فوج کا الیکشن میں کردار

اس پلاننگ کو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوچکا ہے جب پناما کیس سامنے آیا اس کے بعد عمران خان کا نواز شریف سے استعفیٰ کامطالبہ اور بعدازاں میاں نواز شریف کا پارلیمنٹ اور قوم سے خطاب کے بعد جب پناما کیس عدالت اور جی آئی ٹی میں چلا کیا اس وقت لندن میں یہ پلان بنایا کیا کہ میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا میں ایک ایسا بیانیہ شروع کی جائے کہ عام لوگوں سمیت خواص کا بھی جن کی سوچ ایجنڈے پر نہ ہو لیکن ان کو تبدیل کیا جائے کہ فوج اور عدلیہ ملک میں جمہوریت کی دشمن اور میاں نواز شریف کو حکومت کرنے نہیں دے رہی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ میڈیا میں شریف بردارن کا اثرو رسوخ پہلے سے کتنا موجود ہے جس طرح ہر جگہ پر ان کے کارندے موجود ہے اسی طرح میڈیا میں بھی ان کے لوگ بڑی تعداد میں موجودہے جو ان کے بیرول پر کام کرتے ہیں۔ماضی کے برعکس میاں نواز شریف نے تقریباً تمام چینلز اور اخبارات کو نوازانے کاطریقہ اختیار کیا جس میں انہوں نے دوسرے مرعات کے علاوہ تقریباً 40ارب روپے کے اشتہارات بغیر حساب کتاب دیے جس میں زیادہ تر حصہ ایک گروپ کودیا کیا ہے۔اس طرح مختلف گروپوں میں ان کے ہمنوا صحافیوں کو مختلف طریقوں سے نوازا کیا لیکن اس سے بڑکر انہوں نے بیرونی ملک کی کمپنی کو ٹھیکہ دیا جو ان کے حق اور فوج ، عدلیہ مخالف کمپین شروع کرے جنہوں نے بہت کوشش کی کہ نواز شریف بیانیہ کو عوام میں پذیرائی ملے کہ نواز شریف پر کرپشن کے کوئی چارجز نہیں یہ سب کچھ نواز شریف کے خلاف سازش ہے۔

پہلے کہا کیا کہ سینٹ الیکشن نہیں ہوں گے ،پھر کہا کیاکہ جنرل الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے فوج اور عدلیہ نگران حکومت کو زیادہ وقت دے گی اوریہ وقت دو تین سال پر مشتمل ہوگی اس طرح یہ بیانیہ بھی دیا کیا کہ ملک میں جمہوری پارٹیوں کے لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کیا جارہاہے۔ دوسری پارٹیوں کو الیکشن کمپین کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔نواز شریف کو سزا کے بعد ، بہت کوشش کی گئی کہ عدلیہ اور فوج پر زبردست اٹیک کی جائے ان کو بدنام کیا جائے تاکہ ملک میں مارشل لاء لگ جائے اور نواز شریف بیانیہ کو تقویت ملے ۔ بعدازاں ماضی کی طرح فوجی حکمران کے ساتھ ساز باز کرکے سزا کو معاف کیا جائے ، جس میں ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ان کے صحافی اس کوشش میں رہے کہ نواز شریف بیانیہ ملک بھر میں پذیرائی حاصل کررہی ہے اور عنقریب ملک میں نواز شریف کے حق میں انقلاب آنے والا ہے لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوا ، کرپشن ،منی لاٹرنگ کیس میں احتساب عدالت سے بھی نواز شریف ،انکی بیٹی اور داماد کو سزا ہوئی جس طرح جی آئی ٹی اورسپریم کورٹ میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا اس طرح احتساب عدالت میں کھربوں کی جائدادیں لندن میں بنانے کی کوئی گواہ یا ثبوت پیش نہیں کیا جس کا ایک ہفتے کا کرایہ پچاس کروڑ روپے ہیں۔بہت کوشش اور بلیک میلنگ کے باوجود اب تک کوئی این آر او نواز شریف کے ساتھ نہیں ہوا کہ ان پر کیسز ختم ہوجائے۔

