رواوی: ارشد حکیم
منسانہ
مثل مشہور ہے‘ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں۔ اس کی عملی صورت‘ اس روز
دیکھنے میں آئی۔ ریاست ہائے گگن کے شہنشاہ کا ایلچی‘ کسی ریاست کے گورنر کے
پاس‘ شہنشاہ دلو لال کا ضروری پیغام لے کر جا رہا تھا۔ اس کا گھوڑا ہوا سے
باتیں کرتا ہوا‘ منزل مقصود کی طرف دوڑا چلا جاتا تھا کہ ایلچی نے دیکھا‘
ایک شخص سڑک کنارے‘ درختوں کے سایہ میں گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس کا منہ
کھلا ہوا تھا اور ایک سانپ اس کی طرف بڑھا چلا جاتا تھا۔ سانپ اس کے کھلے
منہ میں گھس گیا۔
یہ پہلا یا شاید آخری شاہی کرندہ تھا‘ جس کے من میں کسی گریب اور عام شخص
کے لئے‘ دیا نے سر اٹھایا‘ ورنہ شاہ اور شاہ والے مطلب سے غرض رکھتے ہیں۔
شاہ اور شاہ والوں کو‘ ہمیشہ حصولی سے ہی مطلب رہا ہے۔ کوئی مرے کھپے جان
سے جائے‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
وہ جلدیوں میں بھی تھا۔ اس لیے بھی‘ اس کی جان بچانے کی فکر لاحق ہونا‘
حیرت سے خالی نہ تھا۔ وہ تیزی سے‘ اس لیٹے ہوئے شخص کی طرف بڑھا۔ اس نے اس
شخص کے ایک چھانٹا رسید کیا اور کہا دوڑ۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ گھبرا
گیا کہ یہ آفت اچانک کہاں سے ٹوٹ پڑی۔ منہ اور دل ہی دل میں اسے گالیاں اور
بددعائیں دے رہا تھا۔ جب ٹھہرتا یا آہستہ ہوتا تو وہ چھانٹا رسید کرتا۔ اس
نے رک کر‘ سوار سے وجہ پوچھنے کی کوشش کی۔ جواب میں سوار نے ایک زور دار
چھانٹا رسید کیا۔ وہ پھر سے دوڑنے لگا۔ اس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹا پڑتا تھا
لیکن کیا کرتا‘ رکتا تو چھانٹا دوڑتا تو سانس پھولتا۔ خیر وہ پھر سے دوڑنے
لگا۔
آگے چل کر‘ ایک ندی آئی۔ اس نے پانی پینے کی اجازت طلب کی‘ جو مل گئی۔ اس
نے پیٹ اور حاجت بھر پانی پیا۔ جب رکا تو سوار نے کہا اور پی۔ اس نے اور
پیا۔ اس نے اسے اتنا پانی پلایا کہ اس شخص کی بس بس ہو گئی۔ سوار نے اسے
چھانٹا رسید کرکے دوبارہ سے دوڑنے کا حکم سنایا۔ وہ دوڑنے لگا۔ رکتا تو وہ
چھانٹا رسید کرتا۔
آگے چل کر ایک امرودوں کا باغ آ گیا۔ اس نے اسے امرود کھانے کا حکم لگایا۔
وہ امرود کھانے لگا۔ وہاں اور پی یہاں اور کھا اور کھا کا حکم صادر ہوا۔
آخر کب تک اسے قے آنا شروع ہو گئی۔ قے کے ساتھ منہ سے سانپ باہر آ گیا۔
سانپ کو دیکھ کر وہ شخص حیران رہ گیا۔ اصل معاملہ وہ اب سمجھا۔ اب کہ اس کے
منہ اور دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ سوار مسکرایا اور اپنی منزل کی طرف بڑھ
گیا۔
اس روز یہ بات بھی کھلی‘ بعض اوقات زحمت بھی رحمت کا سبب بنتی ہے۔ ہر زحمت
کی گرہ میں کوئی ناکوئی اچھائی بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔
|