پاکستانی قوم اپنے الگ وطن کے قیام کی جب بھی سالگرہ مناۓ
گئ تب ان ہستیوں اور شخصیات کو بھی خراج تحسین پیش کرتی رہے گئ جنہوں نے اس
پاک سر زمین کے قیام میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
اہل علم کہتے ہیں اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں باعزت طور پر زندہ
رہتی ہیں جو اپنے رہنماؤں کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرتیں.اپنے رہنماوں
کے نظریاتی ورثوں تبلیغ و اشاعت کو اپنا فرض سمجھ کر سرانجام دیں۔ اور یہی
نظریاتی وابستگی‘ قوموں کو فکر حریت اور خودشناسی کے جذبوں سے ناصرف
مالامال کرتی ہے بلکہ وہ ایک آزاد‘ خود مختار اور غیرت مند قوموں کی حیثیت
سے اپنا مقام بناتی بھی ہیں اور بنتی بھی ہیں ۔مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ
بھی ایسی ہی نادر اورنابغۂ روزگار ہستی تھیں جن کی خدمات کو قوم کبھی
فراموش نہیں کر سکتی. .
پاکستان کے مؤقر حلقوں کے مطابق ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گامزن محمد علی
جناح کے ساتھ ایک اور شخصیت کا کردار بھی انتہائی اہم رہا ھے اور وہ تھیں
میرے قاہد جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ ,پاکستان میں محمد علی جناح
کو ’قائداعظم‘ اور فاطمہ جناح کو ’مادر ملت‘ کے القابالت سے نوازا گیا ۔
قیامِ پاکستان کے بعد فاطمہ جناح نے جس سیاسی بصیرت و قیادت، جرأت مندی اور
ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا تاریخ پاکستان کا ایک روشن باب تصور کیا جاتا
ہے.محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت یعنی قوم کی ماں کو تاریخ وسیاست نے مادر
ملت کو قائد اعظم کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بہن کے حوالے سے بہت بلند
مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام پاکستان اور خصوصاً 1965ء کے بعد کے سیاسی
نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ
ایک معنی خیز امر ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمر اہ موثر
طور پر 19سال رہیں یعنی 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائد کے بعد بھی وہ
اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946ء سے 1967ء تک لیکن اس دوسرے دور میں
ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر
کر سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائد اعظم کی جمہوری' بے باک اور شفاف
سیاسی اقدار کو ازسر نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران
بھول چکے تھے۔
اس سلسلے میں مادر ملت نے جن آرا کا اظہار کیا ان سے عصری سیاسیات و
معاملات پر ان کی ذہنی گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط نظر آتی ہے۔
1965ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر
ملت نے خود کہا تھا کہ ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی
فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے
جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔
محترمہ فاطمہ 31 جولائی 1893ء کراچی, (بمبئ پریزیڈینسی) موجودہ (پاکستان)
میں اور وفات 9جولائی 1967ء(74سال کی عمر میں) کراچی سندھ پاکستان میں
ھوئی.
انکا سیاسی جماعت کردار آل انڈیا مسلم لیگ میں (1947ء)اور قیام پاکستان کے
بعد مسلم لیگ میں (1947ءتا 1958ء)تک اپنی سیاسی وابستگی رکھی اسکے علاوہ آپ
آزاد حیثیت سے بھی (1958ءتا1967ء) تک اپنا سیاسی سفر جاری رکنا.آپکا ذریعہ
معاش دندان ساز، (ماہر جراح) تھا.
جناح خاندان گجراتی زبان بولتا تھاتاہم کراچی میں قیام کے دوران انہوں نے
سندھی کے علاوہ کچھ اور زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ جناح ؒ بھائی کی
زوجہ میٹھی بائی کے ہاں 25دسمبر 1876ء کو ایک لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد
علی رکھا گیا۔ بعد ازاں دو بیٹیاں رحمت اور مریم پھر احمد علی اور بعد ازاں
شیریں پیدا ہوئیں 31جولائی1893ء کو میٹھی بائی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا
نام فاطمہ رکھا گیا
فاطمہ جناح ؒ کے بعد مٹھی بائی کے ہاں صرف ایک ولادت ہوئی۔ اس بچے کا نام
بندے علی رکھا گیا اس ولادت کے بعد میٹھی بائی وفات پا گئیں۔ والدہ کی وفات
کے وقت فاطمہ کی عمر دو سال تھی چنانچہ بڑی بہن مریم، فاطمہ کی پرورش کرنے
لگیں.
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں غلامی کے خلاف
جہدوجہد ہوتی رہی دوسری طرف قدرت بھارتی صوبے گجرات کی ریاست گوندل کو
تاریخ میں نمایاں مقام دلانے والی تھی۔ اس ریاست کے ایک گاؤں کا نام تھا
پانیلی۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک شخص پونجا نامی بھی رہتا تھا۔ ان کے تین
بیٹے تھے والجی بھائی ، نتھو بھائی اور جناح بھائی۔ بیٹی صرف ایک تھی جس کا
نام مان بی تھا۔
شیریں جناح کے مطابق جناح بھائی سب سے چھوٹے تھے۔ چھریرابدن ، چھوٹا قد
غالباً اسی لئے جینا کہلاتے تھے جس کے معنی ہیں (دبلا ،پتلا)۔ جینا کو جناح
انہوں نے خود بنایا یا یہ اصلاح سسرال والوں نے کی، یہ بات تحقیق طلب ہے۔
جناح کے معنی ہیں بازو۔ بہر حال بعد ازاں پونجا کو پونجاہ اور جینا کو جناح
لکھا جانے لگا۔ پونجا کھڈی کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ انہوں نے جناح کو
بھی اسی کام میں لگا دیا۔ جناح کاروبار کو موضع پانیلی تک محدود رکھنے کے
خلاف تھے اور اسے گوندل جیسے بڑے شہر تک وسعت دینا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ
والد نے جناح ؒ کو کچھ رقم دیکر کہا کہ اسے کسی نفع بخش کام میں لگاؤ۔ جناح
نے ایسا ہی کیا اور معقول منافع کمایا۔ باپ نے خوش ہو کر جناح کے لئے اپنی
اسماعیلی خوجہ برادری میں لڑکی تلاش کرنی شروع کر دی۔ بالآخر نواحی گاؤں
ڈھرنا کا اسماعیلی خاندان پسند آگیا اور اس کی لڑکی میٹھی (شیریں) بائی کی
شادی جناح ؒ سے کر دی گئی۔ یہ 1874ء کا واقعہ ہے۔ شادی کے بعد جب تجارت کو
فروغ حاصل ہوا تو جناح خاندان کراچی آگیا.
