ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور قربانی کے احکام ومسائل

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

ماہِ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورۃ الفجر آیت نمبر ۲)میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَالْفَجْرِ وَلَيالِ عَشْرٍ) جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج کا اہم رکن: وقوف عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ احادیث میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضا ئل وارد ہوئے ہیں جن میں سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ صحیح بخاری

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں، لہذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو۔ (طبرانی) ان ایام میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے، تکبیر تشریق کے کلمات یہ ہیں: اَللّٰه اَکْبَرُ۔ اَللّٰه اَکْبَرُ۔ لَآ اِله الَّا الله۔ وَالله اَکْبَر۔ الله اَکْبَر۔ وَلِله الْحَمْدُ۔

عرفہ کے دن کا روزہ:
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ ( صحیح مسلم) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہذا ۹ ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔

وضاحت: اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں میں عرفہ کا دن الگ الگ دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ یوم عیدالفطر، یوم عید الاضحی، شب قدر اور یوم عاشورہ کے مثل ہر جگہ کے اعتبار سے جو دن عرفہ کا قرار پائے گا اُس جگہ اُسی دن میں عرفہ کے روزہ رکھنے کی فضیلت حاصل ہو گی انشاء اللہ۔

قربانی کی حقیقت:
قربانی کا عمل اگرچہ ہر امت کے لئے رہا ہے جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ (سورۃ الحج ۳۴) لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے اور اسی وقت سے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو قیامت تک جاری رہے گی انشاء اللہ۔ اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال ووقت ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔

حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی جس میں سے ۶۳ اونٹ کی قربانی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی اور بقیہ ۳۷ اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر (یعنی ذبح) فرمائے۔ (صحیح مسلم ۔حجۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد (ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں) کا عملی اظہار ہے اور اس عمل میں اُن حضرات کا بھی جواب ہے جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کہہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی کے بجائے غریبوں کو پیسے تقسیم کردئے جائیں ۔ اسلام نے جتنا غریبوں کا خیال رکھا ہے اس کی کوئی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی، بلکہ انسانیت کو غریبوں اور کمزوروں کے درد کا احساس شریعت اسلامیہ نے ہی سب سے پہلے دلایا ہے۔ غرباء ومساکین کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے شریعت اسلامیہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسا کہ ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ سنن دار قطنی، سنن کبری للبیہقی
اِن دِنوں بعض حضرات نے باوجویکہ کہ انہوں نے قربانی کے سنت مؤکدہ اور اسلامی شعار کا موقف اختیار کیا ہے ۱۴۰۰ سال سے جاری وساری سلسلہ کے خلاف اپنے اقوال وافعال سے گویا یہ تبلیغ کرنی شروع کردی ہے کہ ایک قربانی پورے خاندان کے لئے کافی ہے اور قربانی کم سے کم کی جائے جو سراسر قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ان ایام میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہئے۔

دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضاء الہی ہونی چاہئے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْياي وَمَمَاتِیْ لِله رَبِّ الْعَالَمين (سورۃ الانعام ۱۶۲) میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کی رضامندی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ نیز اللہ جلّ شانہ کا فرمان ہے: لَن یَّنَالَ اللّٰه لُحُوْمُها وَلَا دِمَاؤُها وَلٰکِن یَّنَالُه التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورۃ الحج ۳۷) اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

قربانی کی اہمیت وفضیلت:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی ۔ابواب الاضاحی) غرضیکہ حضورا کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی باوجویکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھرمیں بوجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں (بھی) نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ ۔ باب ثواب الاضحیہ)

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔ ترمذی ۔ باب ما جاء فی فضل الاضحیہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ سنن دار قطنی باب الذبائح، سنن کبری للبیہقی ج۹ ص ۲۶۱

قربانی واجب ہے:
قربانی کو واجب یا سنت مؤکدہ قرار دینے میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، مگر پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے خواہ اس کو واجب کہیں یا سنت مؤکدہ یا اسلامی شعار۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر میں اشیاء خوردنی نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی مہینے تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کو واجب قرار دیا ہے، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبلؒ کی ایک روایت بھی قربانی کے وجوب کی ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علماء نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے، کیونکہ یہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے۔ قربانی کے وجوب کے لئے متعدد دلائل میں سے چند پیش خدمت ہیں:
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم (سورۃ الکوثر) میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اس آیت میں قربانی کرنے کا امر (یعنی حکم) دیا جا رہا ہے اور امر عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے جیساکہ مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص ؒ (ولادت ۳۰۵ھ) اپنی کتاب(احکام القرآن) میں تحریر کرتے ہیں : حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت (فَصَلِّ لِرَبِّکَ) میں جو نماز کا ذکر ہے اس سے عید کی نماز مراد ہے اور (وَانْحَرْ) سے قربانی مراد ہے۔ مفسر قرآن شیخ ابوبکر جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ۱) عید کی نماز واجب ہے۔ ۲) قربانی واجب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ۔ باب الاضاحی ہی واجبہ ام لا، مسند احمد ج۲ ص ۳۲۱، السنن الکبری ج۹ ص ۲۶۰ کتاب الضحایا) وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور اس نوعیت کی سخت وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے، لہذا معلوم ہوا کہ قربانی کرنا واجب ہے۔

