دیا، لیکن کمرے کے باہر کھڑا ایک لعنتی شیطان جو اسلحے
سے لیس کھڑ ا تھا اس نے اپنی بندوق سے اس ماں کے لعل پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیپٹن نجم اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ انالﷲ وانا الہ
راجعون۔11مئی 2009ء کو اس جوان سالہ شیر بہادر کوعزت و تکریم اورمکمل فوجی اعزاز کے
ساتھ اس کے آبائی گاؤں کہوٹہ میں سپرد خاک کیا گیا۔کیپٹن راجہ نجم شہید کو حکومت
پاکستان نے اُن کی عظیم خدمات جرت اور بہادری پر تمغہ بصالت سے نوازہ اﷲ کریم آپ کے
درجات بلند فرمائے، قوم آپ کی بہادری اور لازوال قربانی کو کبھی فراموش نہیں کر
سکتی۔
|