محمد علی کے والد کی تجارت روبہ زوال ہو چکی تھی چنانچہ 1897ء میں محمد علی
نے بمبئی جا کر پریکٹس شروع کر دی اور وکلا کے حلقے میں جلد ہی ان کا نام
مشہور ہو گیا۔ 1900ء میں محمد علی کو مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ یہ آسامی عارضی
تھی۔ انہوں نے اپنے خاندان کو بھی کراچی سے بمبئی بلا لیا۔ فاطمہ جناح ؒ
اپنی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں لکھتی ہیں : ’’جناح ؒ بھائی کی رفیقۂ حیات ان
کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں۔ والدہ کا انتقال اور والد کا کاروبار تباہ ہو چکا
تھا اس لئے والد نے محمد علی کی بات مانتے ہوئے کراچی کی سکونت ترک کر دی
اور بمبئی پہنچ گئے۔‘‘ جب خاندان بمبئی آگیا تو فاطمہ 8سال کی ہو چکی تھیں
چنانچہ گھر پر ہی ان کی تعلیم کا بندوبست کر دیا گیا۔
بہن بھائی میں ایسی محبت تھی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور ان کی یہی محبت
آگے چل کر دائمی شکل اختیار کر گئی۔ بھائی نے بہن کی پرورش کا ذمہ لے لیا
اور بہن نے بھائی کے ارمانوں کی تکمیل کی ذمہ داری قبول کر لی اور دونوں ہی
اپنے اپنے مشن کو مکمل کرنے میں لگ گئے۔ قدرت نے جن ہستیوں سے عظیم کام
لینا ہوتا ہے وہ ان کی رہنمائی بھی خود کرتی ہے۔ بچپن میں لڑکیوں کو گڑیوں
کا کھیل بہت پسند ہوا کرتا ہے لیکن فاطمہ کو اس کھیل سے کوئی دلچسپی نہ
تھی۔ وہ بچپن سے ہی مطالعہ کی عادی تھیں انہیں کھانے پینے کا قطعاً شوق نہ
تھا۔ صرف چاکلیٹ شوق سے کھاتیں اور پورا دن چاکلیٹ کھا کر ہی گزار دیتیں۔
انہیں سائیکل کی سواری بہت پسند تھی۔ فرصت کے اوقات وہ سائیکل چلا کر
گزارتیں۔ بچپن سے ہی انہیں سادہ لیکن صاف ستھرا لباس پسند تھا۔ زیورات سے
دور بھاگتی تھیں البتہ کسی زیور میں اگر موتی جڑے ہوئے ہوتے تو اسے
پہنناپسند کرتی تھیں
وہ دور تھا کہ جب مسلمانوں میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا انتہائی معیوب سمجھا
ھو اور انگریزی تعلیم دلوانا تو گناہ عظیم قرار پایا تھا۔ فرنگی کے سائے سے
بھی بچنے کو ثواب سمجھا جاتا ھو.
محمد علی نے فاطمہ کو سکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تو توقع کے مطابق
خاندان میں مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوالیکن محمد علی ؒ اپنے فیصلے پر اڑے
رہے۔
1902ء میں فاطمہ کو باندرہ کے کانوینٹ سکول میں داخل کرا دیا۔
وہ پڑھائی میں ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آتیں.
1906ء میں بھائی نے بہن کو سینٹ پٹیرک سکول گھنڈا میں داخل کرا دیا۔ یہاں
1910ء میں فاطمہ نے میڑک کاامتحان نمایاں طور پر پاس کیا۔ سکول کی تعلیم سے
فارغ ہو کر فاطمہ بھائی کے پاس آگئیں
فاطمہ نے سینئر کیمبرج کے امتحان کی تیاری کی اور 1913ء میں انہوں نے یہ
امتحان بھی پاس کر لیا۔
1923ء میں فاطمہ نے بمبئی کی عبدالرحمن سٹریٹ میں اپنا ڈینٹل کلینک قائم کر
لیا۔ یہ ان کی عملی زندگی کی ابتدا تھی۔ فاطمہ اس کلینک کے ذریعہ قریباً
سات سال تک عوام کی خدمت کرتی رہیں۔ اسی دوران وہ ایک میونسپل کلینک میں
بھی جاتیں جو دھوبی تلاؤ پر واقع تھا ،وہاں وہ غریبوں کا علاج مفت کیا
کرتیں
1938 ء میں جب محترمہ فاطمہ جناحؒ نے سیاست میں قدم رکھا اس وقت سے لے کر
1947ء یعنی قیام پاکستان تک محترمہ فاطمہ جناحؒ کی نجی اورسیاسی زندگی
برصغیر کی آزادی کی تحریک میں زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ قائداعظمؒ کی
اہلیہ کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو بھائی کا گھر اجڑنے سے فکر
لاحق ہوگئی چنانچہ انہوں نے اپنی تمام دیگر مصروفیات ترک کر دیں اور بھائی
کا گھر سنبھال لیا۔
بیگم زلیخا زار، فاطمہ جناح کی شخصیت کے حوالے سے بتاتی ہیں، ’’محترمہ
فاطمہ جناح ایک نہایت مخلص لیڈر تھیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے اپنے بھائی
کو بے حد سپورٹ دی۔
زلیخا زار کہتی ہیں کہ انہوں نے فاطمہ جناح سے زیادہ سادہ مزاج کسی کو نہیں
پایا، ’’کام کے معاملے میں وہ نہایت سخت خاتون تھیں۔ وہ یہ برداشت نہیں
کرتی تھیں کہ کوئی کام کو خراب کرے۔ وہ ایک perfectionist تھیں، وہ دکھاوے
کی بالکل شوقین نہیں تھیں اور جوکام کرتی تھیں پوری لگن اور خلوص کے ساتھ
کرتی تھیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی پوزیشن کا غلط
استعمال نہیں کیا۔‘‘
ایک بات اور کہ مادرِملّتؒ نے یہ وصیت کر دی تھی کہ وفات کے بعد انہیں
قائداعظمؒ کے قریب دفن کیا جائے۔ مادرِملّتؒ کی قبر مزارِ قائداعظمؒ سے ایک
سو بیس فٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔
بیگم زلیخا زار بتاتی ہیں کہ فاطمہ جناح خواتین کے لیے کئی سماجی اور
تعلیمی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں بلکہ وہ کئی اداروں کی
بانی بھی تھیں، ’’انہوں نے خود بھی کئی ادارے قائم کیے تھے
قائداعظمؒ جن پر پاکستان کا گورنر جنرل بننے کے باعث بہت سی ذمہ داریاں آن
پڑی تھیں مہاجرین کے لٹے پٹے اور تباہ حال قافلوں کی آباد کاری سے متعلق
متوحش اور متفکر رہنے لگے تھے۔ایسے میں مادرِ ملت ؒ پھر میدانِ عمل میں
آئیں اور خانماں برباد مسلمانوں کی آشیاں بندی کا سامان کرنے لگیں۔ وہ ان
زخم خور دہ مسلمانوں کو دیکھتی تھیں اور رو پڑتی تھیں۔ اس وقت ان کے اندر
وہی جذبہ روشن ہو گیا تھا جو تحریک پاکستان کے دنوں میں ان کے دل کو منور
کئے رکھتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا جس سے
ان کی صحت پر شدید اثر پڑا ڈاکٹروں کے مشورے کے برعکس انہوں نے اپنے
معمولات جاری رکھے جس سے ان کا مرض بڑھتا چلا گیا چنانچہ 6 جولائی 1948ء کو
مادرِ ملتؒ اپنے قائد اپنے بھائی کو بغرض آرام کوئٹہ لے گئیں مگر قائداعظمؒ
نے وہاں بھی آرام نہ کیا اور کام جاری رکھا۔ قائداعظمؒ کی علالت نے مادرِ
