حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ’’ہم رحمتِ عالم
صلی اﷲ علیہ و سلم کے ساتھ (سفرِ حج میں) اس طرح روانہ ہوئے کہ ہم حج کے
لیے (دیوانہ وار)چلاتے تھے (یعنی حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے تھے
(مسلم، مشکوٰۃ)
حج‘ اﷲ سے محبت کی تکمیل اور عبدیت کی تصویر ہے :
’’عبدیت‘‘ انسانیت کا نہایت افضل و اعلیٰ مقام ہے ،جو اﷲ تعالیٰ کے منتخب
اور مخصوص بندوں کا وصف ِ خاص ہے ،اسی وجہ سے شبِ معراج میں رب العالمین نے
رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ و سلم کو اسی وصف سے یادفرمایا(أَسْریٰ
بِعَبْدِہ) کلمۂ شہادت میں بھی رسالت سے قبل عبدیت کا ذکر ہے ، جس سے مقامِ
عبدیت کی عظمت واضح ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ عبدیت کی حقیقت کیا ہے ؟ مختصر لفظوں میں اس کا سادہ جواب یہ
ہے کہ عبدیت تسلیم و رضا یعنی حکمِ خدا اور مرضی مولیٰ کے سامنے فنائیت
اختیار کرنے کا نام ہے ۔
ایک بندے کا سب سے بڑا وصف اور وظیفہ عبدیت ہی ہے ،جس میں عبدیت نہیں وہ
عبد کامل نہیں،اس کا رب اس سے راضی نہیں،اﷲ تعالیٰ کے تمام حکموں،عبادتوں،
ریاضتوں اور مجاہدوں کا مطلوب و مقصود یہی ہے کہ بندوں میں عبدیت اور
فنائیت کا جذبہ پیدا ہوجائے ،اﷲ تعالیٰ کے آگے سراپا تسلیم و رضا بن
جائیں،اور جب جو حکم ہو اسے بے چون و چرا مان لیں، پھر عجیب بات یہ ہے کہ
تمام اسلامی احکام، اعمال اور عبادات میں یہ شان موجود ہے کہ اس کی صحیح
ادائیگی سے ایک بندے میں عبدیت پیدا ہوجاتی ہے ،با لخصوص حج، جو اسلام کے
پانچ ارکان میں آخری اور تکمیلی رکن ہے ،اس میں اﷲ تعالیٰ سے محبت اور عظمت
کی تکمیل اور عبدیت و فنائیت کی تصویر ہے ، اگر حج و حاجی کے
حالات،ارکان،اعمال،افعال اور عبادات میں غور کیا جائے ،بلکہ ایک سرسری نظر
ڈالی جائے تو اس میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کی تکمیل اور عبدیت کی وہ تصویر نظر
آتی ہے کہ اس کے لیے کسی تفصیل و تشریح کی بھی حاجت وضرورت نہیں ۔
حج کا سفر عبدیت اور اﷲ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے :
چنانچہ دیکھئے !جو شخص حجِ بیت اﷲ کا ارادہ اور عزم کرکے گھر سے نکلتا ہے
توسفرِ حج کی ابتداء ہی میں وہ گھر بار ،کارو بار اور جمیع احباب و رشتہ
داروں کو خیر باد کہتا ہے ،اور رب کے لیے سب کو چھوڑتا ہے ، توعازمِ سفر حج
کے سر میں جو سودا سمایا ہے وہ ا ﷲ تعالیٰ کی رضا ہی تو ہے ، جس کے حصول کے
لیے وہ سفر کی مشقت بخوشی برداشت کرتا ہے ، اور سفر بھی وہ جس میں جسم و
جان،د ل و ایمان اور بحر و بر (خشکی و تری) کے خطرات موجود ہیں ،جس کی وجہ
سے بعض اوقات بڑے بڑے حلیم و برد بار بھی صبر و ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھتے
ہیں،اسی لیے تو سفر کو سقر کہا گیا، کہ سفر بھی ایک اعتبارسے عذابِ الٰہی
کا ایک حصہ ہے ،پھر سفرِ حج کا حال یہ ہے کہ اگر کامیابی کے ساتھ ادا ہو
گیا، یعنی حج قبول ہو گیا تو اس سے بڑی کامیابی اور سعادت نہیں’’رَجَعَ
کَیَوْمٍ وَلَدَتْہ أُمُّہ‘‘(متفق علیہ، مشکوٰۃ)
حدیث میں ہے کہ کامیابی کے ساتھ اس سفر سے لوٹنے والا اپنے گناہوں سے ایسا
پاک صاف ہو جاتا ہے کہ دھویا دھلایا اور گویا ماں کے پیٹ سے آج ہی دنیا میں
آیا۔اور اگر خدا نہ خواستہ سفر کامیاب نہ ہوا ،حج صحیح طریقہ سے سنت کے
مطابق ادا نہ کیا، تو اس کے برابر کوئی ناکامی و بد بختی بھی نہیں ،کہ اﷲ
تعالیٰ کے گھر جائے اور وہاں سے اپنی بد اعمالی و محرومی کی وجہ سے یوں ہی
بے مراد واپس آجائے ،بلکہ گناہوں اور شقاوتوں کی گٹھری جوں کی توں اپنی
پیٹھ پر لاد کر آئے ، بقولِ شاعر :
تہمتیں چند اپنے ذمہ دھر چلے
کس لیے آئے تھے ، اور کیا کر چلے
ظاہر ہے کہ اس سے بڑی بدنصیبی اورکیا ہے ؟ لیکن بندہ جب اس سفر ُپر خطر کا
ارادہ محض اپنے مولیٰ کی رضاپانے اور اس کے حکم کے سامنے فنا اختیار کرنے
کے لیے کرتا ہے تو وہ کریم کبھی محروم نہیں کرتا،اور عموماً حج کے اس سفرِ
سعادت پر جو داعیہ اور جذبہ بندہ کو آمادہ کرتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی محبت
اور تسلیم و رضا ہے ،اس لیے کہنا چاہیے کہ حج کا سفر سعادت ،عبدیت اور اﷲ
تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے اور جس میں عبدیت اور اﷲ تعالیٰ کی محبت نہیں
وہ حج سے محروم رہ جاتا ہے ،اسے حدیث میں وارد وعید شدید سے ڈرنا چاہیے کہ
کہیں حج سے محرومی آخری وقت میں ایمان سے محرومی کا ذریعہ نہ بن جائے
۔(اللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ، آمین) اس سفر سے قصداً محروم رہنے والے بد
نصیب ہیں، اور آگے بڑھنے والے خوش نصیب ہیں ۔
حج کی میقات پر عبدیت کا منظر :
پھر سعادت مند لوگ حج میں منزلِ مقصود سے پہلے اس مرحلہ پر پہنچتے ہیں جہاں
سے احرام کے بغیر گذرنا جائز نہیں ،یہاں پہنچ کر عبدیت کا منظر نظر آتا ہے
کہ حج کا یہ مسافر اپنی ساری ظاہری زینت چھوڑ دیتا ہے ،خوشبو استعمال نہیں
کرتا ،وہ مانوس اورسلا ہوا کپڑا نہیں پہنتا ،نہ سر پر ٹوپی اور پگڑی، نہ
جسم پر کو ٹی و شیروانی ،شاہ و گدا ،رئیس و رعایا ،حکام و عوام ،نامی و
عامی ،امیر و فقیر دیکھتے ہی دیکھتے سب کے ہی پوشاک و لباس اور سارے
امتیازات مٹ جاتے ہیں ،کیوں کہ حج کی اس میقات سے اب سب سے بڑے مہاراجہ اور
شہنشاہ ِمطلق کی راجدھانی کے حدود شروع ہو گئے ہیں ،اب کوئی راجہ ہے نہ
رعایا ،بلکہ سب کے سب اسی کی رعایاہیں اور سارے کے سارے اس مالک الملک
،احکم الحاکمین کے غلام ہیں، یہ ان کی غلامی کا منظر ہے :
ایک ہی لباس میں ہو گئے اب سب کے سب