حضرت جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید الاضحی کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہئے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے) ذبح نہیں کیا تو اسے چاہئے کہ وہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کرے۔ (صحیح بخاری۔ باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد) حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عیدالاضحی کی نماز سے قبل جانور ذبح کرنے پر دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا حالانکہ اُس زمانہ میں صحابۂ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی۔ یہ قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے ۔

قربانی کس پر واجب ہے:
ہر صاحب حیثیت کو قربانی کرنی چاہئے جیساکہ حدیث میں گزراکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قربانی کے وجوب کے لئے صاحب وسعت ہونا ضروری ہے ۔ البتہ مسافر پر قربانی واجب نہیں، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ المحلی بالآثار لابن حزم ج ۶ ص ۳۷

قربانی کے جانور:
بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ (نر و مادہ) قربانی کے لئے ذبح کئے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔ (سورۃ الانعام ۱۴۳ و ۱۴۴)

قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے، لہذا بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔ (کتاب الاجماع لابن منذر ص ۳۷) حضرت حسن بصری ؒ (متوفی۱۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۷ ص ۶۵) حضرت امام سفیان ثوری ؒ (متوفی ۱۶۱ھ) فرماتے ہیں کہ بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔ (مصنف عبد الرزاق ج۴ ص ۲۳) حضرت امام مالک ؒ (متوفی ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ بھینس گائے ہی ہے (یعنی گائے کے حکم میں ہے) (موطا مالک باب ما جاء فی صدقہ الفطر) ہندوپاک کے جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ محمد بن عثیمین ؒ نے بھی بھینس کو گائے کے حکم میں شامل کیا ہے۔ بھینس عربوں میں نہیں پائی جاتی ہے، اس لئے اس کاذکر قرآن کریم میں وضاحت سے نہیں ہے۔ (مجموع فتاوی ورسائل شیخ ابن عثیمین ؒ ۳۴/ ۲۵) موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں میں یہی مذکور ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔

جانور کی عمر:
قربانی کے جانوروں میں بھیڑ اور بکرا بکری ایک سال، گائے اور بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
اگر قربانی کا جانور بکرا، بکری، بھیڑ یا دنبہ ہے تو وہ صرف ایک آدمی کی طرف سے کفایت کرتی ہے:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اعلاء السنن۔ باب ان البدنہ عن سبعۃ

اگر قربانی کا جانور اونٹ، گائے یا بھینس ہے تو اس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (صحیح مسلم ۔ باب جواز الاشتراک الخ.) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ قربانی کی۔ چنانچہ اونٹ سات آدمیوں کی طرف اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔ صحیح مسلم ۔ باب جواز الاشتراک الخ.

وضاحت: حجۃ الوداع اور صلح حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوئے تھے، اس پر قیاس کرکے علماء امت نے فرمایا ہے کہ عید الاضحی کی قربانی میں بھی اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔

قربانی کے ایام:قربانی کے تین ایام ہیں ۱۰ و ۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قرآن کی آیت (وَيذْکَرُوا اسْمَ الله فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایام معلومات سے مراد یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ تفسیر ابن ابی حاتم الرازی ج۶ چ ۲۶۱

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہئے۔ (صحیح بخاری۔ باب ما ےؤکل من لحوم الاضاحی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں، اس لئے کہ جب چوتھے دن قربانی کا بچا ہوا گوشت رکھنے کی اجازت نہیں تو پورا جانور قربان کرنے کی اجازت کہاں سے ہوگی؟
وضاحت: تین دن کے بعد قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت ابتداء اسلام میں تھی بعد میں اجازت دے دی گئی کہ اسے تین دن بعد بھی رکھا جاسکتا ہے۔ (مستدرک حاکم ج۴ ص ۲۵۹) اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی تو تین دن کے بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھا جاسکتا ہے تو کیا قربانی کی اجازت بھی سارے سال ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ تین دن کے بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں۔ موطا مالک ۔ کتاب الضحایا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن ۱۰ ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دو دن ہیں، البتہ یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) کو قربانی کرنا افضل ہے۔ احکام القرآن للطحاوی ج ۲ ص ۲۰۵

وضاحت: بعض علماء کرام نے مسند احمد میں وارد حدیث (کُلُّ اَیَّامِ التَّشْرِيْقِ ذِبْحٌ) کی بنیاد پر فرمایا کہ اگر کوئی شخص ۱۲ ذی الحجہ تک قربانی نہیں کرسکا تو ۱۳ ذی الحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں فرمایا ہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے متعلق وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ نیز اصول حدیث ہے کہ ضعیف حدیث سے حکم ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے تحریر کیا ہے کہ متعدد صحابۂ کرام مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی بھی یہی رائے تھی۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قربانی کو صرف تین دن تک محدود رکھا جائے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔

قربانی کرنے والا ناخن اور بال نہ کاٹے یا کٹوائے:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ لہذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو تو ذی القعدہ کے آخر میں فارغ ہوجائیں۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 169523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.