پچھلے سال سے میرے پاس بنگال سے تعلق رکھنے والے عام آدمی
، طلباء اور اہل علم کابکثرت میسج آرہا ہے کہ یہاں کے بعض علماء بڑے جانور
یعنی گائے اور اونٹ میں سات آدمی کاحصہ نہیں مانتے ہیں، قربانی میں اشتراک
نہیں مانتے اس لئے اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں ۔ میں رابطہ کرنے والوں کو
ایک حدیث پیش کرکے مختصرالفاظ میں جواب دے دیا کرتا مگرجیسےلگتا اطمینان
نہیں ہورہاہےاور وقت کی قلت کی وجہ سے مفصل وضاحت نہیں کرسکتا تھا۔ اس وجہ
سے آج قدرے وضاحت مگرباختصار یہ مضمون لکھ رہاہوں امید کرتے ہوئے کہ عام
وخاص پر مسئلہ واضح ہوسکے اور متنازعہ منطقہ میں اختلاف رفع ہونے میں معاون
بن سکے ۔
صحیح مسلم میں کتاب الحج کے تحت ایک باب " "بَابُ الِاشْتِرَاكِ فِي
الْهَدْيِ وَإِجْزَاءِ الْبَقَرَةِ وَالْبَدَنَةِ كُلٍّ مِنْهُمَا عَنْ
سَبْعَةٍ"(باب: قربانی میں شراکت جائز ہے ‘اونٹ اور گائے میں سے ہر ایک سات
افراد کی طرف سے کافی ہے) ہے ۔ اس میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے جوکہ صحیح مسلم سمیت ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ ، سنن
دارقطنی،سنن دارمی، مسند احمد، موطا امام مالک، مصنف ابن ابی شیبہ، معجم
کبیر، معجم صغیر، معجم اوسط، سنن کبری، مستدرک حاکم وغیرہ متعدد کتب حدیث
میں ہے ۔ روایت اس طرح سے ہے ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وحَدَّثَنَا
يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ،
عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:نَحَرْنَا
مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ
الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ(صحيح مسلم:1318)
ترجمہ: امام لک نے ابو زبیر سے اور انھوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا حدیبیہ کے سال رسول اللہ ﷺ کی معیت
میں ہم نے ساتھ افراد کی طرف سے ایک اونٹ سات کی طرف سے اور ایک گا ئے سات
کی طرف سے قربانی دیں ۔
ذوالقعدہ 6 ہجری کو صلح حدیبیہ ہوئی ، اس سال نبی ﷺ اور صحابہ کرام کو عمرہ
کی ادائیگی کرنے سے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا گیا تو آپ ﷺاور صحابہ کرام
قربانی کر کے اوربال منڈاکر حلال ہوگئے ۔ اس موقعہ پر گائے اور اونٹ سات
سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے گئے۔
چونکہ یہ حدیث متعدد کتب احادیث میں آئی ہے اب ہم یہاں محدثین کے اس حدیث
کے تحت کتاب اور باب دیکھتے ہیں تاکہ ہمیں معلو م ہوسکے کہ حدیث جمع کرنے
اور اس کا علم رکھنے والوں نے اس سے سمجھا ہے ؟۔
(1)امام ابوداؤد نے کتاب الاضاحی کے تحت باب باندھا ہے " باب في البقر
والجزور عن كم تجزئ" یعنی کتاب: قربانی کے احکام و مسائل (باب: گائے اور
اونٹ کتنے افراد سے کفایت کرتے ہیں ؟)
(2)امام نسائی نے کتاب الضحایا کے تحت باب باندھا ہے"باب ما تجزئ عنه
البقرة في الضحايا" یعنی قربانی سے متعلق احکام و مسائل(قربانی میں گائے
کتنے افراد کی طرف سے کفایت کر سکتی ہے؟)
(3)امام ترمذی نے کہا ہے "كتاب الأضاحي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم »
باب ما جاء في الاشتراك في الأضحية یعنی كتاب: قربانی کے احکام ومسائل(باب:
قربانی میں اشتراک کا بیان)
(4)ابن ماجہ نے کتاب الاضاحی کے تحت باب باندھا ہے"باب عن كم تجزئ البدنة
والبقرةیعنی کتاب: قربانی سے متعلق احکام ومسائل(باب: اونٹ اور گائے( کی
قربانی) کتنے افراد کی طرف سے کفایت کرسکتی ہے؟)
(5)امام مالک نے کتاب الضحایا کے تحت باب باندھا ہے "باب الشركة في الضحايا
وعن كم تذبح البقرة والبدنة یعنی قربانی کی کتاب ، (قربانی میں اشتراک اور
گائے و اونٹ کتنے افراد کی طرف سے کفایت کریں گے اس کا باب)
(6)سنن دارمی میں ہے "كتاب الأضاحي» باب البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة
یعنی قربانی کی کتاب ( گائے سات اور اونٹ سات افراد کی طرف سے ہونے کا باب)
(7)امام بیہقی نے ذکر کیا ہے"كتاب الضحايا » باب الاشتراك في الهدي
والأضحية یعنی قربانی کی کتاب( حج کی قربانی اور عید کی قربانی میں اشتراک
کا باب )
ھدی کا اطلاق خاص حج کی قربانی پر ہوتا ہے لیکن "اضحیۃ"بھیمۃ الانعام (بھیڑ
بکری، اونٹ گائے) میں سے جو جانور عیدالاضحی کی مناسبت سے اللہ کے تقرب کے
لئے ذبح کیا جائے اس پر اطلاق ہوتا ہے۔
اس طرح ھدی اور اضحیۃ کے دونوں الفاظ کا استعمال کرکے امام بیہقی نے اپنے
باب سے یہ بات بالکل ہی واضح کردی کہ جس طرح حج کی قربانی میں اونٹ اور