اور حاضر ہو رہے ہیں اس طرح در بارِ رب
بندہ و صاحب، محتاج و غنی ایک ہوئے
تری سرکار میں پہنچے توسبھی ایک ہوئے
سب کے بدن پر ایک ہی قسم کا کپڑا اور زبان پر ایک ہی قسم کا ترانہ :
’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ
لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَ الْمُلْکَ، لاَ
شَرِیْکَ لَکَ‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ)زبانوں پر یہ صدائیں ہیں، تومردوں کے
جسم پر دو سادہ چادریں ہیں، (مردوں کے لیے )گویا دربارِ الٰہی کی حاضری کی
یہی انوکھی اور نرالی وردی ہے ،جو کفن،قبر اور حشر کی یاد دلاتی ہے ،اس حا
لت میں اس لیے بلایا گیا ہے کہ یہاں طلب ہے تو کفن پوشوں کی یا ان کی جو
انہیں کی وضع قطع اختیار کر چکے ہیں ،ان کی جو جیتے جی مرُدوں کا لباس پہن
چکے ہیں، آج اس میقاتِ حج سے حجاج کا صرف لباس ہی مردوں کا لباس نہیں بنا
،بلکہ کہنا چاہیے کہ نفس بھی مُردہ بن چکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حج کا منظر جو
قرآن نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ : فلَاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقََ وَلاَ جِدَالَ
فِیْ الْحَجَّ(البقرۃ ) یعنی حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے ، نہ کوئی
گناہ، نہ کوئی جھگڑا۔
لڑنا جھگڑنا، شہوتوں اور خواہشاتِ نفسانیہ میں مبتلا ہونا زندوں کا کام ہے
،مردوں کو بھی کبھی کسی نے ایسا کرتے دیکھا ہے ؟ احرام کا یہ لباس اور اس
کی ساری پابندیاں بندوں کی بندگی، بے حیثیتی اور عیش دنیوی سے بے رغبتی کا
حقیقی منظر ہے ۔
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر :
اس کے بعد سفرِ سعادت کی اگلی بنیادی منزل اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا گھر ہے ،
یہاں پہنچ کر حجاجِ بیت اﷲ فنا فی اﷲ ہوجاتے ہیں، انہیں عبدیت کے سوا کسی
چیز کا ہوش نہیں رہتا، اور کعبۃ اﷲ پر نظر پڑتے ہی بس مست ہو جاتے ہیں ،پھر
انہیں کچھ یاد نہیں رہتا، بالکل وہی منظر جو کسی نے یوں بیان کیا :
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر
کیا چیز ہے دنیا؟ بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے
دل ذوقِ تماشا بھول گیا
پھر روح کو اذنِ رقص ملا
خوابیدہ جنون بیدار ہوا
جلوؤں کا تقاضا یاد رہا
نظروں کا تقاضا بھول گیا
احساس کے پردے لہرائے
ایمان کی حرارت تیز ہوئی
سجدوں کی تڑپ اﷲ اﷲ
سر اپنا سجدہ بھول گیا
جس وقت دعا کو ہاتھ اٹھے
یاد آنہ سکا جو سوچا تھا
اظہارِ عقیدت کی دُھن میں
اظہارِ تمنا بھول گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک
اک ابر کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے
کیا مانگ لیا؟ کیا بھول گیا؟
ہر وقت برستی ہے رحمت
کعبہ میں جمیل اﷲ اﷲ
