پانی قدرت کا ایک بیش بہا عطیہ ہے ۔ اور انسانی زندگی کا
اہم جزو ہے۔ حضرت انسان، حیوان بلکہ نباتات کے لیے بھی پانی کی اہمیت محتاجِ
وضاحت نہیں تندرستی اور صحت کی بقا کے لیے ہوا کے بعد پانی کا ہی نمبر
ہے۔انسانی جسم کی بناوٹ میں پانی کا بڑا حصہ ہے۔ قرآن حکیم نے پانی کے بغیر
انسانی زندگی کو ناممکن قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور ہم نے
پانی سے ہر زندہ چیز کو بنایا ۔ گویا پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور
بھی ممکن نہیں پانی دنیا کی وہ واحد شے ہے جس کے استعمال پر عام حالات میں
کوئی پابندی نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت مسلم ہے۔ سائنسی نقطہ
نگاہ سے پانی ہائیڈروجن دو حصے اور آکسیجن ایک حصہ ملنے سے بنتا ہے۔ عظیم
یونانی فلاسفر ارسطو نے دنیا کو چار عناصر آگ، ہوا، پانی اور مٹی کا مجموعہ
قرار دیا ہے۔ اور مدتوں لوگ پانی کو عنصر سمجھتے رہے۔ لیکن 1782 میں ایک
سائنس دان نے پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب بنایا ۔ پھر لوزئیر نے
پانی کے متعلق یہ تصور پیش کیا کی آکسیجن اور ہائیڈروجن کو خاص نسبت سے ملا
کر کیمیائی عمل سے پانی بنتا ہے۔ خالص پانی صاف شفاف ، بے رنگ و بو اور بے
ذائقہ ہوتا ہے۔روز مرہ زندگی میں پانی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اور پھر اس کائنات میں پانی کے استعمال کی فہرست احاطہ تحریر میں نہیں لائی
جا سکتی۔ لیکن اتنی اہمیت کے باوجود اس نعمت رب جلیل کو دکت نہیں دی جاتی۔
پانی کے استعمال میں بے جا اضافہ حد درجہ تشویش ناک ہے۔ عام طور پر دیکھا
گیا ہے۔ کہ پانی ضائع کیا جاتا ہے۔ نل کھلا رہ گیا تو بند نہیں کیا جاتا۔
حالانکہ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں جو کہ پانی کی ایک بوند کو ترستے ہیں اور
پانی جن کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسلام میں بھی پانی کے بے جا استعمال سے
روکا گیا ہے۔ پانی کے بے جا استعمال میں اگراضافہ اسی طرح رہا تو وہ وقت
دور نہیں جب ہم پانی کی ایک ایک بوند کو ترسیں گے۔ اگر پانی کی اہمیت کو
جاننا ہے تو پھر ریگستان میں رہنے والے یا پہاڑوں پر بسنے والوں سے پتہ
کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی پانی کو ضائع نہیں کرتے۔ پانی کی اہمیت
تسلیم کرنے کے باوجود ہم اس نعمت رب جلیل کی قدر نہیں کرتے۔ اور بے تحاشا
غیر ضروری ضائع کرتے رہتے ہیں۔ سال گزشتہ عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ
کے نمائندوں نے انسانی صحت کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے تمام رکن ممالک سے
درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ممالک کے باشندوں کے لیے پینے کے قابل صاف پانی
کی مناسب مقدار کا انتظام کریں۔ کیونکہ بہت سے بیماریاں پانی کی پیدا کردہ
ہیں۔ اس لیے ان کا انسداد کیا جانا چاہیے جو کسی طور نا ممکن نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق بیشتر بیماریاں خالص پانی کے عدم حصول
کے باعث پھیلتی ہیں۔ جو جراثیم پانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ بیماریوں کا
سبب بنتے ہیں اور پیچش ، دست ،آنتوں کے امراض ، ٹائیفائڈ ، ہیضہ جیسے امراض
میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اس لیے صاف پانی کا استعمال کر نا ضروری ہے۔ پانی
کو صاف کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ اسے ابال لیا جائے کیونکہ ابالنے سے
جراثیم مر جاتے ہیں۔ بالخصوص موسم برسات اور وبائی امراض کے ایام میں تو
پانی کو ابال کر استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ دوسرا طریقہ عمل طقتیر کا ہے۔
یعنی پانی کو ریت اور کنکریوں کی تحوں میں گزار کر صاف کیا جاتا ہے۔
کیمیائی طریقے سے پانی کی کثافتوں کو دور کرنے کے لیے جراثیم کش ادویا ت
مثلا پوٹاشیم ، پر میگنٹ المعروف لال دو اور کلورین وغیر استعمال کرنا
چاہیے۔ برتنوں کو صاف کرنا چاہیے۔
|