ملت کی مصروفیات اور تفکرات میں اضافہ کر دیا تھا وہ چوبیس گھنٹے اپنے
بھائی کی تیماری داری کے لیے حاضر و مستعد رہتی تھیں بھائی کا کھانا اپنی
نگرانی میں پکواتیں اور خود اپنے سامنے کھلاتیں‘ وقت پر دوائی کھلاتیں اور
دن رات قائداعظمؒ کی طبیعت کو بشاش رکھنے کے لیے ان سے باتوں میں مصروف
رہتیں ملک بھر سے قائداعظمؒ کی مزاج پرسی کے لیے آنے والی شخصیتوں سے
ملاقات کرتیں ان کے نام آنے والی ڈاک کا مطالعہ کرتیں۔ مادرِ ملتؒ نے
قائداعظمؒ کی خاطر دن کا آرام اور رات کی نیند حرام کر لی تھیں کوئٹہ میں
بھی قائداعظمؒ کی طبیعت نہ سنبھلی تو ڈاکٹروں کے مشورے پر انہیں 11 ستمبر
1948ء کو کراچی منتقل کر دیا گیا جہاں اسی شام انہوں نے مادرِ ملتؒ کی طرف
دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے قریب بلایا اور آخری بار کوشش کر کے زیر
لب مخاطب ہوئے ’’فاطی۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔ لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ پھر
ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔ محترمہ
فاطمہ جناح کا وہ بھائی رخصت ہو چکا تھا جس نے زندگی بھر کسی سے ہار نہ
مانی جس نے ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ کو پارہ پارہ کر ڈالا اور جس نے
پاکستان کی شکل میں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ کر دکھایا۔ مادرِ ملتؒ
جانتی تھیں کہ ان کا غم بھائی کو واپس نہیں لا سکتا خدا کی مرضی پوری ہو
چکی ہے لیکن جس کے ساتھ زندگی کے پچپن برس گزارے ہوں جس بھائی نے ماں باپ
بن کر بہن کی پرورش اور تربیت کی ہو وہ بہن انہیں کس طرح فراموش کر سکتی
تھی۔
محترمہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ اقتصادی آزادی کی بھی خواہاں تھیں اور
فاطمہ جناح چاہتی تھیں کہ ملک و قوم کی تقدیر اسلامی اصولوں کی روشنی میں
پروان ھو.
پاکستان عوامی تحریک کی مرکزی رہنماء نوشابہ ضیاء نے کہا ہے کہ فاطمہ جناح
عالم اسلام کی وہ خوش نصیب خاتون تھیں جنہیں بانی پاکستان قائد اعظم جیسے
عظیم بھائی کا ساتھ نصیب ہوا۔ یوں محسوس ہوتا کہ محمد علی جناح کی زندگی
فاطمہ جناح کی زندگی تھی اور فاطمہ جنا ح کی زندگی قائداعظم کی زندگی تھی۔
عمروں کے فرق اور فاصلے کے باوجود فاطمہ جناح کی زندگی حضرت قائد اعظم کی
زندگی کے ساتھ اس قدر متوازی چلتی ہے کہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی
ایک شخصیت کی نہیں دو شخصیتوں کی سوانح ہے۔ مادر ملت اپنے عظیم بھائی کی
تصویر تھیں۔محترمہ فاطمہ جناح کا کردارعالم اسلام کی خواتین کیلئے مشعل راہ
ہے.اللہ پاک مغفرت فرماۓ آمین
پاکستانی قوم اپنے الگ وطن کے قیام کی جب بھی سالگرہ مناۓ گئ تب ان ہستیوں
اور شخصیات کو بھی خراج تحسین پیش کرتی رہے گئ جنہوں نے اس پاک سر زمین کے
قیام میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
اہل علم کہتے ہیں اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں باعزت طور پر زندہ
رہتی ہیں جو اپنے رہنماؤں کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرتیں.اپنے رہنماوں
کے نظریاتی ورثوں تبلیغ و اشاعت کو اپنا فرض سمجھ کر سرانجام دیں۔ اور یہی
نظریاتی وابستگی‘ قوموں کو فکر حریت اور خودشناسی کے جذبوں سے ناصرف
مالامال کرتی ہے بلکہ وہ ایک آزاد‘ خود مختار اور غیرت مند قوموں کی حیثیت
سے اپنا مقام بناتی بھی ہیں اور بنتی بھی ہیں ۔مادرِ ملت محترمہ فاطمہ
جناحؒ بھی ایسی ہی نادر اورنابغۂ روزگار ہستی تھیں جن کی خدمات کو قوم کبھی
فراموش نہیں کر سکتی. .
پاکستان کے مؤقر حلقوں کے مطابق ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گامزن محمد علی
جناح کے ساتھ ایک اور شخصیت کا کردار بھی انتہائی اہم رہا ھے اور وہ تھیں
میرے قاہد جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ ,پاکستان میں محمد علی جناح
کو ’قائداعظم‘ اور فاطمہ جناح کو ’مادر ملت‘ کے القابالت سے نوازا گیا ۔
قیامِ پاکستان کے بعد فاطمہ جناح نے جس سیاسی بصیرت و قیادت، جرأت مندی اور
ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا تاریخ پاکستان کا ایک روشن باب تصور کیا جاتا
ہے.محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت یعنی قوم کی ماں کو تاریخ وسیاست نے مادر
ملت کو قائد اعظم کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بہن کے حوالے سے بہت بلند
مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام پاکستان اور خصوصاً 1965ء کے بعد کے سیاسی
نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ
ایک معنی خیز امر ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمر اہ موثر
طور پر 19سال رہیں یعنی 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائد کے بعد بھی وہ
اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946ء سے 1967ء تک لیکن اس دوسرے دور میں
ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر
کر سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائد اعظم کی جمہوری' بے باک اور شفاف
سیاسی اقدار کو ازسر نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران
بھول چکے تھے۔
اس سلسلے میں مادر ملت نے جن آرا کا اظہار کیا ان سے عصری سیاسیات و
معاملات پر ان کی ذہنی گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط نظر آتی ہے۔
1965ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر
ملت نے خود کہا تھا کہ ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی
فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے
جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔
محترمہ فاطمہ 31 جولائی 1893ء کراچی, (بمبئ پریزیڈینسی) موجودہ (پاکستان)
میں اور وفات 9جولائی 1967ء(74سال کی عمر میں) کراچی سندھ پاکستان میں
ھوئی.
