نوازشریف کا نام نیست ونابود کردینے کی خواہش پوری
ہوچکی۔مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی ان کی جماعت کو کھڈے لائن لگادیا
جاچکا۔سابق وزیر اعظم ان دنوں جیل میں ہیں۔قانونی اورآئینی طور پر اس بات
کا اہتمام کردیا گیاہے کہ نوازشریف کسی قسم کی بلیک میلنگ کے قابل نہ
رہیں۔مرکز میں حکومت بننے نہیں دی گئی۔ایسی تمام جماعتوں کو کنٹرول میں
کرلیا گیا ہے۔جن سے نوازشریف کو کمک ملنے کی توقع کی جاسکتی تھی۔پی پی
قیادت کے گرد مقدمات کا اس قدر مضبوط جال بنادیا گیا ہے کہ وہ جارحانہ
سیاست کی ہمت نہیں کرپائے گی۔پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بنانا ممکن
تھا۔مگر چھوٹے میاں صاحب مقتدر حلقوں کو مطمئن نہ کرپائے۔وہ اپنے بڑے بھیا
کے خلاف اس ریڈ لائن کو کراس نہیں کرپائے۔جو پنجاب کی حکومت دینے کے لیے
رکھی گئی تھی۔اس صوبے میں حکومت بنوانے کے لیے پہلی ترجیح مسلم لیگ ن کا
باغی دھڑا تھا۔کوشش کی گی کہ نوازشریف اور ان کے چند جانثاران کو منہا کرکے
باقی پارٹی کو شہبازشریف کی قیادت میں آگے لایا جائے۔چھوٹے میاں صاحب کی طر
ف سے تسلی بخش کارکردگی نہ دکھاپانے کے سبب عمران پر اکتفا کرناپڑا۔
پیپلزپارٹی کواس الیکشن میں حسب توقع نتائج ملے ہیں۔شاید پی پی قیادت کچھ
بڑا کرنے کے موڈ میں تھی۔مگر اس جماعت کی پرفارمنس دیکھ کر کچھ اسی طرح کے
نتائج کی امید کی جارہی تھی۔سندھ میں اسے بڑا چیلنج درپیش نہ تھا۔دیہی سندھ
میں اسے بھرپور کامیابی ملی۔متحدہ کے ہاتھوں کراچی کے نکل جانے کابھی اسے
فائدہ ہوا۔پچھلے الیکشن میں اسے پینسٹھ کے قریب نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔اس
بار کراچی اور حیدرآباد کے واگزار ہونے کے سبب دس نشستیں زیادہ ملیں۔ان
دونوں شہروں میں مسلم لیگ ن کو میرٹ پر عوامی حماعت ملنا واجب تھی۔مگر کچھ
لوگوں نے نوازشریف کانام کھرچ دینے کا جو عزم کررکھا تھا۔وہ حائل ہوگیا۔
حمایت کو تحریک انصاف کی طرف متنقل کردیاگیا۔پی پی خوش ہے۔شریک چیئرمین آصف
زرداری بھی وہ بلندوبانگ دعوے بھول چکے جو ان الیکشن میں پارٹی کی بے مثال
کامیابی کے کرتے رہے تھے۔نہ ہی چیئرمین بلاول بھٹو کو اس بات کا قلق ہے کہ
انہوں نے پارٹی کے حیرا ن کردینے والے نتائج دینے کے بیان دیے تھے۔نہ پارٹی
بے مثال کامیابی پاسکی نا حیران کن نتائج دے سکی اس کے باوجود بلاول بھٹو
پارلیمان میں جانے کی بات کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی قائل کرلیا
گیا۔مولانا فضل الرحمان بڑے جزباتی تھے۔انہیں پی پی کی طرف سے جارحانہ رویہ
اپنائے جانے کی امید تھی۔انہیں پی پی سے توقع تھی کہ وہ بھی سندھ سے باہر
کی کراری شکست پر جزباتی ہوگی۔ان کا ساتھ دے گی۔مگر چیئرمین بلاول بھٹو
زرداری اور شریک چیئرمین آصف زرداری نے الیکشن نتائج پر رات گئی بات گئی کے
مصداق رویہ اپنایانتیجے میں مولانا صاحب کو ہی اپنے جزبات سردکرنا پرے
ہیں۔پی پی کی طرف سے یہ لاابالی پن سمجھ سے باہر ہے۔یوں لگتا ہے جیسے یہ
جماعت اب حکومت سازی کی دوڑ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ جیسے کوئی سو چ قصد ا
پی پی کے ایک بہت بڑے دیو کو بے جان کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
نوازشریف کی ناسازی طبع کو لے کر کچھ افسانہ گو بڑے متحرک رہے۔کچھ نے کوشش
کی کہ سابق وزیر اعظم کی بیماری کو ڈرامہ ثابت کیا جائے۔الیکشن میں ہمدردی
پانے کی ایک بھونڈی کوشش قراردیا جائے۔لوگوں کوبتایا جائے کہ ایک خود ساختہ
شیر کس طرح جیل کی سختیوں سے گھبرارہا ہے۔وہاں سے نکلنے کے لیے بیماری کا
بہانہ بنارہاہے۔کچھ افسانہ نگاروں کو اس سے بھی دور کی سوجھی یہ پراپیگنڈہ
کرنے لگے کہ نوازشریف معافی نامہ کرکے وطن سے باہر جانا چاہتے ہیں۔بیماری
کوڈھونگ بنا کروہ کوئی ڈیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ وہ وکوئی
معاہدہ کرکے وطن سے نکل جائیں۔وہ اس جان بخشی کے عوض سیاست سے دستبرداری پر
آمادہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔اس ناسازی طبع نے کئی ایک کو اوٹ پٹانگ رائے زنی کا
موقع دیا۔اب جبکہ حکومتی معالجوں کی ٹیم نے میاں صاحب کی خرابی صحت کی
تصدیق کردی ہے۔ان کے علاج کے لیے انہیں کچھ دن ہسپتال بھی رکھا گیا ہے توان
افسانہ نگاروں کے منہ لٹک رہے ہیں۔ان افسانہ نگا روں کی رضاکارانہ خدمت
گاری حیران کن ہے۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ ملازمین نوازشریف کو کمزور
کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ستر سالہ خرابیوں کی یہی بھدی
تصویر سابق وزیر اعظم کو بے چین کررہی ہے۔ان کی بغاوت اسی لیے دم نہیں توڑ
پارہی۔وہ چاہتے تو پمز ہسپتال میں ایک لمبا سٹے کرسکتے تھے۔مگر ان کی
باغیانہ ذہنیت انہیں پمز سے جیل جانے پر اکسا گئی۔لگتاہے وہ قوم سے بے
وفائی کا معمولی سا دھبہ لگوانے کو تیارنہیں وہ اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ان کی
وو ٹ کو عزت دو کی تحریک ان کی بغاوت کی جھلک ہے۔ سزا سنائے جانے کے بعد
بھی پاکستان واپسی ان کی باغیانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ ا ن کی جماعت کو الیکشن
سے آؤٹ کروادیا گیاہے۔وہ اب بھی ہارماننے پرآمادہ نہیں۔وہ اپنے حصے کا
فریضہ خوب نبھارہے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے ووٹ کو عزت دو کا جو علم بلند کیا
ہے۔اس سلسلے میں وہ کوئی کمی نہیں چھوڑ رہے۔ |