ہم بحیثیت مجموعی اتنے ظالم کیوں ہوتے جا رہے ہیں کہ
مزہبی یا سیاسی اختتلافات کے باعث عام انسانی رویوں سے بھی دستبردار ہو
جاتے ہیں ۔
اگر جیل میں کڑوڑوں ووٹ لینے والے کا صحت کا معاملہ ہو تو غلام میڈیا پر
قانونی جائز اور ناجائز کی بحث چھڑ جاتی ہے کہ ہسپتال لے جایا جاسکتا ہے کہ
نہیں
۔ایک تاریخ میں لکھا واقعہ درج ہے کہ ایک نامی گرامی چور چوری کی نیت سے
ایک علاقہ کے حاکم کے پڑاو میں داخل ہوتا ہے
اُس کی نظر پڑتی ہے کہ حاکم لیٹا ہے اور سانپ اُس کے اوپر پھن پھلاۓ بیٹھا
ہے
اُس نے سوچا کہ ایک انسان مشکل میں ہے تو پہلے اس کی جان بچانی ہے
چوری کا پیشہ اس وقت ترک کر دیا جاۓ ۔
حاکم نے انعام دینا چاہا تو اُس نے انکار کر دیا کہ یہ کام میں نے انسانیت
کی خاطر کیا ہے
کوئ مزہب کو سیاست کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔
کوئ بدلہ لینے کے لئے جھوٹا پروپیگینڈا کرنے پر اُترا ہوا ہے ۔ ہماری
روایات کے بر عکس خواتین کو بھی رعایت نہیں دی جارہی ہے
یہ سب چیزیں بیمار زہنوں کی عکاسی کرتی ہے
اگر ہم مزہبی عالموں سے کچھ سیکھ نہیں پا رہے تو اُس چور سے ہی سیکھ لیں
|