انکا سیاسی جماعت کردار آل انڈیا مسلم لیگ میں (1947ء)اور قیام پاکستان کے
بعد مسلم لیگ میں (1947ءتا 1958ء)تک اپنی سیاسی وابستگی رکھی اسکے علاوہ آپ
آزاد حیثیت سے بھی (1958ءتا1967ء) تک اپنا سیاسی سفر جاری رکنا.آپکا ذریعہ
معاش دندان ساز، (ماہر جراح) تھا.
جناح خاندان گجراتی زبان بولتا تھاتاہم کراچی میں قیام کے دوران انہوں نے
سندھی کے علاوہ کچھ اور زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ جناح ؒ بھائی کی
زوجہ میٹھی بائی کے ہاں 25دسمبر 1876ء کو ایک لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد
علی رکھا گیا۔ بعد ازاں دو بیٹیاں رحمت اور مریم پھر احمد علی اور بعد ازاں
شیریں پیدا ہوئیں 31جولائی1893ء کو میٹھی بائی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا
نام فاطمہ رکھا گیا
فاطمہ جناح ؒ کے بعد مٹھی بائی کے ہاں صرف ایک ولادت ہوئی۔ اس بچے کا نام
بندے علی رکھا گیا اس ولادت کے بعد میٹھی بائی وفات پا گئیں۔ والدہ کی وفات
کے وقت فاطمہ کی عمر دو سال تھی چنانچہ بڑی بہن مریم، فاطمہ کی پرورش کرنے
لگیں.
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں غلامی کے خلاف
جہدوجہد ہوتی رہی دوسری طرف قدرت بھارتی صوبے گجرات کی ریاست گوندل کو
تاریخ میں نمایاں مقام دلانے والی تھی۔ اس ریاست کے ایک گاؤں کا نام تھا
پانیلی۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک شخص پونجا نامی بھی رہتا تھا۔ ان کے تین
بیٹے تھے والجی بھائی ، نتھو بھائی اور جناح بھائی۔ بیٹی صرف ایک تھی جس کا
نام مان بی تھا۔
شیریں جناح کے مطابق جناح بھائی سب سے چھوٹے تھے۔ چھریرابدن ، چھوٹا قد
غالباً اسی لئے جینا کہلاتے تھے جس کے معنی ہیں (دبلا ،پتلا)۔ جینا کو جناح
انہوں نے خود بنایا یا یہ اصلاح سسرال والوں نے کی، یہ بات تحقیق طلب ہے۔
جناح کے معنی ہیں بازو۔ بہر حال بعد ازاں پونجا کو پونجاہ اور جینا کو جناح
لکھا جانے لگا۔ پونجا کھڈی کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ انہوں نے جناح کو
بھی اسی کام میں لگا دیا۔ جناح کاروبار کو موضع پانیلی تک محدود رکھنے کے
خلاف تھے اور اسے گوندل جیسے بڑے شہر تک وسعت دینا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ
والد نے جناح ؒ کو کچھ رقم دیکر کہا کہ اسے کسی نفع بخش کام میں لگاؤ۔ جناح
نے ایسا ہی کیا اور معقول منافع کمایا۔ باپ نے خوش ہو کر جناح کے لئے اپنی
اسماعیلی خوجہ برادری میں لڑکی تلاش کرنی شروع کر دی۔ بالآخر نواحی گاؤں
ڈھرنا کا اسماعیلی خاندان پسند آگیا اور اس کی لڑکی میٹھی (شیریں) بائی کی
شادی جناح ؒ سے کر دی گئی۔ یہ 1874ء کا واقعہ ہے۔ شادی کے بعد جب تجارت کو
فروغ حاصل ہوا تو جناح خاندان کراچی آگیا.
محمد علی کے والد کی تجارت روبہ زوال ہو چکی تھی چنانچہ 1897ء میں محمد علی
نے بمبئی جا کر پریکٹس شروع کر دی اور وکلا کے حلقے میں جلد ہی ان کا نام
مشہور ہو گیا۔ 1900ء میں محمد علی کو مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ یہ آسامی عارضی
تھی۔ انہوں نے اپنے خاندان کو بھی کراچی سے بمبئی بلا لیا۔ فاطمہ جناح ؒ
اپنی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں لکھتی ہیں : ’’جناح ؒ بھائی کی رفیقۂ حیات ان
کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں۔ والدہ کا انتقال اور والد کا کاروبار تباہ ہو چکا
تھا اس لئے والد نے محمد علی کی بات مانتے ہوئے کراچی کی سکونت ترک کر دی
اور بمبئی پہنچ گئے۔‘‘ جب خاندان بمبئی آگیا تو فاطمہ 8سال کی ہو چکی تھیں
چنانچہ گھر پر ہی ان کی تعلیم کا بندوبست کر دیا گیا۔
بہن بھائی میں ایسی محبت تھی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور ان کی یہی محبت
آگے چل کر دائمی شکل اختیار کر گئی۔ بھائی نے بہن کی پرورش کا ذمہ لے لیا
اور بہن نے بھائی کے ارمانوں کی تکمیل کی ذمہ داری قبول کر لی اور دونوں ہی
اپنے اپنے مشن کو مکمل کرنے میں لگ گئے۔ قدرت نے جن ہستیوں سے عظیم کام
لینا ہوتا ہے وہ ان کی رہنمائی بھی خود کرتی ہے۔ بچپن میں لڑکیوں کو گڑیوں
کا کھیل بہت پسند ہوا کرتا ہے لیکن فاطمہ کو اس کھیل سے کوئی دلچسپی نہ
تھی۔ وہ بچپن سے ہی مطالعہ کی عادی تھیں انہیں کھانے پینے کا قطعاً شوق نہ
تھا۔ صرف چاکلیٹ شوق سے کھاتیں اور پورا دن چاکلیٹ کھا کر ہی گزار دیتیں۔
انہیں سائیکل کی سواری بہت پسند تھی۔ فرصت کے اوقات وہ سائیکل چلا کر
گزارتیں۔ بچپن سے ہی انہیں سادہ لیکن صاف ستھرا لباس پسند تھا۔ زیورات سے
دور بھاگتی تھیں البتہ کسی زیور میں اگر موتی جڑے ہوئے ہوتے تو اسے
پہنناپسند کرتی تھیں
وہ دور تھا کہ جب مسلمانوں میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا انتہائی معیوب سمجھا
ھو اور انگریزی تعلیم دلوانا تو گناہ عظیم قرار پایا تھا۔ فرنگی کے سائے سے
بھی بچنے کو ثواب سمجھا جاتا ھو.
