مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے اپنے سفرکا آغاز
شروع کرچکے ہیں پوری دنیا کے مسلمان مناسک حج کیلئے بلدمحترم میں پہنچ چکے
ہیں۔انسان کا دین مناسک حج کی اداکرنے سے مکمل ہوتا ہے اور ان کو روحانی و
معنوی غذامیسر آتی ہے۔صحیح روایت یہ ہے کہ رمضان کے اختتام کے ساتھ ہی حج
کے ایام شروع ہوجاتے ہیں۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج کے ایام بس صرف ذی
الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں یہ خیال ایک وہم سے زیادہ کچھ نہیں۔ذی الحجہ کے
ابتدائی دس دن ایام تشریق میں سے ہیں جن کا اختتام مناسک حج کی تکمیل کے
بعد ہوتاہے۔اﷲ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ــ’’حج کے چند مہینے معلوم
ہیں،پھر جس شخص نے لازم کرلیا ان میں حج تو بے حجاب ہونا جائز نہیں عورت سے
اور نہ گناہ کرنا اور نہ جھکڑاکرنا اور نہ حج کے زمانے میں اور جو کچھ تم
کرتے ہونیکی اﷲ جانتاہے اور زادہ راہ لے لیا کرو کہ بیشک بہتر زادراہ کا
بچنا ہے سوال سے اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقلمند‘‘۔اس آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ
روحانی اور نفسیاتی حج رمضان کے مہینے کے اختتام سے شروع ہوتاہے اور ایام
تشریق کے اختتام کے ساتھ حج کی تکمیل ہوجاتی ہے جبکہ حاجی اپنے علاقوں
کوفائدہ مندہوتے ہوئے لوٹ کر آجاتے ہیں ۔جب انسان حج کا ارادہ کرلے تو لازم
ہے کہ وہ اس پر صدق نیت کرے اور اس فریضہ کی تکمیل کے لئے لوازمات اور حج
کی تیاری کا اہتمام کرے۔
نسل انسانی میں اختلافات ، پریشانی اور جھکڑوں کا روارہنا فطرتی امر ہے ان
سب مشکلات پرپختہ نیت رکھنے والا ہی غالب آسکتاہے جیسے حج کے ایام میں
انسان اپنے غصہ کو قابو میں رکھتاہے ،وہ نہ فسق کے قریب جاتاہے اور نہ ہی
بے حجابی کو اختیار کرتاہے ان گنتی کے مہینوں میں ،بعض لوگ کی عادات ہیں کہ
وہ حج کے سفر پر روانگی سے قبل تک نافرمانی اور برائی کا راستہ اختیار کرتے
رہتے ہیں ،یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص برائی کو ترک نہیں کرتایہاں تک کہ
حج پر روانہ ہوجاتے ہیں، ان کا حج مقبول ہوسکتاہے؟اور اپنے اور دوسروں کے
حق میں ناجائز تصرف کرتاہے؟اﷲ نے لوگوں کو سچی توبہ کرنے کا بہترین موقع
عطافرمایاہے ان مہینوں کے ذریعہ سے جس کے سبب انسانیت حقوق کی ادائیگی کرتے
ہیں اپنے دوستوں کے بارہ میں اور کسی پر ظلم نہیں کرتے،نہ چھوٹے گناہ کے
قریب جاتے ہیں اور نہ ہی حج سے واپسی کے بعد لوگوں کے حقوق میں تاخیر
کرتاہے ،ایسے لوگ جواپنے اعزہ و اقارب کے حقوق کی ادائیگی ادانہیں کرتا تو
اس کا حج کا کوئی فائدہ نہیں لہذا معلوم ہونا چاہیے کہ مندرجہ بالا حقوق کی
ادائیگی مناسک حج میں سے ہے ۔حج کی ادائیگی پر جانے والے کے لئے ضروری ہے
کہ جو مال سفر حج پر خرچ کیا جائے وہ حلال و طیب ہونا ضروری ہے اگر مال