گائے میں سات افراد شامل ہوسکتے ہیں اسی طرح عید کی قربانی میں بھی سات
افراد شامل ہوسکتے ہیں ۔
اوپر بعض محدث نے کتاب الاضاحی اور بعض نے کتاب الضحایا سے قربانی کا ذکر
کیا ہے ۔ اضاحی اور ضحایا دونوں الفاظ عید کی قربانی کے لئے مستعمل ہیں ۔
حدیث سے اضاحی کی دلیل جوکہ اضحیۃ کی جمع ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا دخل
العَشْرُ ، وعندَهُ أضحيةٌ ، يريدُ أن يُضحِّي ، فلا يأخذَنَّ شعرًا ولا
يُقَلِّمَنَّ ظفرًا(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب عشرہ(ذوالحجہ) شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے
کا ارادہ رکھتاہو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔
اور ضحایا کی دلیل :حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أعطاه غنَمًا يقسِمُها على صحابتِه
ضحايا، فبقِي عَتودٌ، فذكَره لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال :
ضحِّ به أنت .(صحيح البخاري:2500)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے طور پر صحابہ
کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کرتے کرتے صرف بکری
کاایک سالہ بچہ باقی رہ گیا جس کاانھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذ کر کیا تو آپ
نے فرمایا:صرف تمھیں اس کو بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت ہے۔
یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے اسے " كتاب الأضاحي » باب سن الأضحية کے تحت
ذکر کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا پہلی حدیث جس سے بڑے جانور میں سات افراد خواہ ایک گھر کے ہوں
یا متعدد گھر کے شامل ہوسکتے ہیں کا ثبوت ملتا ہے اور یہ موقع عمرہ کا تھا۔
اعتراض کرنے والوں کا اعتراض یہ ہے کہ مقیم حضرات بڑے جانور میں شریک نہیں
ہوسکتے ہیں اگر الگ الگ گھرانے کے افراد ہوں کیونکہ اشتراک والی حدیث مسافر
کے لئے ہے ۔
اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں ۔
پہلا جواب یہ ہے کہ ہمیں کتاب وسنت کے دلائل کو فہم سلف کی روشنی میں
سمجھنا ہے وگرنہ کوئی کچھ بھی معنی مراد لے سکتا ہے اور جس طرح چاہے مفہوم
کو اپنے مقاصد کی طرف پھیر سکتا ہے ۔ اس لحاظ سے فہم سلف کی روشنی میں اوپر
ہم نے جابر بن عبداللہ کی حدیث کا مفہوم یہ جانا کہ گائے اور اونٹ کی
قربانی میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں خواہ حج کے لئے ذبح کئے جائیں یا
عیدالاضحی کی مناسبت سے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ دوران حج، حجاج کرام سفر کا اعتبار نہیں کرتے بلکہ حج
سے متعلق سنت رسول اللہ ﷺ کا اعتبار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اہل مکہ جو کہ
مقیم ہوتے ہیں مگر منی، مزدلفہ اورعرفات میں قصر سے نمازیں ادا کرتے ہیں ۔
اس سے یہ دلیل ملتی ہے کہ قربانی کا تعلق سفر سے نہیں ہے حج وعمرہ اور
عیدالاضحی سے ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی حدیبیہ والی قربانی یا حاجی کی قربانی کو صرف
حج کے ساتھ خاص کرتا ہے تو پھر نبی ﷺ کا فرمان : كلُّ أيامِ التشريقِ ذَبحٌ
( السلسلة الصحيحة: 2476)ترجمہ:تشریق کے سارے دن ذبح(قربانی) کے دن ہیں۔
اس حدیث سے چار دن کی قربانی کا استدلال کرنا لغو ٹھہرے گا کیونکہ یہ تو حج
سے متعلق اس کے ایام ہیں ۔ گویا ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ حج سے متعلق بعض
کام خاص نہیں عام ہیں ۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ عمومی الفاظ کے ساتھ بھی بڑے جانور میں اشتراک کا ثبوت
ملتا ہے چنانچہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا:البَقرةُ عن سَبعةٍ، والجَزورُ عن سَبعةٍ(صحيح أبي
داود:2808)
ترجمہ: گائے سات افراد کی طرف سے ہے اور اونٹ بھی سات افراد کی طرف سے ہے۔
اس حدیث کے عام الفاظ مزید واضح کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺکا فرمان حج وعمرہ
اور عیدالاضحی کی دونوں قسم کی قربانی کو شامل ہے ۔اگر اس حدیث سے کسی کی
آنکھیں نہیں کھلتی ہیں تو اس سے زیادہ واضح اور دوٹوک حدیث موجود ہے اس کے
بعد کسی کلام کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔
امام طبرانی نے معجم اوسط (ح :6128) اور معجم کبیر(ح:10026) میں عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کا فرمان
ہے : البقرةُ عن سبعةٍ ، والجزُورُ عن سبعةٍ في الأَضاحِي.