محمد علی نے فاطمہ کو سکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تو توقع کے مطابق
خاندان میں مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوالیکن محمد علی ؒ اپنے فیصلے پر اڑے
رہے۔
1902ء میں فاطمہ کو باندرہ کے کانوینٹ سکول میں داخل کرا دیا۔
وہ پڑھائی میں ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آتیں.
1906ء میں بھائی نے بہن کو سینٹ پٹیرک سکول گھنڈا میں داخل کرا دیا۔ یہاں
1910ء میں فاطمہ نے میڑک کاامتحان نمایاں طور پر پاس کیا۔ سکول کی تعلیم سے
فارغ ہو کر فاطمہ بھائی کے پاس آگئیں
فاطمہ نے سینئر کیمبرج کے امتحان کی تیاری کی اور 1913ء میں انہوں نے یہ
امتحان بھی پاس کر لیا۔
1923ء میں فاطمہ نے بمبئی کی عبدالرحمن سٹریٹ میں اپنا ڈینٹل کلینک قائم کر
لیا۔ یہ ان کی عملی زندگی کی ابتدا تھی۔ فاطمہ اس کلینک کے ذریعہ قریباً
سات سال تک عوام کی خدمت کرتی رہیں۔ اسی دوران وہ ایک میونسپل کلینک میں
بھی جاتیں جو دھوبی تلاؤ پر واقع تھا ،وہاں وہ غریبوں کا علاج مفت کیا
کرتیں
1938 ء میں جب محترمہ فاطمہ جناحؒ نے سیاست میں قدم رکھا اس وقت سے لے کر
1947ء یعنی قیام پاکستان تک محترمہ فاطمہ جناحؒ کی نجی اورسیاسی زندگی
برصغیر کی آزادی کی تحریک میں زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ قائداعظمؒ کی
اہلیہ کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو بھائی کا گھر اجڑنے سے فکر
لاحق ہوگئی چنانچہ انہوں نے اپنی تمام دیگر مصروفیات ترک کر دیں اور بھائی
کا گھر سنبھال لیا۔
بیگم زلیخا زار، فاطمہ جناح کی شخصیت کے حوالے سے بتاتی ہیں، ’’محترمہ
فاطمہ جناح ایک نہایت مخلص لیڈر تھیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے اپنے بھائی
کو بے حد سپورٹ دی۔
زلیخا زار کہتی ہیں کہ انہوں نے فاطمہ جناح سے زیادہ سادہ مزاج کسی کو نہیں
پایا، ’’کام کے معاملے میں وہ نہایت سخت خاتون تھیں۔ وہ یہ برداشت نہیں
کرتی تھیں کہ کوئی کام کو خراب کرے۔ وہ ایک perfectionist تھیں، وہ دکھاوے
کی بالکل شوقین نہیں تھیں اور جوکام کرتی تھیں پوری لگن اور خلوص کے ساتھ
کرتی تھیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی پوزیشن کا غلط
استعمال نہیں کیا۔‘‘
ایک بات اور کہ مادرِملّتؒ نے یہ وصیت کر دی تھی کہ وفات کے بعد انہیں
قائداعظمؒ کے قریب دفن کیا جائے۔ مادرِملّتؒ کی قبر مزارِ قائداعظمؒ سے ایک
سو بیس فٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔
بیگم زلیخا زار بتاتی ہیں کہ فاطمہ جناح خواتین کے لیے کئی سماجی اور
تعلیمی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں بلکہ وہ کئی اداروں کی
بانی بھی تھیں، ’’انہوں نے خود بھی کئی ادارے قائم کیے تھے
قائداعظمؒ جن پر پاکستان کا گورنر جنرل بننے کے باعث بہت سی ذمہ داریاں آن
پڑی تھیں مہاجرین کے لٹے پٹے اور تباہ حال قافلوں کی آباد کاری سے متعلق
متوحش اور متفکر رہنے لگے تھے۔ایسے میں مادرِ ملت ؒ پھر میدانِ عمل میں
آئیں اور خانماں برباد مسلمانوں کی آشیاں بندی کا سامان کرنے لگیں۔ وہ ان
زخم خور دہ مسلمانوں کو دیکھتی تھیں اور رو پڑتی تھیں۔ اس وقت ان کے اندر
وہی جذبہ روشن ہو گیا تھا جو تحریک پاکستان کے دنوں میں ان کے دل کو منور
کئے رکھتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا جس سے
ان کی صحت پر شدید اثر پڑا ڈاکٹروں کے مشورے کے برعکس انہوں نے اپنے
معمولات جاری رکھے جس سے ان کا مرض بڑھتا چلا گیا چنانچہ 6 جولائی 1948ء کو
مادرِ ملتؒ اپنے قائد اپنے بھائی کو بغرض آرام کوئٹہ لے گئیں مگر قائداعظمؒ
نے وہاں بھی آرام نہ کیا اور کام جاری رکھا۔ قائداعظمؒ کی علالت نے مادرِ
ملت کی مصروفیات اور تفکرات میں اضافہ کر دیا تھا وہ چوبیس گھنٹے اپنے
بھائی کی تیماری داری کے لیے حاضر و مستعد رہتی تھیں بھائی کا کھانا اپنی
نگرانی میں پکواتیں اور خود اپنے سامنے کھلاتیں‘ وقت پر دوائی کھلاتیں اور
دن رات قائداعظمؒ کی طبیعت کو بشاش رکھنے کے لیے ان سے باتوں میں مصروف
رہتیں ملک بھر سے قائداعظمؒ کی مزاج پرسی کے لیے آنے والی شخصیتوں سے
ملاقات کرتیں ان کے نام آنے والی ڈاک کا مطالعہ کرتیں۔ مادرِ ملتؒ نے
قائداعظمؒ کی خاطر دن کا آرام اور رات کی نیند حرام کر لی تھیں کوئٹہ میں
بھی قائداعظمؒ کی طبیعت نہ سنبھلی تو ڈاکٹروں کے مشورے پر انہیں 11 ستمبر
1948ء کو کراچی منتقل کر دیا گیا جہاں اسی شام انہوں نے مادرِ ملتؒ کی طرف
دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے قریب بلایا اور آخری بار کوشش کر کے زیر
لب مخاطب ہوئے ’’فاطی۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔ لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ پھر
ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔ محترمہ
فاطمہ جناح کا وہ بھائی رخصت ہو چکا تھا جس نے زندگی بھر کسی سے ہار نہ
مانی جس نے ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ کو پارہ پارہ کر ڈالا اور جس نے
پاکستان کی شکل میں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ کر دکھایا۔ مادرِ ملتؒ
جانتی تھیں کہ ان کا غم بھائی کو واپس نہیں لا سکتا خدا کی مرضی پوری ہو
چکی ہے لیکن جس کے ساتھ زندگی کے پچپن برس گزارے ہوں جس بھائی نے ماں باپ
بن کر بہن کی پرورش اور تربیت کی ہو وہ بہن انہیں کس طرح فراموش کر سکتی
تھی۔
محترمہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ اقتصادی آزادی کی بھی خواہاں تھیں اور
فاطمہ جناح چاہتی تھیں کہ ملک و قوم کی تقدیر اسلامی اصولوں کی روشنی میں
پروان ھو.