حرام کا ہوتو یہ سفر حج پر خرچ نہیں کیا جاسکتا۔حج پر روانگی سے قبل لازم
ہے کہ انسان کا دل اور نفس ہمہ جہت پاک ہونا چاہیے ،اگر حج کا سفر مکمل
طہارت اور پاکیزگی کے ساتھ کیا جائے تو ہی حج مقبول و مبرور ہوتاہے کیونکہ
یہ سفر مقدس ہے۔
مناسک حج کی تکمیل کے لئے واجب ہے کہ حاجی کا قلب مصفی ہو تمام برائیوں اور
بدکاریوں سے ،اور یہ سفر مبارک و نیک ہو نا چاہیے ،آپس میں کسی قسم کا کوئی
جھکڑا یا اختلاف و انتشار قابل قبول نہیں ،یہاں تک کے جدال اور زبان درازی
کی اجازت ہے،قرآن میں ذکر ہے کہ ’’حج میں جھکڑا نہیں‘‘اسی طرح حاجی کو
بدعات وخرافات کے مرتکب ہونے سے روکا گیا ہے،حج میں حاجی چالیس دن گذارتے
ہیں اس میں کسی بھی درجہ کی بدعت و خلاف شرع امر کی اجازت نہیں ہے۔یہاں ایک
خاص امر کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔علما کو چاہیے کہ جب وہ خطاب کریں
اور اس میں حج کے احکامات و فرائض کو بیان کریں تو اس میں یہ ذکر کردیں کہ
صرف مناسک حج کی ادائیگی کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس عظیم
اجتماع کے ذریعہ سے مسلمانان عالم کے مسائل و پریشانیوں کے حل کرنے پر غور
و فکر کریں ۔
اسلام یہ بتاتاہے کہ حج کے اس عظیم عالمی اجتماع کے توسط سے مسلمان فائدہ
حاصل کرسکتے ہیں،کیاصرف مناسک حج کے اداکرلینے سے منافع یا فائدہ حاصل نہیں
کیا جاسکتاہے؟،مسلمانان عالم سخت آزمائش کے دور سے گذر رہے ہیں ،ایک طرف
مسلمان فقر و فاقہ کے شکار ہوں اور دوسری جانب مسلم ممالک میں عطائے
خداوندی سے ملنے والے خزانوں کا بے دریغ غلط استعمال کیا جارہاہو،مسلمان
ملکوں کے پاس مال کی کثرت کے باوجود عالم اسلام تعلیمی و فکری اور تہذیبی
زوال کا شکار ہو یہ امر عجب ہے۔۔۔۔مسلمانوں کی تکالیف و مسائل کا دائرہ
لامحدود ہوتاجارہاہے۔۔۔حج وہ واحد ذریعہ ہے جس میں یہ پیغام دیاجاسکتاہے کہ
مسلمانوں کو مشاکل سے نکالنے کی تدبیر کی جانی چاہیے اور اسی میں ہی حج کے
مناسک کی حقیقی روح کی تکمیل ہے۔ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے جتنے
اجتماعات ہوتے ہیں ان میں صرف جدال و نقاش بات چیت کا دور دورہ رہتاہے
سوائے چند ایک کے ،جب اﷲ نے حج کے ایام میں پرندوں کے شکار کو حرام قرار
دیا حج کے ایام میں کیوں کہ اس میں شخصی فائدہ پنہاں ہے ،اور حج میں کیڑے
مکوڑوں کے قتل کو بھی منع کردیا تو کیا وجہ ہے کہ مسلم اپنے مسلم بھائی کے
حقوق کا تحفظ نہ کرے اور اس کا احترام نہ کرے ،بدیہی بات ہے کہ مسلمانان
عالم کے مسائل کو حل کرنے کے لئے حج کے فریضہ سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے
،جیساکہ نبی کریم ؐ کی حدیث ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے امور کا اہتمام نہیں
کرتا وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔
تحریر:ڈاکٹر خالد فواد الازہری |