چہار جانب سے دھاندلی، دھاندلی کا شورِقیامت اُٹھا
لیکن ہم نے اِس پر کان نہیں دھرے کہ دھاندلی کا شور تو ہر انتخاب کے بعد
اُٹھتا ہے۔ اب مگر ہمیں بھی یقین ہونے لگا ہے کہ ’’اندرکھاتے‘‘ کچھ نہ کچھ
ہوا ضرور ہوگا۔ ہمارے اِس یقین کی وجہ ’’بابا رحمت‘‘ ہیں جنہوں نے ایک کیس
کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ’’پتہ نہیں الیکشن کمیشن کیسے چل رہا ہے۔
اچھا بھلا انتخابی عمل جاری تھا لیکن الیکشن کمیشن نے مہربانی فرما دی۔ میں
نے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خاں کوتین دفعہ فون کیا لیکن اُنہوں نے جواب
دینا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ میرے خیال میں شاید وہ اِس دِن سو رہے تھے۔
اِس روز تو اُن کا آر ٹی ایس سسٹم ہی بیٹھ گیا۔ الیکشن کمیشن نے اتنے پیسے
لگا کر آرٹی ایس سسٹم بنایا، وہ بھی صحیح نہیں چل سکا۔ جب ہمارے پاس کیسز
آئیں گے تو معلوم نہیں کیا کریں گے‘‘۔ یقیناََ چیف الیکشن کمشنر سو ہی رہے
ہوں گے۔ جب سسٹم ہی بیٹھ گیا تو وہ ’’ایویں خوامخواہ‘‘ جاگتے رہتے۔ ویسے
بھی وہ عمر کے جس حصّے میں ہیں اُس میں آرام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اِس لیے
خواہ ہم پر ’’توہینِ عدالت‘‘ ہی کیوں نہ لگ جائے، ہم تو یہی کہیں گے کہ
سردار رضا خاں نے بالکل ٹھیک کیا۔ہمیں یہ بھی یقین کہ جب انتخابات کے متعلق
کیسز بابا رحمت کے پاس آئیں گے تو وہ اِن میں سے ’’بہتوں‘‘ کو ’’پھڑکا‘‘ کے
رکھ دیں گے۔ خیر ’’گزشت آنچہ گزشت‘‘ اِس لیے سب پر ’’مٹی پاؤ‘‘۔ جوہوگا،
دیکھا جائے گا۔ اصل مزہ تو اُس وقت آئے گا جب ’’سیاسی دنگل‘‘ کے نامی گرامی
پہلوان پارلیمنٹ میں زور آزمائی کرتے اور دھما چوکڑی مچاتے نظر آئیں گے۔ تب
ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے ڈھیروں ڈھیر مواد اور قوم کو نئے نئے
ڈراموں کی تفریح میسر ہو گی۔ جس طرح سٹار پلس کے ڈرامے کئی کئی سال آن ایئر
رہتے ہیں، اُسی طرح اگلے پانچ سالوں میں (اگر یہ حکومت قائم رہی) قوم کو
نِت نئی دلچسپیوں کا سامان میسر آتا رہے گا۔
اگلے چند روز میں پاکستان کی پارلیمانی جمہوری تاریخ کے سب سے ’’بوڑھے‘‘
رَہنما، عمران خاں مسندِ اقتدار سنبھالنے جا رہے ہیں۔ سچّی بات ہے کہ ہمیں
تو علم ہی نہیں تھا کہ کپتان اتنے بوڑھے ہو چکے لیکن جب ہم نے محترم محمود
شام کا کالم پڑھا تو ہمارے چودہ کیا، اٹھائیس طبق روشن ہو گئے۔ اُنہوں نے
لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو 43 سال کی عمر میں مسندِ اقتدار پر براجمان
ہوئے، ضیاء الحق اور محمد خاں جونیجو ،دونوں نے 53 سال کی عمر میں ہی
اقتدار سنبھالا۔ جب محترمہ بینظیر نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اُس
وقت اُن کی عمر 35 سال تھی۔ نوازشریف 41 سال اور میر ظفر اﷲ جمالی 58 سال
کی عمر میں وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے جبکہ عمران خاں 65 سال کی عمر میں یہ
منصب سنبھالنے جا رہے ہیں۔ قوم کپتان کی اِس طویل العمری سے فیض یاب تو ہو
سکتی ہے کہ اُنہوں نے اپنی عمرِ عزیز کے 22 سال اِسی دشت کی سیاحی میں
گزارے ہیں۔ وہ تاریخِ پاکستان کے واحد شخص ہیں جن کا سیاسی سفر قومی اسمبلی
کی ایک نشست سے 115 نشستوں تک پہنچا۔ اِس لیے اُن سے زیادہ سیاسی تجربہ اور
کِس کو ہو سکتا ہے؟ مگر ۔۔۔۔۔ مگر مسٔلہ یہ آن پڑا کہ اُن کا سارا سیاسی
تجربہ دھرنوں، احتجاجی تحریکوں، سول نافرمانی ،جلاؤ گھیراؤ اور
غیرپارلیمانی زبان پر مشتمل ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اُن کے مشیر بھی شیخ
رشید جیسے جو پچھلے پورے دورِحکومت میں مارو، مَرجاؤ جیسی بڑھکیں لگا کر
سونامیوں کو اُکساتے رہے۔ اُنہوں نے تو کپتان کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ
احتجاجی تحریک کے لیے ’’لاشوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے، اگر کوئی لاش دستیاب نہ
ہو تو اُسے گولی مار کر اُس کی لاش کندھے پر اُٹھا لو۔
جب ایسے صلاح کار ہوں تو پھر مثبت سیاست کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن
اب اُس بوڑھے ’’نوجوان‘‘ کو مثبت سیاست کا ڈول ڈالنا ہوگا کیونکہ اب وہ
اپوزیشن بنچوں پر نہیں، حکومتی بنچوں پر براجمان ہوں گے۔ اُن کا سامنا