پاکستان عوامی تحریک کی مرکزی رہنماء نوشابہ ضیاء نے کہا ہے کہ فاطمہ جناح
عالم اسلام کی وہ خوش نصیب خاتون تھیں جنہیں بانی پاکستان قائد اعظم جیسے
عظیم بھائی کا ساتھ نصیب ہوا۔ یوں محسوس ہوتا کہ محمد علی جناح کی زندگی
فاطمہ جناح کی زندگی تھی اور فاطمہ جنا ح کی زندگی قائداعظم کی زندگی تھی۔
عمروں کے فرق اور فاصلے کے باوجود فاطمہ جناح کی زندگی حضرت قائد اعظم کی
زندگی کے ساتھ اس قدر متوازی چلتی ہے کہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی
ایک شخصیت کی نہیں دو شخصیتوں کی سوانح ہے۔ مادر ملت اپنے عظیم بھائی کی
تصویر تھیں۔محترمہ فاطمہ جناح کا کردارعالم اسلام کی خواتین کیلئے مشعل راہ
ہے.اللہ پاک مغفرت فرماۓ آمین
پاکستانی قوم اپنے الگ وطن کے قیام کی جب بھی سالگرہ مناۓ گئ تب ان ہستیوں
اور شخصیات کو بھی خراج تحسین پیش کرتی رہے گئ جنہوں نے اس پاک سر زمین کے
قیام میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
اہل علم کہتے ہیں اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں باعزت طور پر زندہ
رہتی ہیں جو اپنے رہنماؤں کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرتیں.اپنے رہنماوں
کے نظریاتی ورثوں تبلیغ و اشاعت کو اپنا فرض سمجھ کر سرانجام دیں۔ اور یہی
نظریاتی وابستگی‘ قوموں کو فکر حریت اور خودشناسی کے جذبوں سے ناصرف
مالامال کرتی ہے بلکہ وہ ایک آزاد‘ خود مختار اور غیرت مند قوموں کی حیثیت
سے اپنا مقام بناتی بھی ہیں اور بنتی بھی ہیں ۔مادرِ ملت محترمہ فاطمہ
جناحؒ بھی ایسی ہی نادر اورنابغۂ روزگار ہستی تھیں جن کی خدمات کو قوم کبھی
فراموش نہیں کر سکتی. .
پاکستان کے مؤقر حلقوں کے مطابق ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گامزن محمد علی
جناح کے ساتھ ایک اور شخصیت کا کردار بھی انتہائی اہم رہا ھے اور وہ تھیں
میرے قاہد جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ ,پاکستان میں محمد علی جناح
کو ’قائداعظم‘ اور فاطمہ جناح کو ’مادر ملت‘ کے القابالت سے نوازا گیا ۔
قیامِ پاکستان کے بعد فاطمہ جناح نے جس سیاسی بصیرت و قیادت، جرأت مندی اور
ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا تاریخ پاکستان کا ایک روشن باب تصور کیا جاتا
ہے.محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت یعنی قوم کی ماں کو تاریخ وسیاست نے مادر
ملت کو قائد اعظم کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بہن کے حوالے سے بہت بلند
مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام پاکستان اور خصوصاً 1965ء کے بعد کے سیاسی
نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ
ایک معنی خیز امر ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمر اہ موثر
طور پر 19سال رہیں یعنی 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائد کے بعد بھی وہ
اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946ء سے 1967ء تک لیکن اس دوسرے دور میں
ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر
کر سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائد اعظم کی جمہوری' بے باک اور شفاف
سیاسی اقدار کو ازسر نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران
بھول چکے تھے۔
اس سلسلے میں مادر ملت نے جن آرا کا اظہار کیا ان سے عصری سیاسیات و
معاملات پر ان کی ذہنی گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط نظر آتی ہے۔
1965ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر
ملت نے خود کہا تھا کہ ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی
فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے
جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔
محترمہ فاطمہ 31 جولائی 1893ء کراچی, (بمبئ پریزیڈینسی) موجودہ (پاکستان)
میں اور وفات 9جولائی 1967ء(74سال کی عمر میں) کراچی سندھ پاکستان میں
ھوئی.
انکا سیاسی جماعت کردار آل انڈیا مسلم لیگ میں (1947ء)اور قیام پاکستان کے
بعد مسلم لیگ میں (1947ءتا 1958ء)تک اپنی سیاسی وابستگی رکھی اسکے علاوہ آپ
آزاد حیثیت سے بھی (1958ءتا1967ء) تک اپنا سیاسی سفر جاری رکنا.آپکا ذریعہ
معاش دندان ساز، (ماہر جراح) تھا.
جناح خاندان گجراتی زبان بولتا تھاتاہم کراچی میں قیام کے دوران انہوں نے
سندھی کے علاوہ کچھ اور زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ جناح ؒ بھائی کی
زوجہ میٹھی بائی کے ہاں 25دسمبر 1876ء کو ایک لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد
علی رکھا گیا۔ بعد ازاں دو بیٹیاں رحمت اور مریم پھر احمد علی اور بعد ازاں
شیریں پیدا ہوئیں 31جولائی1893ء کو میٹھی بائی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا
نام فاطمہ رکھا گیا
فاطمہ جناح ؒ کے بعد مٹھی بائی کے ہاں صرف ایک ولادت ہوئی۔ اس بچے کا نام
بندے علی رکھا گیا اس ولادت کے بعد میٹھی بائی وفات پا گئیں۔ والدہ کی وفات
کے وقت فاطمہ کی عمر دو سال تھی چنانچہ بڑی بہن مریم، فاطمہ کی پرورش کرنے
لگیں.
