کِت جا ری ہے پتری؟؟ دادا جی نے اسے باہر جاتا دیکھ کر
پوچھا
ادھر ای بابا۔ اس نے مڑ کر جواب دیا
دیکھ کے پتری باہر جلسہ ہو رہیا ہے۔ حالات ٹھیک نئیں آجکل۔ دادا جی نے فکر
مندی سے کہا
کچھ نئیں ہوندا بابا۔ تیں۔فکر نہ کر۔ وہ اتنا کہہ کر باہر نکل گیا۔ باہر
نکل کر وہ یونہی بے مقصد ادھر ادھر ٹہلنے لگا تھوڑی دور چل کر کر ایک جگہ
اسے لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔وہ بلا ارادہ ہجوم کی جانب چل پڑا۔ تھوڑا قریب
پہنچا تو اسے ہجوم سے خطاب کرنے والے کی آواز سنائی دینے لگی۔غالباً وہ کسی
خاتون کی آواز تھی۔
ہم آپ کے بچوں کو تعلیم دیں گے۔نوجوانوں کو روزگار دیں گے۔بزرگوں کو سفری
سہولیات اور آپ کی بچیوں کو معاشرے میں عزت بھرا مقام دلائیں گے۔
وہ تھوڑا اور قریب گیا تو آواز واضح سنائی دینے لگی۔اس کے قدم جہاں تھے
وہیں رک گئے۔یہ تو اسی دشمن جاں کی آواز تھی جسے وہ ہزار آوازوں میں بھی
پہچان سکتا تھا۔وہ تیزی سے ہجوم کی جانب بڑھنے لگا۔اس کی کوشش تھی کہ جو
لوگ آخر میں کھڑے ہوئے ہیں ان کو ادھر ادھر کرتا آگے چلا جائے۔باوجود کوشش
کے جب وہ بہت آگے نہ جا سکا تو وہیں کھڑا آوازیں دینے لگا
ضوفی؟؟ضوفی؟؟ بھگوان کے لیے میری بات سنو۔کیوں بھاگ رہی ہو مجھ سے؟؟میں نے
تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔کہاں چلی جاتی ہو۔مجھے چھوڑ کر؟؟
سکیورٹی کے کچھ لوگ اسے آگے جانے سے روک رہے تھے جبکہ وہ شور مچاتا ان سے
خود چھڑاتا آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا
ارے یہ کون ہے جو اول فول بک رہا ہے؟؟
مجھے تو لگتا ہے یہ امیشاء پاٹیل کا کوئی بوائے فرینڈ تھا جس کو اس نے اب
چھوڑ دیا ہے۔
لیکن وہ تو کوئی اور نام لے رہا ہے۔
کیا معلوم نام کچھ اور بتایا ہو اس نے۔
ہاں بھائی مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔
ہر جانب کچھ اسی قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں
جس کا اپنا کردار ٹھیک نہیں وہ ہماری بچیوں کو کیا خآک عزت والا مقام دلائے
گی۔ چلو بھائیو ہمیں نہیں رکنا یہاں۔ہاں ہاں ہمیں نہیں رکنا۔چلو چلو۔
آہستہ آہستہ پنڈال خالی ہونے لگا۔میڈیا کو بھی آج کے لیے بریکنگ نیوز مل گئ
تھی۔ہر کسی کی یہی کوشش تھی کہ یہ خبر ان کے چینل کی زینت بن جائے۔پارٹی کے
لوگوں نے اسے حتی الامکان ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی مگر وہ میڈیا کے ہتھے
چڑھ ہی گیا۔
سر کیا ہم آپ کا نام جان سکتے ہیں؟
آپ امیشاء پاٹیل جی کو کب سے جانتے ہیں؟
کیا انہوں نے آپ کے ساتھ فلرٹ کیا تھا؟ کیا وہ اس سے پہلے بھی کسی کے ساتھ
ایسا کر چکی ہیں؟؟
میڈیا والوں نے بھانت بھانت کے سوالات کیے مگر وہ خاموش رہا۔در حقیقت وہ
خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔اسی دوران کچھ لوگ آئے اور
اسے کھینچتے ہوئے ایک گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ایک ویران جگہ لیجا کر اس سے
اگلوانے کی کوشش کی گئی کہ آیا اسے ان کے مخالفوں کی حمایت تو حاصل
نہیں؟لیکن کوئی جواب نہ پا کر اس کی خوب دھلائی کر دی اور ادموہا سا کر کے
اسی جگہ پھینک گئے۔دادا جی کے کسی جاننے والے نے دیکھ کر گھر پہنچایا۔
بولا تھا نا مت جا پر تیں سن دا ای نئیں۔ گرم روئی کپڑے میں لپیٹے دادا جی
اس کے چہرے پر گرمائش دیتے ہوئے بولے مگر وہ خاموش رہا۔دادا جی نے کچھ دن
اسے گھر سے باہر نہ جانے دیا۔جب معاملہ کچھ ٹھنڈا ہو گیا تو تب اسے باہر
جانے کی اجازت ملی اسی لیے وہ آج ہاتھ میں بڑی سی چھری لیے مسواک لینے باہر
جا رہا تھا۔جیسے ہی وہ گھر سے باہر نکلا کچھ لوگ اسے گاڑی میں بٹھا کر لے
گئے۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر اسے یوں کیوں اٹھایا گیا ہے۔کچھ دیر
