گھڑی پر ٹائم دیکھ کر خوشی کہ مارے نکلنے والی چیخ کو اس
نے بمشکل منہ پر ہاتھ رکھ روکا۔ اور ہاتھ ہٹاتے ہی زور سے ہنسی۔ آئینے میں
خود کو دیکھا اور مطمئین ہو کر بالوں کو جھٹکا دیا اور پلٹ گئی۔ وہ مکمل
تیار تھی۔ صبح آٹھ بجے ہی وہ اٹھ کر تیار ہوئی وہ جیسے آج عید ہو۔
سفید چوڑی دار پجامہ جس کے اوپر امبریلا فراک اور کندھوں پر لمبا سبز ڈوپٹہ
ڈالے، کانوں میں چاندی کے جھمکے، پاؤں میں سبز و سفید جوتا اور لبوں پہ
مسکان۔۔۔۔
وہ ایک پیارا سا پاکستانی جھنڈا لگ رہی تھی۔
اور یہ وہی جانتی ہے کہ اس "میچنگ" کہ لیے وہ تین دن بازار میں خواری کاٹ
کر آئی تھی۔
کمرے سے نکل کر وہ لاؤنج میں آ بیٹھی اور ٹی وی لگایا۔ چینل سرفنگ کرکے
مطلوبہ چینل پر رکی اور اشتیاق سے ٹھوڑی مٹھی پر رکھے ٹی وی شو میں گم
ہوگئی۔
پہلے پریڈ دیکھی پھر دوسرا چینل بدلا جس پر ملی نغمے لگے تھے۔ آواز اونچی
کرکے وہ مکمل طور پر آوازوں میں گم تھی اور اسکے لب نغموں کے بول کے ساتھ
ساتھ ہل رہے تھے۔
دل دل پاکستان۔۔۔
ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا چینل۔۔ جہاں جہاں اسے چودہ اگست کے پروگرام نشر
ہوئے نظر آئے وہ انہماک سے دیکھتی رہی۔
"افوہ آپی۔ آج بھی صبح صبح آپ ٹی وہ کے آگے ڈیرا ڈال کر بیٹھ گئی ہیں"۔
شانی بڑی شان سے اس کے ساتھ صوفے پر آکر گرا۔ پیچھے سے ابا ان کے دادا ابو
بھی آگئے۔
جو یقیناً شور سن کر آئے تھے۔
"تمہیں کیا میں جہاں بھی ڈیرا ڈالوں۔۔ چپ کرکے بیٹھو"۔ اپنے چھوٹے بھائی کو
ڈپٹ کر وہ دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئی۔
"یار ابا جی! یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔ چودہ اگست ہے تو کیا صبح صبح تیار ہوکر
ٹی وی دیکھنے لگ جاؤ؟ ہیں؟ بندہ اور بہت کچھ کر سکتا ہے"۔ یہ شانی کا سوال
تھا۔
"مثلاً اور کیا؟" حرا نے فوراً مڑ کر پوچھا۔
"گلی میں جاکر دوستوں کے ساتھ کھیلو۔ گھر میں جھنڈیاں لگاؤ۔ دعوت شعوت کرو
وغیرہ"۔
"لیکن مجھے ایسے مزا آتا ہے۔۔۔ " وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگی تو شانی بھی
بڑبڑا کر ٹی وی دیکھنے لگا۔ اور ابا بھی ویل چئیر گھسیٹ کر ٹی وی کے سامنے
بیٹھ گئے۔
دو چار شو دیکھنے کے بعد حرا اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ ابا جی جانتے تھے وہ
کیا کرنے گئی ہے۔
"لو جی۔۔ چلی گئیں محترمہ۔۔ یار ابا جی آٹھ بجے اٹھ کر دس بجے تک ٹی وہ
دیکھ کر آدھا گھنٹہ کوئی کمرے میں آزادی کا چشن کیسے مناتا ہے؟"۔
"تمہاری آپی کو میں نے ایک بہت اچھی کہانے سنائی تھی۔۔۔ تمہیں سناؤں؟" ابا
جی مسکرا کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
"میں بہت چھوٹا تھا جب پاکستان آزاد ہوا۔ دو سال کا۔ پاکستان آکر مجھے میرے
بھائی نے کہانے سنائی کہ کیسے ابو نے ہمیں پاکستان تک پہنچایا۔۔۔۔
وہ گہری رات تھی۔ ہم ٹرین میں بیٹھے تھے۔ اور امی رو رہی تھیں۔ اور میں
اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں لیے چپ کروا رہا تھا۔ خود میری آنکھ سے آنسو
بہہ رہے تھے۔
ابو رہ گئے تھے، بہت پیچھے اور ہم بہت آگے نکل آئے تھے۔