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں غلامی کے خلاف
جہدوجہد ہوتی رہی دوسری طرف قدرت بھارتی صوبے گجرات کی ریاست گوندل کو
تاریخ میں نمایاں مقام دلانے والی تھی۔ اس ریاست کے ایک گاؤں کا نام تھا
پانیلی۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک شخص پونجا نامی بھی رہتا تھا۔ ان کے تین
بیٹے تھے والجی بھائی ، نتھو بھائی اور جناح بھائی۔ بیٹی صرف ایک تھی جس کا
نام مان بی تھا۔
شیریں جناح کے مطابق جناح بھائی سب سے چھوٹے تھے۔ چھریرابدن ، چھوٹا قد
غالباً اسی لئے جینا کہلاتے تھے جس کے معنی ہیں (دبلا ،پتلا)۔ جینا کو جناح
انہوں نے خود بنایا یا یہ اصلاح سسرال والوں نے کی، یہ بات تحقیق طلب ہے۔
جناح کے معنی ہیں بازو۔ بہر حال بعد ازاں پونجا کو پونجاہ اور جینا کو جناح
لکھا جانے لگا۔ پونجا کھڈی کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ انہوں نے جناح کو
بھی اسی کام میں لگا دیا۔ جناح کاروبار کو موضع پانیلی تک محدود رکھنے کے
خلاف تھے اور اسے گوندل جیسے بڑے شہر تک وسعت دینا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ
والد نے جناح ؒ کو کچھ رقم دیکر کہا کہ اسے کسی نفع بخش کام میں لگاؤ۔ جناح
نے ایسا ہی کیا اور معقول منافع کمایا۔ باپ نے خوش ہو کر جناح کے لئے اپنی
اسماعیلی خوجہ برادری میں لڑکی تلاش کرنی شروع کر دی۔ بالآخر نواحی گاؤں
ڈھرنا کا اسماعیلی خاندان پسند آگیا اور اس کی لڑکی میٹھی (شیریں) بائی کی
شادی جناح ؒ سے کر دی گئی۔ یہ 1874ء کا واقعہ ہے۔ شادی کے بعد جب تجارت کو
فروغ حاصل ہوا تو جناح خاندان کراچی آگیا.
محمد علی کے والد کی تجارت روبہ زوال ہو چکی تھی چنانچہ 1897ء میں محمد علی
نے بمبئی جا کر پریکٹس شروع کر دی اور وکلا کے حلقے میں جلد ہی ان کا نام
مشہور ہو گیا۔ 1900ء میں محمد علی کو مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ یہ آسامی عارضی
تھی۔ انہوں نے اپنے خاندان کو بھی کراچی سے بمبئی بلا لیا۔ فاطمہ جناح ؒ
اپنی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں لکھتی ہیں : ’’جناح ؒ بھائی کی رفیقۂ حیات ان
کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں۔ والدہ کا انتقال اور والد کا کاروبار تباہ ہو چکا
تھا اس لئے والد نے محمد علی کی بات مانتے ہوئے کراچی کی سکونت ترک کر دی
اور بمبئی پہنچ گئے۔‘‘ جب خاندان بمبئی آگیا تو فاطمہ 8سال کی ہو چکی تھیں
چنانچہ گھر پر ہی ان کی تعلیم کا بندوبست کر دیا گیا۔
بہن بھائی میں ایسی محبت تھی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور ان کی یہی محبت
آگے چل کر دائمی شکل اختیار کر گئی۔ بھائی نے بہن کی پرورش کا ذمہ لے لیا
اور بہن نے بھائی کے ارمانوں کی تکمیل کی ذمہ داری قبول کر لی اور دونوں ہی
اپنے اپنے مشن کو مکمل کرنے میں لگ گئے۔ قدرت نے جن ہستیوں سے عظیم کام
لینا ہوتا ہے وہ ان کی رہنمائی بھی خود کرتی ہے۔ بچپن میں لڑکیوں کو گڑیوں
کا کھیل بہت پسند ہوا کرتا ہے لیکن فاطمہ کو اس کھیل سے کوئی دلچسپی نہ
تھی۔ وہ بچپن سے ہی مطالعہ کی عادی تھیں انہیں کھانے پینے کا قطعاً شوق نہ
تھا۔ صرف چاکلیٹ شوق سے کھاتیں اور پورا دن چاکلیٹ کھا کر ہی گزار دیتیں۔
انہیں سائیکل کی سواری بہت پسند تھی۔ فرصت کے اوقات وہ سائیکل چلا کر
گزارتیں۔ بچپن سے ہی انہیں سادہ لیکن صاف ستھرا لباس پسند تھا۔ زیورات سے
دور بھاگتی تھیں البتہ کسی زیور میں اگر موتی جڑے ہوئے ہوتے تو اسے
پہنناپسند کرتی تھیں
وہ دور تھا کہ جب مسلمانوں میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا انتہائی معیوب سمجھا
ھو اور انگریزی تعلیم دلوانا تو گناہ عظیم قرار پایا تھا۔ فرنگی کے سائے سے
بھی بچنے کو ثواب سمجھا جاتا ھو.
محمد علی نے فاطمہ کو سکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تو توقع کے مطابق
خاندان میں مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوالیکن محمد علی ؒ اپنے فیصلے پر اڑے
رہے۔
1902ء میں فاطمہ کو باندرہ کے کانوینٹ سکول میں داخل کرا دیا۔
وہ پڑھائی میں ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آتیں.