ترجمہ: گائے سات آدمی کی جانب سے اور اونٹ سات آدمی کی جانب سے قربانی میں
کفایت کرنے والا ہے۔
اس حدیث کو علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔(صحیح
الجامع : 2890)۔اس حدیث میں واضح طور پر اضاحی کا لفظ آگیا جو کہ عید
الاضحی کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے۔
ایک اہم بات کی وضاحت :
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام حالت سفر میں تھے کہ
قربانی کا وقت آگیا ، اس موقع سے نبی ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم کی ۔ عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
كنَّا معَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في سفَرٍ، فحضرَ
الأضحى، فاشترَكْنا في البقرةِ سبعةً، وفي البعيرِ عشرةً(صحيح
الترمذي:1501)
ترجمہ: ہم لو گ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفرمیں تھے کہ قربانی کا دن آگیا
،چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس
آدمیوں کوشریک کیا ۔
یہ روایت مختلف کتب حدیث میں مروی ہے ، جاننے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ روایت
جس میں بطور خاص سفر کا لفظ آیا ہے جہاں جہاں بھی یہ روایت سفر کے لفظ کے
ساتھ آئی ہے ہرجگہ اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے اشتراک کا ذکر ہے جبکہ اس
مضمون کے شروع میں حدیبیہ کے سال اونٹ کی قربانی کا ذکر ہے ، یہ روایت بھی
مختلف کتب حدیث میں آئی مگر ہرجگہ اونٹ سات آدمی کی طرف سے کفایت کرنا ذکر
ہے ۔ امام شوکانی نے ان دونوں احادیث میں تطبیق کی یہ صورت دی ہے کہ سفر کے
موقع سے نبی ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کی اور ایک اونٹ کے بدلے دس بکریاں تقسیم
کیں یعنی ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر گردانا۔صحیح بخاری کی 2500 رقم والی
حدیث اسی بات کی تائید کرتی ہے۔ گویا سفر سے متعلق اس حدیث کا تعلق مال
غنیمت کی تقسیم سے ہے ۔
موضوع سے متعلق چند مسائل کی وضاحت :
٭ بڑے جانور اونٹ اور گائے میں سات سے کم افراد بھی شریک ہوسکتے ہیں کیونکہ
اشتراک کا اعلی معیار جب سات ہے تو ادنی معیار جو اس سے کم ہے ضرور قابل
قبول ہوگابلکہ بدرجہ اولی صحیح ہوگا۔
٭ گائے اور اونٹ میں سات افراد خواہ ایک گھر کے ہوں یا متعدد گھر کے شامل
ہوسکتے ہیں جیساکہ حدیبیہ کے سال صحابہ کرام اونٹ اور گائے میں سات افراد
شریک ہوئے ۔
٭جس طرح مسافر کے لئے بڑے جانور میں سات حصہ ہے اسی طرح مقیم کے لئے بھی ہے
کیونکہ حدیث عام ہے اس میں مسافر اور مقیم دونوں شامل ہیں۔
٭ بعض اہل علم نے ھدی (حج کی قربانی) میں اشتراک سے منع کیا ہے جبکہ صحیح
بات یہ ہے کہ اونٹ اور گائے میں سات سات افراد کا اشتراک جائز ہے اور نص سے
ثابت ہے ۔
٭ عقیقہ میں بڑے جانور کا ثبوت نہیں ہے اس وجہ سے چھوٹا جانور ہی عقیقہ
دیناچاہئے ، جب بڑے جانور کا عقیقہ میں ثبوت نہیں ملتا تو پھر اس میں
اشتراک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
٭ ایک آدمی قربانی کے طور پر اکیلے بڑا جانور گائے یا اونٹ دینا چاہئے تو
اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ سات سے کم افراد
بھی بڑے جانور میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ |