جس قوم کے پاس قرآن جیسی واضح ہدایت، محمدﷺ جیسے ہادی
اور صحابہ کرامؓ اور اولیائے کرام ؒ جیسی آئیڈیل ہستیاں موجود ہوں وہ اس
قدر بے عملی اور بے راہ روی کا شکار کیسے ہو سکتی ہے؟یہ سوال مجھے اکثر
پریشان کرتاہے۔ ہمارے ہاں کتابوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر زبان میں اچھی سے
اچھی کتابوں کے تراجم بھی موجود ہیں۔ جو لوگ بہت زیادہ لکھنا پڑھنا نہیں
بھی جانتے وہ جمعہ کے خطبات، محفلِ میلاد اور مذہبی جلسہ جلوس سے اتنا کچھ
تو سن ہی لیتے ہیں کہ بسا اوقات فتویٰ وغیرہ بھی دینے لگ جاتے ہیں۔ پھر آج
کل ملٹی میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی
ہے۔ انگلیوں کی ذرا سی جنبش پر دنیا کے بڑے سے بڑے مقرر ہماری سماعتوں کو
پاکیزگی بخشنے کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں۔ واٹس ایپ پر صبح صبح سلام و دعا کے
ساتھ قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، اقوال زریں اور قلب و روح کو پاکیزگی عطا
کرننے والے میسجز پابندی کے ساتھ مل جایا کرتے ہیں۔ اخلاقی علوم کا ٹھاٹھیں
مارتا سمندر ہمارے ارد گرد موجود ہے لیکن دوسری طرف عمل کے میدان میں
اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ ہمیں ایسے لوگ شاید ہی کہیں ملیں جن کے پاس بیٹھ کر
قلب و نظر کو سکون حاصل ہو۔ بے چین دل کو قرار میسر ہو۔ جن کا قول و فعل
تضاد سے پاک ہو۔ جن کی گفتگو سماعتوں سے ہوتی ہوئی روح میں اتر جائے۔ جنہیں
ہم اپنا آئیڈیل بنا سکیں۔
ایک زمانہ تھا کہ جب نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدل جایا کرتی تھیں۔ اُس
وقت نہ تو علم کے اتنے ذرائع تھے اور نہ اس قدر مذہبی جلسے جلوس کی فراوانی۔
کتابوں کی جگہ مومنین کی صورت میں قرآن و احادیث کی جیتی جاگتی اور چلتی
پھرتی تصویریں ہر جگہ موجود تھیں۔ خانقاہوں کی صورت میں تربیت کے ایسے
ادارے موجود تھے جہاں داخل ہونے کے بعد انسان کی زندگی کا واحد مقصد رضائے
خداوندی اور خدمت خلق ہو جایا کرتا تھا۔ مدارس میں بھی علم کے ساتھ ساتھ
تربیت پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ آج مدارس اور خانقاہیں
موجود نہیں ہیں، مدارس اور خانقاہیں گنتی کے اعتبار سے پہلے سے کہیں زیادہ
ہیں۔ بلاشبہ ان کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ مدارس ، خانقاہیں اور دینی و ملی ادارے بھی جدید دور کی مادیت سے
متاثر ہوئے ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے جہاں ان اداروں میں بہتری آئی ہے وہیں
اخلاقی اعتبار سے گراوٹ بھی آئی ہے
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
ہمارے دین میں علم اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ ایک طرف علم
کو فرائض میں شامل کر کے اسے ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے وہیں
حصولِ علم کے بعد عمل کی ذرا سی کوتاہی پر سخت وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔
بعض احادیث میں بہت واضح طور پر ایسے عالموں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے
جو محض نام و نمود کے لیے علم حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و احادیث میں
متعدد جگہ قول و فعل کے تضاد سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سورۃ الصف میں
بہت واضح طور پر فرمایا گیا کہ ’’ائے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو
کرتے نہیں۔ اﷲ کے نزدیک بڑی ناپسند بات ہے کہ جو کہو اس کو کرو نہیں۔‘‘(آیت
۳۔۲)
مسند احمد کی ایک روایت ہے جسے اسامہ بن زیدؓ نے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں
کہ میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :معراج کی رات میں
کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے
تھے۔میں نے پوچھاائے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟اس نے کہا ! یہ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی امت کے وہ خطبا ہیں جو اپنے کہے پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اور
ایک روایت میں ہے کہ وہ اﷲ کی کتاب پڑھتے تھے ، مگر اس پر عمل نہیں کرتے
تھے۔ اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ نے ہی ایک اور حدیث بیان کی ہے جسے امام مسلم
نے صحیح مسلم میں درج کیا ہے۔اس حدیث کو پڑھنے کے بعد روح کانپ اٹھتی ہے۔
اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے دوزخ میں ڈال
دیا جائے گا جس سے اس کے پیٹ کی آنتیں نکل آئیں گی وہ آنتوں کو لے کر اس
طرح گھومے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے۔ دوزخ والے اس کے پاس
اکٹھے ہو کر کہیں گے، اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ (یعنی آج تو کس حالت میں ہے؟)
کیا تو لوگوں کو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ
کہے گا : ہاں میں لوگوں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس نیکی پر عمل
نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائی سے منع کرتا تھا لیکن میں خود برائی میں
مبتلا تھا۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ علم سے کہیں زیادہ عمل سے متاثر ہوتا ہے۔ رحمت عالم
صلی اﷲ علیہ وسلم تو خیر اسوۂ حسنہ ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور اولیائے عظام ؒ نے
عملی اعتبار سے اسلام کی ایسی شبیہ پیش کی کہ جہاں جہاں ان کے قدم مبارک
پڑتے گئے ہدایت کی شمعیں روشن ہوتی رہیں۔اپنے وقت کی بڑی بڑی طاقتیں ان کے
سامنے سرنگوں ہو گئیں۔عزت و وقار کی سربلندیوں نے ان کے قدموں کے بوسے لیے۔
کسی انگریز دانشور کا قول ہے:knowledge will give you power but character
respect ۔ ہمارے اسلاف کے پاس علم کا پاور بھی تھا اور کردار کی عظمت بھی۔
یہی سبب ہے کہ ان کے دل روئی سے زیادہ نرم ہونے کے باوجود باطل طاقتوں کے
سامنے فولاد بن جاتے تھے۔ ایک طرف خلق خدا کے لیے وہ انتہائی نرم خو تھے تو
دوسری طرف حق گوئی و بے باکی ایسی کہ بادشاہان وقت کے سامنے بھی علمِ صداقت
بلند کرنا ان کاایمانی شیوہ تھا۔
آج ہمارا اسلام دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے۔ ایک اسلام مسجد و منبر اور
کتب و رسائل میں مقید ہے تو دوسرا کوچہ و بازار میں۔ ان دونوں اسلام میں
اتنا فرق ہے کہ اسلام کی اصل شبیہ کردار کے روپ میں بہت کم نظر آتی ہے۔ وہ
لوگ لائق تکریم اور قابلِ تقلید ہیں جو اس دورِ پر آشوب میں اپنے قول و فعل
کے محافظ ہیں۔ جن کا کردار آئینے کی طرح صاف و شفاف ہے۔ جو اپنے قول و فعل
سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی تربیت کا بھی
ماحول بنایا جائے۔ یہ کام مدارس اور خانقاہیں اب بھی بہتر طور پر کر سکتی
ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی ہر گھر میں اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
بچوں کے سامنے قول و فعل کے تضاد سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کی جائے۔ بڑی
بڑی باتیں اور دعووں سے گریز کیا جائے۔ غیر مسلم دوستوں کے سامنے کوئی ایسی
بات نہ کہی جائے جس سے اسلام کی شبیہ خراب ہو۔ دروس قرآن و احادیث کے ساتھ
ساتھ اخلاقی تربیت کی بھی نشستیں آراستہ کی جائیں اور علم کے ساتھ ساتھ
اپنے عمل کے ذریعہ بھی اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیوں
کہ
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
جو کام کہ انسان کا کردار کرے ہے |