1906ء میں بھائی نے بہن کو سینٹ پٹیرک سکول گھنڈا میں داخل کرا دیا۔ یہاں
1910ء میں فاطمہ نے میڑک کاامتحان نمایاں طور پر پاس کیا۔ سکول کی تعلیم سے
فارغ ہو کر فاطمہ بھائی کے پاس آگئیں
فاطمہ نے سینئر کیمبرج کے امتحان کی تیاری کی اور 1913ء میں انہوں نے یہ
امتحان بھی پاس کر لیا۔
1923ء میں فاطمہ نے بمبئی کی عبدالرحمن سٹریٹ میں اپنا ڈینٹل کلینک قائم کر
لیا۔ یہ ان کی عملی زندگی کی ابتدا تھی۔ فاطمہ اس کلینک کے ذریعہ قریباً
سات سال تک عوام کی خدمت کرتی رہیں۔ اسی دوران وہ ایک میونسپل کلینک میں
بھی جاتیں جو دھوبی تلاؤ پر واقع تھا ،وہاں وہ غریبوں کا علاج مفت کیا
کرتیں
1938 ء میں جب محترمہ فاطمہ جناحؒ نے سیاست میں قدم رکھا اس وقت سے لے کر
1947ء یعنی قیام پاکستان تک محترمہ فاطمہ جناحؒ کی نجی اورسیاسی زندگی
برصغیر کی آزادی کی تحریک میں زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ قائداعظمؒ کی
اہلیہ کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو بھائی کا گھر اجڑنے سے فکر
لاحق ہوگئی چنانچہ انہوں نے اپنی تمام دیگر مصروفیات ترک کر دیں اور بھائی
کا گھر سنبھال لیا۔
بیگم زلیخا زار، فاطمہ جناح کی شخصیت کے حوالے سے بتاتی ہیں، ’’محترمہ
فاطمہ جناح ایک نہایت مخلص لیڈر تھیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے اپنے بھائی
کو بے حد سپورٹ دی۔
زلیخا زار کہتی ہیں کہ انہوں نے فاطمہ جناح سے زیادہ سادہ مزاج کسی کو نہیں
پایا، ’’کام کے معاملے میں وہ نہایت سخت خاتون تھیں۔ وہ یہ برداشت نہیں
کرتی تھیں کہ کوئی کام کو خراب کرے۔ وہ ایک perfectionist تھیں، وہ دکھاوے
کی بالکل شوقین نہیں تھیں اور جوکام کرتی تھیں پوری لگن اور خلوص کے ساتھ
کرتی تھیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی پوزیشن کا غلط
استعمال نہیں کیا۔‘‘
ایک بات اور کہ مادرِملّتؒ نے یہ وصیت کر دی تھی کہ وفات کے بعد انہیں
قائداعظمؒ کے قریب دفن کیا جائے۔ مادرِملّتؒ کی قبر مزارِ قائداعظمؒ سے ایک
سو بیس فٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔
بیگم زلیخا زار بتاتی ہیں کہ فاطمہ جناح خواتین کے لیے کئی سماجی اور
تعلیمی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں بلکہ وہ کئی اداروں کی
بانی بھی تھیں، ’’انہوں نے خود بھی کئی ادارے قائم کیے تھے
قائداعظمؒ جن پر پاکستان کا گورنر جنرل بننے کے باعث بہت سی ذمہ داریاں آن
پڑی تھیں مہاجرین کے لٹے پٹے اور تباہ حال قافلوں کی آباد کاری سے متعلق
متوحش اور متفکر رہنے لگے تھے۔ایسے میں مادرِ ملت ؒ پھر میدانِ عمل میں
آئیں اور خانماں برباد مسلمانوں کی آشیاں بندی کا سامان کرنے لگیں۔ وہ ان
زخم خور دہ مسلمانوں کو دیکھتی تھیں اور رو پڑتی تھیں۔ اس وقت ان کے اندر
وہی جذبہ روشن ہو گیا تھا جو تحریک پاکستان کے دنوں میں ان کے دل کو منور
کئے رکھتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا جس سے
ان کی صحت پر شدید اثر پڑا ڈاکٹروں کے مشورے کے برعکس انہوں نے اپنے
معمولات جاری رکھے جس سے ان کا مرض بڑھتا چلا گیا چنانچہ 6 جولائی 1948ء کو
مادرِ ملتؒ اپنے قائد اپنے بھائی کو بغرض آرام کوئٹہ لے گئیں مگر قائداعظمؒ
نے وہاں بھی آرام نہ کیا اور کام جاری رکھا۔ قائداعظمؒ کی علالت نے مادرِ
ملت کی مصروفیات اور تفکرات میں اضافہ کر دیا تھا وہ چوبیس گھنٹے اپنے
بھائی کی تیماری داری کے لیے حاضر و مستعد رہتی تھیں بھائی کا کھانا اپنی
نگرانی میں پکواتیں اور خود اپنے سامنے کھلاتیں‘ وقت پر دوائی کھلاتیں اور
دن رات قائداعظمؒ کی طبیعت کو بشاش رکھنے کے لیے ان سے باتوں میں مصروف
رہتیں ملک بھر سے قائداعظمؒ کی مزاج پرسی کے لیے آنے والی شخصیتوں سے
ملاقات کرتیں ان کے نام آنے والی ڈاک کا مطالعہ کرتیں۔ مادرِ ملتؒ نے
قائداعظمؒ کی خاطر دن کا آرام اور رات کی نیند حرام کر لی تھیں کوئٹہ میں
بھی قائداعظمؒ کی طبیعت نہ سنبھلی تو ڈاکٹروں کے مشورے پر انہیں 11 ستمبر
1948ء کو کراچی منتقل کر دیا گیا جہاں اسی شام انہوں نے مادرِ ملتؒ کی طرف
دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے قریب بلایا اور آخری بار کوشش کر کے زیر
لب مخاطب ہوئے ’’فاطی۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔ لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ پھر
ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔ محترمہ
فاطمہ جناح کا وہ بھائی رخصت ہو چکا تھا جس نے زندگی بھر کسی سے ہار نہ
مانی جس نے ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ کو پارہ پارہ کر ڈالا اور جس نے
پاکستان کی شکل میں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ کر دکھایا۔ مادرِ ملتؒ
جانتی تھیں کہ ان کا غم بھائی کو واپس نہیں لا سکتا خدا کی مرضی پوری ہو
چکی ہے لیکن جس کے ساتھ زندگی کے پچپن برس گزارے ہوں جس بھائی نے ماں باپ
بن کر بہن کی پرورش اور تربیت کی ہو وہ بہن انہیں کس طرح فراموش کر سکتی
تھی۔
محترمہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ اقتصادی آزادی کی بھی خواہاں تھیں اور
فاطمہ جناح چاہتی تھیں کہ ملک و قوم کی تقدیر اسلامی اصولوں کی روشنی میں
پروان ھو.
پاکستان عوامی تحریک کی مرکزی رہنماء نوشابہ ضیاء نے کہا ہے کہ فاطمہ جناح
عالم اسلام کی وہ خوش نصیب خاتون تھیں جنہیں بانی پاکستان قائد اعظم جیسے
عظیم بھائی کا ساتھ نصیب ہوا۔ یوں محسوس ہوتا کہ محمد علی جناح کی زندگی
فاطمہ جناح کی زندگی تھی اور فاطمہ جنا ح کی زندگی قائداعظم کی زندگی تھی۔
عمروں کے فرق اور فاصلے کے باوجود فاطمہ جناح کی زندگی حضرت قائد اعظم کی
زندگی کے ساتھ اس قدر متوازی چلتی ہے کہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی
ایک شخصیت کی نہیں دو شخصیتوں کی سوانح ہے۔ مادر ملت اپنے عظیم بھائی کی
تصویر تھیں۔محترمہ فاطمہ جناح کا کردارعالم اسلام کی خواتین کیلئے مشعل راہ
ہے.اللہ پاک مغفرت فرماۓ آمین |