ان تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود انتخاب مقرر وقت پر ہوئے جس میں تحریک انصاف پہلی بار اکثریت سے وفاق سمیت خیبر پختونخوا میں دوسری اور پنجاب میں پہلی بار اکثریت سے آئی لیکن الیکشن سے پہلے جو واویلا کیا جارہاہے تھا کہ ہمیں کمپین کرنے نہیں دیا جارہے اور یہ واویلا دوسری پارٹیوں والے تحریک انصاف کے خلاف کررہے تھے کہ فوج دوسری پارٹیوں کو روک رہی ہے جس کی ایک مثال پیپلز پارٹی والے یہ دے رہے تھے کہ بلاول دورہ کررہے تھے تو ان کے جہا ز کوکچھ منٹس کی تاخیر ہوئی ،اس طرح اے این پی کے ھارون بلور اور بلوچستان میں عوامی پارٹی کے رہنما پر خود کش حملہ ہوا جس میں بہت سے بے گناہ شہید ہوئے تو پی ٹی آئی مخالفین نے واویلا شروع کیا عمران خان جلسے کررہاہے ان کو سپورٹ کیا جارہاہے اور ہم نہیں کرسکتے۔ عمران خان کے مخالفین بھی جانتے تھے کہ دہشت گردی کا خطرہ سب سے زیادہ عمران خان کو ہے جس میں سکیورٹی اداروں نے لکھ کر عمران خان کودیا کہ اپ جلسے نہ کرے لیکن عمران خان کا کہناتھا کہ الیکشن میں جلسوں کروں گا اوردشمن قوتوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا کہ ان کے خوف سے الیکشن کمپین بند کرو، بعد ازاں ان کے صوبائی اسمبلی کے ممبر پر بھی خود کش حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہوگیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ دشمن طاقتوں کی پلاننگ یہی تھی کہ ملک میں الیکشن نہ ہو یااتنا خوف وہراس پیدا کی جائے تاکہ عوام الیکشن میں حصہ نہ لے ،اس کے باوجود ماضی کے برعکس بڑی تعداد میں عوام نے ووٹ ڈال دیے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان جیسے جلسے کو ئی اور نہیں کرسکا وہ ایک دن میں چار چار جلسے کرتا تھا جبکہ دوسری پارٹیوں خاص کر ایم ایم اے نے بھی بڑے شہروں میں جلسے کیے ، اس طرح پیپلزپارٹی نے بڑے جلسوں کی بجائے عوامی ریلی نکلاتے رہے، مسلم لیگ والے بھی پنجاب میں جلسے کرتے رہے اس طرح اے این پی اور دوسری مقامی پارٹیوں نے لوکل سطح پر عوامی مہم جاری رکھا۔ یہ ان پار ٹیوں کی اپنی اپنی مہم تھی اس میں کسی کو نہیں روکا کیا۔ کے پی میں اے این پی نے پہلے کے نسبت اس دفعہ بہت زیادہ عوامی رابط مہم جاری رکھا لیکن اس کے باوجود فوج پر ان جماعتوں نے تنقید کی کہ ہمیں جلسے نہیں کرنے دیا جارہاہے جس پر سینٹ میں تمام جماعتوں کے نمائندوں سے فوجی ترجمان نے ملاقات کی اور پوچھا کہ کون ،کہاں، کس کوروکا کیا ہے توان کے پاس کوئی جواب نہ تھا یہ بھی واویلہ کیا گیا کہ ہمارے کارکنوں کو اٹھایا کیا ہے لیکن کو ائی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ، انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے دشمن قوتوں نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اوران تمام تر الزامات کے باوجود اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے انتخاب بروقت ہوئے ۔