خاطی ہوں میں کتنا؟ بھول گیا
عاصی ہوں میں کتنا؟ بھول گیا
یوں تو زندگی میں بڑی بڑی حسین و جمیل عمارتیں اور فنِ تعمیر کے خوبصورت
ترین نمونے ہم لوگ دیکھتے ہیں،لیکن کعبۃ اﷲ میں اﷲ تعالیٰ نے ایسی رعنائی و
دل کشی رکھی ہے کہ وہ منظر آنکھوں میں کھپا اور دل میں سما جاتا ہے ، وہاں
کے حقیقی انوار کا ادراک تو اہلِ قلب و نظر کرتے ہیں،لیکن وہاں کے جلال و
جمال کا منظر تو ہم جیسے کم ظرفوں کوبھی نظر آجاتا ہے ، روایتوں میں آتا ہے
کہ کعبۃ اﷲ پر نظر کرنا عبادت ہے ،اس عاجز کا خیال ہے کہ اجر وعبادت سے قطع
نظر کرکے ذوق و شوق، ولولہ اور والہانہ جذبہ سے کون سا دل خالی ہوگا ؟بس
نظر پڑتے ہی دل بے تاب ہو جاتا ہے ! جی چاہتا ہے کہ دیکھتے ہی رہیں، اس کے
دیکھنے سے ایک طرف آنکھوں کا نور ،دل کاسرور بڑھتا ہے ،اور دل کی بے چینی
کافوراورجسم کی تکان دور ہوجا تی ہے ،تو دوسری طرف یہ وہ نعمت ہے کہ اس کی
قیمت میں اگر صدہا سفر اور ہر سفر کی صدہا کلفتیں ،زحمتیں اور تکلیفیں
برداشت کرنی پڑے تو ربِ کعبہ کی قسم !سودا پھر بھی بہت ہی سستا ہے ۔
مطاف کا منظر :
اﷲ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ کی طرف منسوب مقدس
چیزوں سے بھی محبت بلکہ و الہانہ کا تعلق رکھے ،اسی بنیاد پر حجاج بیت اﷲ
بھی خانۂ کعبہ اور اس کے مقدس مقامات سے عقیدت و عظمت کا معاملہ کرتے ہیں
،خانۂ خدا کا دیوانہ وار چکر لگاتے ہیں ،مطاف کا حال یہ ہے کہ ایام ِ حج ہی
میں نہیں، بلکہ فتحِ مکہ مکرمہ سے آج تک فرض نمازوں کے علاوہ دن رات کے کسی
گھنٹہ یا گھڑی میں خالی نہیں رہتا، ہر آن اور ہر لمحہ مطاف میں طواف کا چکر
مسلسل جاری رہتا ہے ،صبح وشام کے ٹھندے وقتوں کی بات نہیں، رات کے ایک دو
بجے جا کر دیکھئے ،ٹھیک دو پہر کی تیز گرمی میں جا کر دیکھئے ،ہر وقت
مشتاقانِ بیت اﷲ طواف میں مشغول ہیں، اورایک دو نہیں، سیکڑوں کی تعداد میں
شمع پر پروانوں کی طرح برابر بیت اﷲ کا طواف کرتے نظر آئیں گے ، سبحان
اﷲ،مگر یہ عجیب پروانے ہیں کہ آگ میں جلنے کے بجائے ہمیشہ کے لیے جہنم کی
آگ میں جلنے سے محفوظ ہو جاتے ہیں ،بعض اہلِ ہمت تو بیس بیس تیس تیس طواف
کرتے نظر آتے ہیں۔فضائلِ حج میں احیاء کے حوالے سے منقول ہے کہ کُرز بن
وبرہؒ کا معمول یہ رہا کہ وہ ستر طواف دن میں اور ستر طواف رات میں کرتے ۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے متعلق ابن ابی روادؒ کا بیان ہے کہ ’’حج کے دوران
میں نے ان کو نہ رات میں سوتے دیکھا، نہ دن میں، بس ہر وقت طواف،نماز
یاتعلیم و تعلّم میں مصروف دیکھا‘‘ خارجہؒ کہتے ہیں کہ’’ کعبۃ اﷲ میں چار
شخصوں نے ایک رات میں قرآن مکمل کیا، ان میں ایک امام ابوحنیفہؒ بھی ہیں‘‘
یہ بھی منقول ہے کہ امام صاحبؒ نے اپنے آخری حج میں کعبۃ اﷲ کے اندر ایک