تاریخِ پاکستان کی سب سے مضبوط اپوزیشن سے ہوگا جو گِن گِن کے بدلے لینے کے
لیے تیار بیٹھی ہے۔ اپوزیشن رَہنما بیانات کی حد تک خواہ جتنا جی چاہے مثبت
سیاست کا ڈھنڈورا پیٹیں، وہ ایسا کریں گے نہیں۔ یہ مکافاتِ عمل ہے، کپتان
نے جو بویا، وہی کاٹنا پڑے گا کیونکہ اُن کی ساری سیاست میر تقی میر کے اِس
شعر کی مانند رہی
اتنی بھی بَد مزاجی ہر لحظہ میر تُم کو
اُلجھاؤ ہے زمیں سے ، جھگڑا ہے آسماں سے
کپتان نے ہمیشہ اپنے ہر سیاسی مخالف رہنماء کے خلاف غیرپارلیمانی الفاظ کا
بے محابہ استعمال کیا۔ اُنہوں نے ہر جھوٹا سچا الزام لگانے سے پہلے سوچا تک
نہیں کہ کل کلاں اُن کی باری بھی آسکتی ہے۔ نجم سیٹھی کے خلاف 35 پنکچروں
کا الزام لگایا اور بعد میں کہہ دیا کہ یہ تو سیاسی بیان تھا۔ سابق چیف
جسٹس افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرکے کہا ’’آپ کتنے میں بِکے؟‘‘۔ آصف
زرداری پر الزامات کی بارش کرتے رہے۔ ایک مؤقر روزنامے کے مالک کو متواتر’’
بکاؤ مال‘‘ کہتے رہے۔ میاں شہباز شریف پر رشوت پیش کرنے کا الزام دھرا لیکن
طُرفہ تماشہ یہ کہ جب یہ لوگ ہتک عزت کا کیس لے کر عدالتوں میں گئے تو کسی
ایک کیس میں بھی پیش ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب اپوزیشن کی گِن گِن کے
بدلے لینے کی باری ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ وہ لوگ اتنے ’’اﷲ والے‘‘ ہوں گے
کہ سب کچھ بھول جائیں۔ رانا ثنااﷲ نے تو صاف کہہ دیا ’’ ووٹ کو عزت دینے کی
بجائے بے توقیر کیا گیا، اِس بے توقیری کو ختم کرنے کے لیے ہر طریقہ
استعمال کیا جائے گا۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کسی انتہائی قدم کے حق میں
نہیں لیکن دیگر جماعتیں جن اقدامات کی بات کر رہی ہیں، آگے چل کر اُن پر
بھی عمل کیا جا سکتا ہے‘‘۔ رانا ثنااﷲ کے اِس بیان سے صاف ظاہر ہے کی
اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں حصولِ مقصد کی خاطر کسی بھی انتہائی قدم سے گریز
نہیں کریں گی۔ اِس لیے قوم کو نئی پارلیمنٹ میں’’دُھوم دَھڑکے‘‘ اور ’’جوتم
پیزار‘‘ کی نوید ہو۔
الیکشن کمیشن نے کامیاب ارکانِ اسمبلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ عمران
خاں نے قومی اسمبلی کے 5 حلقوں سے انتخاب میں حصّہ لیا اور پانچوں ہی سے
کامیابی نے اُن کے قدم چومے لیکن الیکشن کمیشن نے لاہور کے حلقہ 131 اور
راولپنڈی کے حلقہ 53 کے نتائج روک کر باقی تین حلقوں میں بھی مشروط کامیابی
کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ حلقہ 53 میں عمران خاں نے انتخابی ضابطۂ اخلاق کی
صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ ووٹنگ کے تقدس کو پامال کیا اور سرِعام
اپنے انتخابی نشان ’’ بَلّے‘‘ پر مہر لگائی جو جرم ہے اور اِس جرم کی سزا 6
ماہ قید ہے۔ کپتان غالباََ 15 اگست کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے جا رہے
ہیں اور الیکشن کمیشن 16 اگست کو اِس ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر فیصلہ
سنانے والاہے۔ اگر یہی جرم میاں شہباز شریف نے کیا ہوتا تو الیکشن کمیشن
اُن کو اب تک ’’پھڑکا‘‘ بھی چکا ہوتالیکن یہ فیصلہ کپتان کے بارے میں ہے،
جن کی راہ میں اگر سَدّ ِ سکندری بھی حائل ہو تو ’’مہربان‘‘ اُسے ٹھوکروں
سے ہٹا دیں گے۔
تازہ ترین خبر یہ کہ سپریم کورٹ نے لاہور کے حلقہ 131 میں دوبارہ گنتی کا
ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے وکیل نے کہا کہ عمران
خاں نے خود کہا تھا کہ سارے حلقے کھلوا لیں، اۃنہیں کوئی اعتراض نہیں۔ اِس
کے علاوہ جہاں جیت کا مارجن 5 فیصد سے کم ہو، وہاں دوبارہ گنتی کرائی جا
سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے عمران خاں کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے
ہوئے ہائیکورٹ کا حکم معطل کر دیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ’’حسنِ
کرشمہ ساز‘‘ کیا فیصلہ صادر فرماتا ہے لیکن کپتان کے سپریم کورٹ جانے سے کم
از کم یہ تو طے ہو گیا کہ ’’وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں‘‘ کے مصداق
یوٹرن کپتان کی نَس نَس میں سما چکا ہے۔
|