میرا یہ چوتھا الیکشن تھا لیکن جنہوں نے اس سے پہلے الیکشن لڑے یا ووٹ ڈالتے رہے بقول ان کے اور الیکشن میں مختلف پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کرکے ایسا الیکشن میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے جس میں کوئی مشکل پیش آرہی ہوجس کا پہلا ٹویٹ میں تقریباً گیارہ بجے کیا کہ الیکشن کمیشن ، پا ک اور پولیس کو سلام ہوجنہوں نے بہتر ین انتطامات کیے ہیں ۔جب نو بجے پولنگ اسٹیشن کیا تو موسم بہتر تھا ایک لمبی قطار کھڑی تھی لیکن ایک گھنٹے بعد وہ قطار ختم ہوگئی ۔ سکیورٹی کے بہتر ین انتظامات ہوئے تھے ، فوج کے جوان ڈیوٹی دے رہے تھے ۔گیٹ سے چار پانچوں بندوں کو اندر جانے کی اجازت ہوتی تھی ،جس سے الیکشن عملہ آسانی سے کام کرسکتا تھا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا ۔تمام پارٹیوں کے لوگ انتظامات اور خاص کر فوج کی ڈیوٹی سے مطمئن تھے کہ ہر الیکشن میں اس طرح فوج کو سکیورٹی کی ذمہ داری دینی چاہیے تھی ، کیمرے لگے تھے جب کہ تمام سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ کا ایک ایک بندہ الیکشن کمرہ میں موجود تھا لیکن ماضی کے برعکس صرف لسٹوں میں ووٹوں کی پڑتال کررہے تھے کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ تم ہمیں ووٹ ڈالوں ۔خود جب میں ووٹ ڈال رہا تھا تو ایک پرچی کو فولٹ کیا، دوسرے کو ہاتھ میں پکڑ کر بوتھ سے تھوڑ ا پیچھے ہوا تو وہاں کھڑے فوجی جوان نے یک دم سے کہا کہ دونوں پر چیوں کو فولٹ کروں پھر بوتھ سے نکلو۔ یہ سب کچھ ہمارے گاؤں میں صرف نہیں تھا بلکہ خیبر پختونخوا سمیت پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں بھی اسی طرح انتظامات تھے جہاں جہاں دوستوں سے بات ہوئی سب نے کہا کہ بہترین انتظامات ہوئے ہیں، خاص کر فوج کی وجہ سے کوئی ہٹلر بازی اس دفعہ نہیں ہوئی ۔ یہ تھا فوج کا وہ کردار جس کوروایتی سیاست قبول نہیں کررہے ہیں ۔ان پروپیگنڈا کرنے والے جماعتوں سے اپنی ہی لوگ اس لئے بھی اب مایوس ہوئے کہ اس دفعہ الیکشن بہت شفاف اور بہتر ین طریقے سے ہوئے ۔

فوج کے خلاف یہ الزامات بھی تھے کہ کراچی میں پاک سرزمین پارٹی ، پنجاب میں تحریک لیبک اور ملک بھر میں آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے والے جیب کے نشان کے پیچھے فوج کی حمایت حاصل ہے اور ان پارٹیوں کو اہمیت دی گئی ہے ۔ اﷲ کا کرنا کہ ان پارٹیوں نے کوئی سیٹ ہی پورے ملک سے نہیں جیتی جبکہ دوسرے نشانوں سے لڑ نے والے آ زاد بھی اس دفعہ کم تعداد میں جیت گئے ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کا شورمچانے والے پنجاب میں ن لیگ نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں جیتی ، اس طرح سند ھ میں پیپلز پارٹی نے قومی اور صوبائی نشستیں زیادہ حاصل کی ہے جبکہ تحریک انصاف نے کے پی اور پورے ملک میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی جس سے ان کو اکثریت مل گئی ہے ۔

اس میں میرا کوئی کمال نہیں کہ جو کالم اور سوشل میڈیا پر تجزیے الیکشن کے حوالے سے پیش کیے تھے وہ 99فیصد درست ثابت ہوئے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں کسی کوخوش کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے معلومات کے مطابق تجزیہ پیش کررہاتھا ۔ یہ تو وقت بتائے گا لیکن میرے دانستہ میں اس دفعہ بہتر ین صاف اور شفاف الیکشن ہوئے جو آنے والے وقت کیلئے بہتر ثابت ہوں گے۔اداروں کی مضبوط ہونے سے کوئی ادارہ، فرد یا فوج الیکشن سمیت کہی پر بھی کوئی اثرو رسوخ استعمال نہیں کرسکتا جس کیلئے سب کو کردار ادا کرنا چاہیے جو ماضی کی حکومتوں نے ادا نہیں کیا اور آج خود ہی واویلا کر رہے ہیں۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 202689 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More