﴿دنیاکی زندگی جیسے بھی ہو گزرنے والی ہے مومن پر بھی گزر
رہی ہے کافر پر بھی، فاسق پر بھی گزر رہی ہے منافق پر بھی ،غریب پر بھی گزر
رہی ہے امیر پر بھی ۔
ایک عجیب واقعہ :
ایک بادشاہ کے گھر کے سامنے ایک نانبائی کی دکان تھی کہ رات کو وہاں ایک
فقیر رات بسر کررہا تھا جب بادشاہ کو علم گیا تو اسکو دربار میں حاضر کرانے
کا حکم دیا جب وہ حا ضر ہوا تو بادشاہ نے پوچھا کہ رات کیسے گزری تو اس
فقیر نے جواب دیا کہ میرے رات کے دو حصے تھے ایک حصہ میر ا اور آپ کا برابر
گزرا اور ایک حصہ میر اتیرے حصے سے بہتر گزرا ،بادشاہ حیران ہوکر کہنے لگا
کیسے ؟تو اس نے کہا کہ جب آدمی سونے کے ارادے سے بسترپرجاتا ہے تو نیند آنے
سے پہلے سوچتا رہتاہے ،تو میں اﷲ کی یاد میں تھا اور تو دنیا میں سوچ رہا
تھا ،تو میر ایہ حصہ تیرے رات کے حصے سے بہتر گزرا اور جب آدمی سوجائے تو
پھر اسکو معلوم نہیں ہوتا کہ میں کہاں پر سویا ہو ں تو میرا اور تیرا یہ
حصہ برابر تھا ۔
الغرض دنیا کی زندگی گزرنے والی ہے جیسے بھی ہو کٹتی ہی رہیگی ۔
ایام مصیبت کے تو کاٹتا نہیں کٹتے دن عیش کی گھڑیوں میں گزر جاتے ہیں کیسے۔
اسکو اپنا گھر نھیں سمجھتا اسی طرح مومن بھی دنیا میں جی نھیں لگاتا۔
بعض علماء نے اسکا یہ مطلب بیان کیا کہ جب مومن جنت میں داخل ہوگا اور وہاں
کی نعمتیں دیکھے گا تو اسے دنیا کی زندگی قید خانہ معلوم ہوگی۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ نے اسکا یہ مطلب بیان فرمایا کہ کافر اپنا
مقصدِ زندگی دنیا کے حصول کو بناتا ہے اور دنیا کی لذتوں اور شہوتوں کو جمع
کرنے میں اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ اسی دنیا کو نعمت کدہ سمجھتا ہے ۔
قید خانے کی خصوصیا ت :
مذکورہ حدیث ’’الدنیا سجن المؤمن ‘‘ میں دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ قرار
دیا گیا ہے قید خانے کی دو خصوصیات ہو تی ہیں ۔
(۱) قید خانے میں آدمی من مانے زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ جوقید خانے کے
امراء کا حکم ہو گا اسپر سر تسلیم خم ہوگا ۔
(۲) کہ اگر قید خانے میں آدمی کو عمر بھر قید کا اعلان سنایا جائے تب بھی
یہ قید ی قید خانے کی در ودیوار سے دل لگی نہیں کرتا ۔
جنت کی خصوصیات :
اسکے بر خلاف حدیث کے دوسرے ٹکڑے ’’ وجنۃ الکافر ‘‘میں دنیا کو کافر کے لیے
جنت قرار دیا ہے ،جنت کی بھی دو خصوصیات ہوتی ہیں ۔
(۱)کہ جنت میں دخول کے بعد آدمی من مانے زندگی بسر کرتا ہے جو دل میں آتا
ہے وہی کرتا ہے ۔
(۲) کہ جنت میں جنتی لوگ جنت کی دیواروں سے محبت کرتے ہیں اور اس سے کھبی
نہیں نکلتے ۔
خلاصہ تحریر :
کہ یہ حدیث اب ہمارے لیے بمنزلہ آئینے کی ہے کہ ہم اس میں اپنی زندگی کو
دیکھ لے کہ ہم من مانے زندگی بسر کرتے ہیں یا رب چاہے زندگی ۔
کیونکہ مومن کے لیے یہ دنیا قید خانہ کے درجے میں ہے تو اس دنیا میں مومن
رب چاہے زندگی بسر کریگا اور حضور ﷺ کے فرامین کے مطابق اپنی زندگی بسر
کریگا ،اور مومن کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ دنیا سے محبت اور دل لگی نہ کرے
کیونکہ حدیث میں دنیا مومن کے لیے بمنزلہ قید خانے کے ہے اور قید قید خانے
کی دیواروں سے کھبی محبت نہیں کرتا ۔
اور کفار کے لیے دنیا بمنزلہ جنت کے ہے تو وہ(کافر) بھی دنیا میں من مانے
زندگی کو بسر کرتے ہیں کیونکہ آخرت میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ،اور
دوسری بات یہ ہے کہ کفار دنیا کے ساتھ محبت اور دل لگی کرتے ہیں گویا کہ
کفار اس دنیا میں ہمیشہ رہینگے کھبی اس سے کوچ نہیں کرینگے ۔
اس حدیث سے ہمارے لئے یہی سبق ہے کہ دنیا تو عارضی ہے اس میں دل نہ لگائیں
اور زیادہ غور اس بات پر کریں کہ دائمی زندگی کے لئے اہتمام کریں
وہ زندگی جس میں داخل ہوتے ہی ہم سے اس زندگی کی بابت پوچھا جائے
گا۔طالبات، مائیں اور بہنیں اپنی نمازوں کو مکمل بنائیں پردہ اور حقوق
العباد کا خیال رکھیں تو ان کے لئے اخروی زندگی میں یہاں کی زندگی قید ھی
معلوم ہو۔
اﷲ تعالی ہم سب کو اس حدیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے
جیساکہ دوسری ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ’’ کن فی الدنیا کأنک غریب او عابرسبیل
‘‘دنیا میں ایسی زندگی بسر کرگویا کہ تو مسافر ہے یا راہ گزار ہے ۔یعنی جس
طرح آدمی راستے کو کاٹ کر منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس طرح
یہ دنیا بھی ایک راستہ ہے اور ہمارا منزل مقصود آخرت ہے ۔اﷲ تعلی ہم کو اس
پر عمل کرنیکی توفیق عطاء فرمائے ۔ (امین )
|