سب جانتے ہیں مگر۔۔۔

انتخابات 2018ء اپنے اختتام کو پہنچ گئے ہیں تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کامیاب اُمیدواروں کا باضابطہ نوٹی فیکشن جاری نہیں ہوا ہے۔ جو کہ سات اگست کو جاری کیا جانے کا امکان ہے۔ اس کے بعدقومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی تشکیل کا عمل مکمل کیا جائے گا۔تا حال انتخابات کے حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کا ایک ایساناتمام سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ عام انتخابات تک جاری رہے گا کیوں کہ اس میں دھاندلی کی شکایات اور ثبوت ، سیاسی جماعتوں کی جانب سے نتائج کو مسترد کرنے اور احتجاجی پروگرام ، آر ٹی ایس اور آرایم ایس کی ناکامیاں وغیرہ طشامل ہوچکی ہیں۔

ہم دوست حسب معمول عصر کے وقتچاچا کے ساتھ بیٹھے محوِ گفتگو تھے جو گرمی کی شدت اور حبس کی وجہ سے قمیض اُتارے ،ہاتھ کا پنکھا لئے جَھل رہا تھا۔ ’’اس با ر تو انتخابات میں خیبر پختون خوا کی سیاسی بساط میں تاریخی تبدیلی آگئی ہے‘‘۔ ایک دوست نے کہا۔ ’’خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت نے مسلسل دو بار کامیاب ہو کر حکومت نہیں بنائی ہے لیکن اس بار پاکستان تحریک انصاف نے تو کمال ہی کردیاجنہوں نے حالیہ انتخابات میں گزشتہ کی نسبت زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے واضح اکثریت حاصل کرلی ہے اور اس بار تو اُن کو خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کے لئے چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی‘‘۔ ’’اس بار تاریخ ضرور بدلی ہے لیکن اس میں کوئی تاریخی بات نہیں ہے‘‘۔ چاچا اگر چہ ساون کی گرمی سے بے حال تھالیکن تحمل سے بولتے ہوئے کہنے لگا ۔ ’’آپ ذرا اُن کی پچھلی پانچ سالہ کارکردگی تو دیکھیں۔ کون سی ایسی تبدیلیاں یہاں آئی ہیں کہ ان کو دوبارہ حکومت بنانے کو موقع ملا۔ اُن کے کئے گئے وعدے ، کتنے ایفاہوئے ۔سب جانتے ہیں۔تعلیم ، صحت، پولیس اور پٹوارخانے کا نظام آپ سب کے سامنے ہے۔ تعلیمی اعداد و شمار میں سرکاری سکولوں کی حالت ابتر ہے ۔ گزشتہ برسوں اور امسال تعلیمی بورڈوں کے نتائج سب کے سامنے موجود ہیں۔ پہلی تمام پو زیشنوں پر نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات برا جمان ہیں۔ صحت کے انصاف کارڈ کی حالت زار کا نہ پوچھیں ۔ آپ کو اس کارڈ پر سردرد کی گولی تک میسر نہیں آئے گی۔ پولیس اور پٹواریوں کی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشرابا اضافہ کیا گیاتاکہ وہ مالیبد عنوانیوں سے باز رہیں لیکن کرپشن تو ان محکموں کی نس نس میں رچی بسی ہے۔جیسا کہ ذوقؔ فرماتے ہیں۔
اے ذوقؔ دیکھ دختررز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

اب تو پولیس والوں اور پٹواریوں نے اپنے سٹیٹس کے اَپ ڈیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ریٹ بھی آسمان کی بلندیوں تک بڑھا دیئے ہیں‘‘۔ چاچانے پسینہ پونچھتے ہوئے قدرتوقف سے کہا۔ ’’تاریخی بات تو تب ہوتی جب یہاں سارے نظام ٹھیک کام کرتے۔ یہاں تو سب ویسے کا ویسا ہی ہے‘‘۔ ہم چاچا کی باتوں کو خاموشی سے سن رہے تھے۔ ان سے اس وقت بحث کرنا ، ان کی باتوں کو رد کرنا یا ان کا جواب دینا آ بیل مجھے مار کے مصداق تھا۔ گرمی سے چاچا مکمل شرابور ہو چکا تھا اور گرمی کی شدت اور بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے اس کا پارہ مزید اوپر کو پہنچ سکتا تھا۔ہم نے پوچھا ۔’’چاچا!اگر خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کا گراف اپنے معیار سے نیچے تھا تو پھر کون سی ایسی وجہ تھی کہ ان کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا‘‘۔’’سب جانتے ہیں اور سب ٹھیک ٹھیک اور سچ سچ جانتے ہیں کہ کون تھا اس تاریخی تبدیلی، مرکز اور صوبوں میں ان کی کامیابی کے پیچھے۔مگر افسوس سچ بولنے اور لکھنے کی جرأت و ہمت کسی میں نہیں ہے اورجو جر أت کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بھی دبے دبے الفاظ میں بات کرتے اور لکھتے ہیں۔ایک دن ضرور آئے گا کو وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے لیکن اُس وقت تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہوگی‘‘۔ چاچا کی ان معنی خیز باتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھااور ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.