الیکشن کا دھوم دھڑکا ووٹرز اور سپورٹرز کا جوش و خروش
شاید خان صاحب کے حلف اٹھانے کے ساتھ دم توڑ جائے، لیکن یہ الیکشن خان صاحب
کے ناتواں کندھوں پر اک ایسا بارِ گراں چھوڑ کر گئے ہیں جس کی تکمیل دیوانے
کے خواب کی مانند بظاہر بہت مشکل نظر آرہی ہے۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں آگے کنواں اور پیچھے کھائی
والا معاملہ ہے، اس وقت اک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان تقریباً 90 ملین
ڈالر کا مقروض ہے۔ اس قرض میں بڑا حصہ چائنہ کے اس قرض کا بھی ہے جو ہم نے
CPEC کے نام پر اپنے قومی ادارے اور شاہرائیں گروی رکھ کر حاصل کیا ہے، تو
کیا پاکستان خدانخواستہ کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کا شکار بننے والا ہے خدا نہ
کرے ایسا ہو۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح عبور کر چکا ہے، ہر پیدا ہونے
والا بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ ان حالات میں ہم اندرونی اختلافات، ذاتی
پسند نا پسند، اداروں کے گندے کھیل جیسی خرافات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم ان تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، خان کو اک
موقعہ دیں۔ میرے اک بہت عزیز دوست نے اک بار مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا" یار
زندگی وچ بڑیاں چولاں ماریاں نے، خان نو موقعہ وی چول سمجھ کے دینا چاہیدا
اے شاید کم کر جائے" ۔
میرے اس دوست کی بات انتہائی سادہ مگر سبق آموز تھی، اگر پاکستانی عوام یا
محکمہ زراعت جس نے بھی خان کو الیکٹ یا سلیکٹ کیا ہے، اس بحث کو اک طرف
رکھتے ہوئے ایک موقعہ دیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ اس ملک کی تقدیر کیسے
بدلتے ہیں۔ اگر ناکام ہو گئے تو بقول میرے دوست کے اک چول ہور سہی، ویسے
بھی پاکستانی پروڈیوسر حضرات ایک ہیرو پر زیادہ دیر انحصار نہیں کرتے اور
ہیرو کو پل بھر میں زیرو کر دیتے ہیں ارے لندن کا شرارتی کاکا یاد ہے آج کل
" شربت انار پی کر شیشہ ہو یا دل ہو آخر ٹوٹ جاتا ہے گاتا ہوا لندن کی
سڑکوں پر بھٹک رہا ہے" اور 80 کی دہائی کے مشہور جانشین آج کل اڈیالہ جیل
کو خاندان سمیت عزت بخشے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں لگتا ہے اگر خان نے اس
قوم کے ساتھ دوبارہ مذاق کرنے کی کوششش کی تو شاید حشر ان دونوں ہیروز سے
برا ہو گا۔
بہت بارِ گراں یہ زندگی معلوم ہوتی ہے
کہ غم کے پیش خیمہ ہر خوشی معلوم ہوتی ہے
پاکستان پائندہ باد۔ |