بعد گاڑی ایک بڑے سے گھر کے سامنے رکی جہاں ایک پولیس وین پہلے سے ہی موجود
تھی۔اسے گاڑی سے نکال کر پولیس وین میں بٹھا دیا گیا اور چھری اس سے لے کر
ایک کپڑے میں لپیٹ لی گئی۔
اچھا تو گرمکھ صاحب اب ہم چلتے ہیں۔ ہم نے اپنا مجرم آلہ قتل سمیت گرفتار
کر لیا ہے۔ پولیس والا مکروہ سی مسکراہٹ لیے امیشاء پاٹیل کے پی اے سے ہاتھ
ملاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
اور ہاں ہمارے بہادر جوان کا ذکر کرنا مت بھو لیے گا جس نے اپنی جان پہ
کھیل کر قاتل کو پکڑا اور آپ کے حوالے کیا۔ پی اے صاحب نے آنکھ مارتے ہوئے
کہا جس پہ سب نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
ضرور ضرور آپ نے ہمارا خیال کیا ہم آپ کا خیا کریں گے۔ اتنا کہہ کر پولیس
والا وین میں بیٹھا اور وین چل پڑی۔
چھوڑو مجھے۔ میں نے کیا کیا ہے؟میرا جرم تو بتاءو مجھے۔ وہ چیختا ہی رہ گیا
مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ تھانے لیجا کر اسے بند کر دیا گیا۔ کچھ ہی
دیر میں یہ خبر ہر طرف آگ کی طرح پھیل گئی ہر چینل پر یہی خبر چل رہی تھی
کہ امیشاء پاٹیل کا نام نہاد عاشق جو ان کے جلسہ میں اپنے جھوٹے معاشقے پہ
شور کر رہا تھا آج ان کے گھر کے باہر سے پکڑا گیا۔
جی وہ گھر کے اندر داخل ہونے پہ بضد تھا میں نے روکنا چاہا تو مجھے دھکیل
کر اندر چلا گیا۔ امیشاء پاٹیل کا گیٹ کیپر اس وقت میڈیا کے سوالوں کے
جوابات دے رہا تھا۔
آپ کو یہ کس وقت اندازہ ہوا کہ وہ امیشاء جی کو قتل کی غرض سے آیا ہے؟ ایک
مشہور چینل کے نمائندے نے پوچھا
جی وہ مجھے دھکیل کر جب اندر گیا تو سیدھا مالکن کے کمرے کی طرف گیا اس وقت
اس کے ہاتھ میں ایک چھری بھی تھی۔ میں نے اسے مالکن تک پہنچنے سے پہلے ہی
پکڑ کر نیچے گرا لیا تھا۔ اسی دوران شور سن کے گھر کے باقی ملازمین بھی آ
گئے اور ہم نے مل کر اسے پولیس کے حوالے کیا۔ گیٹ کیپر سے سوال پوچھنے کے
بعد سب نے امیشاء پاٹیل پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
امیشاء جی آپ نے اس دن اس بات کی تردید کی تھی کہ اس شخص سے آپ کا کوئی
تعلق نہیں تو پھر آج وہ پھر سے آپ کے گھر کیوں پایا گیا؟ ایک جانب سے بہت
چبھتا ہوا سوال پوچھا گیا
دیکھیں میں نے اس دن بھی بتایا تھا کہ یہ سرا سر الزام ہے مجھ پر۔ میرا اس
شخص سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارے مخالفین کی چال تھی جو کہ ناکام رہی۔ یہی
وجہ ہے کہ انہوں نے اب مجھے مروانے کی کوشش کی۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ
چونکہ میری جان کو خطرہ ہے اس لیے مجھے سکیورٹی فراہم کی جائے اور اس شخص
پہ اقدام قتل کا کیس چلا کر اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ پولیس والا اسے
اپنے موبائل پر یہ سب دکھا رہا تھا
جھوٹ۔ سب بکواس ہے۔ میں نء ایسا کچھ نہیں کیا۔ میں دیکھ لوں گا تم سب کو۔
وہ سلاخوں کے پیچھے چلا رہا تھا لیکن اس کی پکار پولیس والوں کے قہقہوں میں
گم ہوتی جا رہی تھی۔وہ بہت دیر تک آہ زاری کرتا رہا آخر تھک کر بیٹھ گیا
پھانسی کا پھندا تمہارا انتظار کر رہا ہے بیٹا۔ اور زعر سے چیخ تو تو نہیں
بچنے والا اب۔ بلا لے جس کو بلا سکتا ہے مدد کے لیے۔ ہاہاہا۔ اسے وہ سب زہر
لگ رہے تھے اس وقت۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان سب کا منہ نوچ لے لیکن
وہ بے بس تھا۔ آخر اس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ
سے فریاد کرنے لگا۔
اللہ مجھے بچا۔دادا جی کہتے ہیں اللہ سب دیکھتا ہے۔ لیکن میں تو تب ہی
مانوں گا نا یہ بات جب میری بے گناہی سب پہ ثابت کر کے تو مجھے یہاں سے
نکالے گا۔تو میری راہ آسان کر میں تجھے مان کر تیری راہ اپنا لوں گا۔ چہرے
پہ ہاتھ پھیر کر وہ بہت مطمئن سا ہو کر ایک جانب بیٹھ گیا۔
|