میانہ روی زندگی کے معتدل ہونے کی اہم نشانی و صفت ہے،
اعتدال پسندی دینی معاملات ہوں یا پھر لوگوں کے ساتھ کی معاملاتی زندگی
الغرض ہرمقام و موقع پر ضروری ہے۔میانہ روی فطرت انسانی کے مظہر بھی ہے اور
اس میں خیر و بھلائی کے بہت سے پہلو نمایاں و پنہاں ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا کہ ہم نے آپ کو امت وسط میں پیدا فرمایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن
جاؤ۔یہی وجہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہی ہے جس کو رب کریم کی جانب سے دنیا
ومافیہا کی خیر و خوبیاں ودیعت کی گئی ہیں۔
اور میانہ روی کے معنوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیوی امور میں اعتدال کو
اختیار کیا جائے جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہواہے کہ’’اپنا ہاتھ اپنی گردن
سے بندھا ہوانہ ہو رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا
درماندہ بیٹھ جائے‘‘اور اسی طرح ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور جو خرچ کرتے وقت
بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی،بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر
خرچ کرتے ہیں۔‘‘وسطیت و اعتدال اور میانہ روی کے معانی کے بارے میں سیدنا
امیر معاویہ ؓ نے حضرت عمروبن العاصؓ سے استفسار کیا کہ ’’مجھے پریشان
کردیا ہے اس بات نے کہ میں آپ کو بہادر خیال کرو یا بزدل جب دیکھتاہوں کے
دشمن کے مقابلے میں پیش قدمی کررہے ہیں تو آپ کو لوگوں میں سے بہادر جانتا
ہواور جب آپ ساکت ہوتا دیکھتا ہوں تو سمجھتاہوں کہ آپ لوگوں میں سے بزدل
ہیں۔‘‘حضرت عمروبن العاصؓ نے فرمایا آپ مجھے اس وقت بہادر پائیں گے جب پیش
قدمی یا دشمن پر غلبہ پانے کا موقع میسر آئے گا اور جب ایسا نہ ہوتو میں
ٹھہر جاتاہوں۔اسی بات کو ابن قیمؒ نے بیان کیا ہے کہ یہ اعتدال کی حدہے کہ
آپ پیش قدمی کریں جب ضروری و لازمی ہوپیش قدمی کرنا اور جب روکا رہنا مناسب
ہو تو اس وقت ساکت رہنا ضروری ہے۔ٹھہرا رہنے کے وقت پیش قدمی کرنابے معنی و
لاحاصل ہے اور یہ بہتر امر نہیں ہے۔اور پیش قدمی کے وقت ٹھہرارہنا بزدلی
اور کمزوری کی علامت ہے اور یہ بھی درست نہیں۔
مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ شعبہ ہائے زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا
ہویعنی داعی ہویا عام انسان بہر حال اپنی زندگی کے مراحل میں اعتدال و
میانہ روی کو رواج دے۔اسی لئے نبی کریمؐ نے فرمایا کہ’’غور و فکر کر اور
پھر توکل کرو‘‘یعنی کسی بھی کام کو انجام دینے سے پہلے عقل و شعور کو لازم
پکڑواور پھر اﷲ پر بھروسہ کریں یہی امر میانہ روی و اعتدال کہلاتاہے۔متوسط
رہنے کا ایک معنی و مطلب یہ بھی ہے کہ استقامت و عزیمت کو اختیار کیا جائے
اس کے ساتھ ہیں دوحالتوں یا کاموں کی موجودگی میں آسان کام کو اختیار کیا
جائے۔اﷲ تعالیٰ نے تعصب و غلوسے مسلمانوں کو منع کیا ہے خصوصاً دینی امور
میں مبالغہ آمیزی ناقبل قبول ہے۔ارشاد جل شانہ ہے کہ’’اے اھل کتاب تم اپنے
دین میں غلو نہ کرو‘‘غلودینی امور میں مسترد کردیا گیا ہے اور اس کے ثمرات
بھی برے ظاہر ہوتے ہیں۔اسی بناپر نبی کریم ؐ نے دین میں مبالغہ کرنے والوں
کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی ہے’’ھلک المتنطعون‘‘یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین
میں بلاوجہ اور غیر ضروری طورپر مبالغہ آرائی کرتے رہتے ہیں۔اﷲ کے محبوب
پیغمبر ؐ نے ایسا کرنے والوں کیخلاف دعا کی ہے کہ ہلاک ہوجائیں جو دین میں
مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔
واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اﷲ جل شانہ نے قرآن کریم میں جابجا میانہ روی و
اعتدال پسندی کی ترغیب دی ہے اور یہ مضمون بہت سی آیات میں بیان کیا گیا ہے
جیساکہ ارشاد جل وعلا ہے کہ’’آپ ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں یہ آپ کو اﷲ کے
اتارے ہوئے کلام سے ادھر ادھر نہ کردیں‘‘اس آیت میں نبی اکرمؐ کو متنبہ کیا
گیا ہے کہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں سے خبردار رہیے کہ وہ کہیں آپؐ کو اﷲ
کی اتاری ہوئی کتاب یعنی قرآن کریم سے دور نہ کردیں۔اسی طرح ایک دوسری آیت
میں حضورؐ کو غلو اور تعصب سے منع کیا گیا ہے گویا ان آیات سے یہ امر ظاہر
ہوتاہے کہ دین کے بارے میں تساہل پسندی اور مبالغہ آمیزی دونوں ناپسندیدہ
امر ہیں۔
گویا اعتدال و میانہ روی اور متوسط امر کے اختیار کرنے کا لازمی اصول یہ ہے
کہ مبنی براعتدال منہج و طریقے کو قبول کیا جائے اور ہر پرانی شئی جو نفع
مند ہو اس کو اختیار کیا جائے اور ہر نئی صالح چیز کو بھی قبول کیا
جائے۔البتہ مسلمانوں پر اس امر کا واضح ہونا بھی ضروری ہے کہ شریعت اسلامیہ
کے چند امور ایسے ہیں جن کو کسی صورت فروگذاشت نہیں کیا جاسکتا وہ یہ ہیں
کہ عقیدہ کی درستگی اور انسانیت کی مصلحت و نفع مندی۔ان میں تغیر و تبدل
وسائل کے اختیار میں ہوسکتا ہے مگر اصول و مبادیات میں کوئی کمی بیشی
روانہیں رکھی جاسکتی۔اسلام انسان کو پابند بناتاہے کہ اسلام قضایا عصریہ
اور زمانہ کی مشکلات سے متعلق رہنمائی فرمائے۔
اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ انسان جسم و روح کو مرکب ہے ۔اگر اﷲ
تعالیٰ کو صرف یہ مطلوب ہوتاہے اس کو روح کا گرویدہ و پابند بنایا جائے تو
اﷲ تعالیٰ فرشتوں کی مثل فرشتہ ہی بنادیتااور اگر اﷲ تعالیٰ یہ ارادہ رکھتا
کہ وہ صرف مادہ پرست ہوجائے تو اس کو حیوانات کی صف میں شامل کردیتا کہ یہ
ان کی طرح ہی زندگی بسر کرتا۔لیکن اسلام تو میانہ روی اور اعتدال کا تقاضا
کرتاہے کہ انسان بحیثیت انسان ہی زندگی کے امور بسر کرے اور اس کے ساتھ ہی
روحانی طورپر ترقی کے مدارج بھی طے کرے۔گویا اسلام نے شریعت کے امور میں
درجہ بندی کردی ہے کہ فرائض و مندوب کیا ہے اور کس مقام پر پیش قدمی کرنی
ہے اور کہا ں رک جانا ہے۔اور کسی کم درجہ کے کام کو بہت بڑا نہیں کرنا اور
نہ ہی کسی بڑے درجہ کے کام کو کم اہمیت دینے کا اختیار دیا ہے۔یعنی کہ
مستحب امور کو تو بہت زیادہ اہمیت دیکر اختیار کرلیا جائے اور قرآن و سنت
میں بیان کردہ فرائض کو پس پشت ڈال دیا جائے ایسا کوئی عمل مستحسن نہیں
سمجھا جائے گا۔
ہم پر ضروری ہے کہ ہم ددین کا مکمل و صحیح فہم حاصل کریں اور زندگی کے تمام
مراحل میں اعتدال کو لازم پکڑیں ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا فرض
ہے اور ان کی خدمت و دیکھ بھال کرنا ضروری ہے اور ان کی خدمت سے صرف نظر
کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔مجھے ایک شخص نے بتایا کہ میں والدین کے طعام و قیام
میں پہلو تہہی کرتاہوں کہ ان کی خدمت کی وجہ سے میری عبادت یعنی نوافل میں
حرج واقع ہوتاہے تو میں نے اس کو یہ واقعہ سنایا کہ ایک صحابی جہاد پر جانے
کا خواہشمند تھا توآپؐ نے استفسار کیا کہ تمہارے لئے والدین ہیں تو اس نے
عرض کیا جی ہاں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ان دونوں کی خدمت کرتمہارا یہی
جہادہے۔بدقسمتی ہے کہ لوگوں میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ نفلی نماز و
روزوں کا اہتمام تو کرتے ہیں مگر اپنے بھائی و اعزاء سے قطع تعلقی کیے ہوئے
ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے دین کے احکامات کو الٹ دیا ہے جس کو
اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس کو پس پشت ڈال کر غیر ضروری امور میں مشغول
ہوگئے ہیں ۔ایسے میں بدیہی ہے کہ دین کی مکمل صحیح فہم و فکر حاصل کی جائے
۔میانہ روی و اعتدال پسندی کا زندگی کے جمیع مراحل میں قبضہ ہے پس اس میں
تصرف کرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہ چھوٹنا چاہیے۔
|