سٹیشن پر بہت رش تھا۔ لڑائیاں حملے جھڑپ۔۔ ناجانے کیا کیا ہورہا تھا۔ ہم
پاکستان کی طرف جانے والی ٹرین میں بیٹھنا چاہتے تھے۔
وہاں دروازے کے سامنے جو لوگ کھڑے تھے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ
اندھا دھند دوسروں کو مار رہے تھے۔ بغیر دیکھے کہ کون اس کے سامنے ہے۔
ابو نے بہت مشکل سے ہمیں ٹرین میں بیٹھایا۔ وہ خود مار پیٹ کی ضد میں آگئے
لیکن ہمیں ٹرین میں بیٹھا ہی دیا۔ ابو کے سر سے خون نکل رہا تھا اور امی
تمہیں سینے سے لگائے چیخ رہی تھیں۔ وہاں کوئی نوجوان تھا۔ اس نے ابو کی مدد
کی۔ اس نے فوراً امی کو ٹرین میں چھڑایا، پھر میرا کاتھ پکڑ کر ٹرین میں
سوار کیا۔ ابو کی مدد کے لیے جب وہ آگے بڑھا اسے بھی کئی وار سہنے پڑھے۔ وہ
سر پکڑ کر گیا۔ میرا ہیرو گر گیا۔۔
ابو بھی خون میں لت پت وہیں ڈھے گئے اور ہاتھ سے ہمیں کچھ اشارہ کیا۔
شاید کہہ رہے ہوں کہ "جاؤ اور اپنا خیال رکھنا"۔ پھر میری طرف دیکھ کر وہی
اشارہ کیا۔ "سب کا خیال رکھنا محمد بن رضا"۔ اور ٹرین چل پڑی۔ "ابووو" میں
باہر کی طرف لپکا لیکن کئی لوگ اندر چڑھ رہے تھے مجھے راستہ نا مل سکا۔
میرے ابو نے قربانی دے دی۔ اس نوجوان نے قربانی دے دی۔ ہمارے لیے۔ نا جانے
کتنے اور لوگوں کے لیے۔ ناجانے کتنے لوگ قربان ہوئے ہونگے۔ ناجانے کتنے لوگ
بچھڑے ہونگے۔
ناجانے کرنے محمد بن رضا کہ کندھوں پر ذمہ داریاں آئی ہونگی۔
ناجانے کتنی ان سنی داستانیں ہونگی۔ نا جانے کتنی اذیتیں ہونگی جو لوگوں نے
سہی ہونگی۔۔۔ صرف آزادی کے لیے۔۔۔ پاکستان کے لیے"۔
ابا جی روہانسے ہوگئے تھے۔ خود شانی بھی جذباتی ہوگیا تھا۔
"اس دن سے میری بہت یادیں جڑی ہیں۔ ہمیں ان سب لوگوں کو نہیں بولنا چاہئے
شانی بیٹا۔ ہمیں انہیں یاد رکھنا چاہئے۔ ہمیں اس دن خوش بھی ہونا چاہئے۔ کہ
کسی نے قربانی دی ہے اس دن کی خاطر۔۔"
"تو ابا جی اس کا مطلب ہم صبح صبح اٹھ کر ٹی وی پروگرام دیکھیں اور تیار
ہوں؟"
"نہیں بیٹا۔ حرا یہ سب وطن کی محبت میں کرتی ہے، اسے یہ سب اچھا لگتا ہے۔
تم بچوں کو تو انجوائے کرنا چاہئے۔ اور بڑے ہوکر وطن کی بہتری کے لیے کچھ
کرنا چاہیے۔"
"لیکن ابا جی! میں تو چھوٹا ہوں میں کیا کروں؟" شانی نے سوال کیا۔
"تم۔۔۔تم گھر سجاؤ ، مزے کرو۔۔"
"نہیں ملک کے لیے؟"
"ابھی تو تم چھوٹے کو، بڑے ہوکر ملک میں جو برا لگے اسے ختم کرنے کی کوشش
کرنا۔ خود کو اچھا بنا کر۔ جب ہم اچھے ہونگے تو ملک اچھا کر سکیں گے نا؟"
ابا جی نے مسکرا کر کہا۔
"وہ تو میں کرلوں گا۔۔ لیکن ابھی کیا کروں؟"
ابا جی نے اس کا گال تھپکا۔ "پیار۔۔۔ اور۔۔"
"پیار اوکے، میں کرتا ہوں پیار پاکستان سے۔ اور کیا کروں؟"
"دعا!! سب کے لیے، ملک کے کیے جو گزر گئے ان کے لئے۔۔ اور جو ہیں ان کے
لیے، جو آئینگے ان کے لیے۔ حفاظت کے لیے، عزت کے لیے، سلامتی کے لیے۔"
"یاں یہ میں کر سکتا ہوں۔۔۔" شانی چہک کر بولا تو ابا جی نے اسے پیار کیا۔
ادھر کمرے میں سفید ڈوپٹہ چہرے کے گرد لپیٹے حرا نفل ہڑھنے کے بعد جائے
نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی۔ "پاکستان" کے لیے۔
|