پیر پر کھڑے ہوکر نصف قرآن اور دوسرے پیرپر کھڑے ہو کر دوسرانصف قرآن پڑھا،
اس کے بعددعاکی کہ الٰہی! میں نے اپنی بساط کے مطابق تجھ کو پہچان لیا،
لیکن تیری عبادت کاحق ادانہ کرسکا،لہٰذا کمالِ معرفت کے عوض نقصانِ خدمت سے
درگذر فرما،کہتے ہیں کہ بیت اﷲ کے ایک گوشہ سے آواز آئی کہ تم نے اچھی طرح
پہچانا اور خالص خدمت کی،جس کے عوض ہم نے تمہاری اور تمہارے سچے متبعین کی
مغفرت کردی۔ (اعیان الحجاج)آج بھی اﷲ تعالیٰ کے گھر کے گرد طواف کرنے والوں
میں نہ معلوم کتنے فر زانے ایسے ہوتے ہیں کہ طواف سے نہ ان کے پیر تھکتے
ہیں نہ دل بھرتا ہے ۔
بہر کیف !جس کعبہ کو ربِ کعبہ نے خود ہی ’’مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ‘‘(البقرۃ)
لوگوں کے بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ بنایا ہو وہ عشاق سے کیسے خالی رہ سکتا
ہے ؟
منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ کا منظر :
طوافِ بیت اﷲ کے علاوہ حج کے دیگر ارکان واعمال کی ادائیگی کے لیے حجاج
بحکمِ خدا کعبہ کو خیر باد کہتے ہوئے ۸/ ذی الحجہ کو منیٰ ،۹ /ذی الحجہ کو
عرفات جہاں اپنے سارے گناہوں کاکیاجاتا ہے اعتراف،پھر رات میں مزدلفہ اور
۱۰ /ذی الحجہ کو پھر منیٰ کا رُخ کرتے ہیں، تو وہاں کا منظر بھی نہایت پر
کیف کہ بظاہر تو جنگل ہے،جہاں اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے ،جس کی وجہ سے
جنگل میں منگل نظر آتا ہے ، لاکھوں کی تعداد میں حجاج و عشاق موجود !اور
جسے دیکھئے وہی (مرد) دو سادہ سفید چادروں میں ملبوس !ایسا معلوم ہوتا ہے
کہ ا ﷲ تعالیٰ کی نورانی مخلوق فرشتوں نے آج منیٰ ،عرفات و مزدلفہ کی یہ
زمین بسائی ہے ، نورانی صورتیں ،ہر وقت ذکر الٰہی سے تر زبانیں اور زبان پر
لبیک لبیک کی صدائیں !آج سے ہزار سال پہلے کا جو منظر حدیث میں بیان
ہوا’’نَصْرُخُ بِالحَجِّ صُرَاخًا‘‘ آج صدیوں کے بعد بھی بحمد اﷲ! حج کا
وہی پر کیف منظر بیت اﷲ ،منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ میں نظر آتا ہے ، افعالِ
حج کے یہ مناظر اور حجاج کی یہ ساری ادئیں بتلاتی ہیں کہ عشق و محبت کی
صحیح اور حقیقی حقدارصرف اور صرف وہی ذاتِ پاک ہے جس نے ہمیں اور کائنات کے
ذرّہ ذرّہ کو پیدا کیا، اگر چاہنا ہو تو اسی کو چاہو ،پکارنا ہو تو اسی کو
پکارو ،مانگنا ہو تو اسی سے مانگو، ماننا ہو تو اسی کو مانو، کسی کی یاد
میں سر گرداں پھر نا ہو تو اسی کی یاد میں سر گرداں پھرو !سب کچھ وہی ہے ،
اور ہم سب اسی کے بندے ہیں، بندگی ہمارا مقصد زندگی ہے ،ایک بندہ کا سب سے
بڑا کمال عبدیت پیدا کرنا ہے ،جس کا ذریعہ عبادت ہے ، بالخصوص حج! جیساکہ
واضح ہو گیا۔
حق تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت بار بار نصیب فرمائے (آمین)
٭…٭…٭
|